پینتالیس برس تک قارئین کے دِلوں پر راج کرنے والا انوکھا لکھاری چل بسا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنے قلم کے زور پر کس طرح وہ اپنے پڑھنے والوں کے دِلوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ نہ کوئی میڈیا کا سہارا نہ پبلک ریلیشننگ کا کاروبار‘ نہ اپنے اعزاز میں تقریبات منعقد کروانے کا کوئی سلسلہ۔ اخبار اور ٹی وی نے تو اس حیران لکھاری کو کبھی اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ خاص اہمیت دیںیا اپنے پروگراموں میں بلائیں۔ ادبی حلقوں نے بھی آٹھ سو سے زائد اور مقبول ترین اردو ناول لکھنے والے لکھاری کو اہمیت نہیں دی۔ ان کے اعزاز میں کبھی کوئی تقریب منعقد نہیں کی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے کرتا دھرتائوں کو بھی وہ کبھی دکھائی نہیں دیئے، ان پروگراموں میں اللہ جانے کن لوگوں کو بلایا جاتا ہے جنہیں پاکستان کا عام قاری جانتا تک نہیں۔ انگریزی زبان میں سی گریڈ ناول لکھنے والے کے پاس اگر پیسہ ہے اور وہ اس پیسے کا مناسب استعمال کرنا جانتا ہے تو پھر اسے ایک نامور‘عظیم لکھاری بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسے لوگ مہمان خصوصی کی کرسیوں پر براجمان ہی نظر آئیں گے۔ اخبارات اور چینلز بھی انہی کے آگے پیچھے ہوں گے۔ ایسے اکٹھ میں ہمیں اشتیاق احمد کبھی دکھائی نہیں دیئے۔ انہیں کبھی ادبی مافیا نے برابر بیٹھنے کی دعوت نہیں دی۔ حیرت اسی بات پر ہوتی ہے کہ ان تمام سہاروں کے بغیر اشتیاق احمد نے اپنا ادبی سفر، پورے طمطراق سے جاری رکھا۔ پینتالیس برس تک وہ مسلسل لکھتے رہے۔ 1970ء سے اشتیاق احمد کا ادبی سفر شروع ہوتا ہے اور 2015ء تک بغیر کسی تسلسل کے جاری رہتا ہے۔ اپنی وفات سے ایک دِن پہلے تک وہ
اپنی ادبی سرگرمیوں میں مصروف نظر آئے۔ اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول چھاپنے والے کراچی کے پبلشنگ ہائوس نے کراچی ایکسپوسنٹر میں اُن کے نئے خاص نمبر ''پہاڑ کا سمندر‘‘ کی اعزازی تقریب سجائی۔ اس تقریب میں اشتیاق احمد جیسے درویش صفت کو چاہنے والے نوجوان بھی شامل تھے اور وہ بھی جو جوانی کی حدود سے نکل چکے تھے اور جن کے بچپن کو اشتیاق احمد کے جاسوسی ناولوں نے یادگار بنا دیا تھا۔ انسپکٹر جمشید، محمود، فرزانہ، شوکی برادرز، جن کی یادداشتوں کا حصہ بن چکے تھے۔ اور وہ قارئین بھی تھے جو ٹین ایجر ہیں اور جنہوں نے اشتیاق احمد کو ان کے ناولوں کے ذریعے جانا۔ بک فیئر کے تینوں دن اشتیاق احمد کی موجودگی ان کے پڑھنے والوں اور چاہنے والوں کے لیے بہت کشش کا باعث تھی۔ اشتیاق احمد کے ناولوں پر مصنف کے دستخط لینے کے لیے قاری اُن کے اردگرد ہجوم لگائے رہے۔ ایک عمر کی ریاضت کے بعد لکھاری کے ارد گرد میڈیا کے نمائندے ان کا انٹرویو لینے کو بے تاب تھے۔ کیمروں کی چکا چوند، چینلوں کے مخصوص لوگو(LOGO) والے مائیک‘تصاویر، آٹو گراف کے خواہش مندوں کا ہجوم، شہرت، اور محبتیں، اس منظر میں سبھی کچھ تھا۔ اور جن دنوں میں اشیاق احمد اتنی محبتیں سمیٹ رہے تھے کسی کو خبر نہ تھی کہ اس کہانی کار کی زندگی کے یہ آخری دن ہیں۔ بک فیئر میں شرکت کے بعد اشتیاق احمد کراچی سے لاہور روانہ ہونے کے لیے ایئر پورٹ پر اپنی فلائٹ کے انتظار میں تھے کہ انہیں شدید ہارٹ اٹیک ہوا اور داستان گو خاموش ہو گیا۔
بطور ادیب اشتیاق احمد کی کنٹری بیوشنز کو دو تین حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلی بات کہ ہمارے ہاں بچوں یا پھر ٹین ایج گروپ کے لیے ادب میں ایک خلا نظر آتا ہے۔ اشتیاق احمد ان چند ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب توانائیوں کو کسی مثبت سرگرمی میں مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ منفی سرگرمیوں کی طرف جانے اور بھٹکنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کتاب کا چسکا لگ جائے تو اس سے بڑھ کر مثبت سرگرمی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اشتیاق احمد کے ناولوں نے سب سے بڑا کام تو یہ کیا کہ نوجوانوں کا تعلق کتاب سے جوڑا۔ اس محاذ پر ہمیں اشتیاق احمد تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے آٹھ سو مقبول ناول لکھے۔ اردو زبان میں اس ریکارڈ کا حامل اور کوئی ادیب نہیں۔ وہ جاسوسی ناولوں کے مضبوط پلاٹ میں، بہترین کردار نگاری اور دلچسپ کہانی کو اس طرح سے ترتیب دیتے کہ پڑھنے والے کی دلچسپی پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک قائم رہتی۔ 45برس تک اس ہنر کاری کو سلامت رکھنا یقینا کوئی کم کارنامہ نہیں۔ مگر پھر بھی کوئی سرکاری اعزاز نہیں۔ کوئی بڑا ادبی ایوارڈ نہیں!شاید انہیں قارئین کی محبت ہی کافی تھی اور وہ ایوارڈز اور اعزازات کے میرٹ سے بخوبی واقف تھے۔
اشتیاق احمد اپنے اس ہنر کے ساتھ اگر برطانیہ یا امریکہ میں پیدا ہوتے تو جے کے رولنگ سے زیادہ اہم ادبی اسٹیٹس حاصل کرتے۔ جے کے رولنگ بچوں اور نوجوانوں کے لیے فکشن سٹوری لکھنے والی ادیبہ ہے جو ہیری پوٹر سیریز لکھ کر دنیا کی مشہور ترین اور امیر ترین مصنفہ کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس کے دولت کے اثاثے ملکہ برطانیہ سے زیادہ ہیں۔ وہ برطانیہ کی 13 ویں امیر ترین خاتون ہے۔ اپنے دو بچوں کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں رہنے والی طلاق یافتہ جے کے رولنگ، ہیری پوٹر کی کہانی لکھتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچتی ہے۔ اگر یہی جے کے رولنگ اسی ہنر کے ساتھ پاکستان میں پیدا ہوتی تو آپ خود سوچ لیں‘ اس کا حال کیا ہوتا۔ پہلے تو بچوں کے لیے ادب لکھنے پر اس کو کوئی ادیب ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوتا۔ اور ایسی ناقدری کی فضا میں جانے جے کے رولنگ لکھ بھی پاتی یا نہیں۔ اشتیاق احمد کو داد دینا پڑے گی کہ کس مستقل مزاجی سے وہ بچوں اور نوجوانوں کے لئے ادب تخلیق کرتے رہے۔
آج اتفاق سے بچوں کا عالمی دِن بھی منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اشتیاق احمد کے کام کا تعلق اور بڑھ جاتا ہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ادیب کہیں دکھائی نہیں دیتے اور جو لوگ یہ تھینک لیس کام کر رہے ہیں انہیں کوئی ادیب ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس میدان میں پہلے سے بھی زیادہ کام کی ضرورت ہے کیونکہ کہانی کے ذریعے اپنی تہذیب اور تاریخ کو نئی نسل تک منتقل کیا جا سکتا ہے اور اب وہ کہانی جس نے ڈرامے‘ فلم اور کارٹون کی صورت اختیار کر لی ہے وہ لکھے ہوئے لفظ سے بھی زیادہ ذہنوں کو بدل رہی ہے۔ اس میدان میں ہمیں ہر جانب بھارتی اور مغربی تہذیب کی یلغار دکھائی دیتی ہے جو بچوں کے لیے بنائے گئے کارٹونز میں ہی اپنی تہذیب کا پرچار کر رہے ہیں۔ کچے ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے بدلا جا رہا ہے۔ اس محاذ پر ہمارے ہاں مکمل خاموشی ہے۔ اشتیاق احمد کی دلچسپ جاسوس کہانیوں کو ڈراموں میں ڈھال کر اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کے جاسوسی ادب میں بے پناہ کام کرنے والے اشتیاق احمد ان سب کے لیے ایک مثال ہیں جو شہرت حاصل کرنے کے لیے اپنی تحریر سے زیادہ پبلک ریلیشننگ پر یقین رکھتے ہیں۔