"SQC" (space) message & send to 7575

داعش:سوالات کا گورکھ دھندہ

داعش کے وجود سے انکار کرتے کرتے بالآخر پاکستان پر اس کے منحوس سائے پڑنے کی اطلاعات آنے لگی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں سے داعش کے نیٹ ورک کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ اب پاکستان میں داعش کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔یہ ایک ڈرائونا خواب ہے جو حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
پچھلے دنوں لاہور سے چونکا دینے والی خبر آئی کہ جوہر ٹائون کی رہائشی خاتون بشریٰ خالد چند نوجوان لڑکیوں اور بچوں کے ایک گروہ کے ساتھ شام پہنچ چکی ہے ‘اس کے داعش کے ساتھ روابط کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ خاتون لاہور کے ایک تعلیم یافتہ خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور خود بھی اسلامک سٹڈیز میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تدریسی ذمہ داریاں نبھا رہی تھی۔ حیرت ہے کہ اتنے پڑھے لکھے لوگ کس طرح گم راہ ہو رہے ہیں۔ کس طرح ان کے دماغوں کو موڑا جا رہا ہے ۔کون ہے جو یہ برین واشنگ کر رہا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے تک جب طالبان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا اور دنیا پر ان کا خوف طاری تھا تو خیال کیا جاتا تھا کہ طالبان دراصل مدارس میں پڑھنے والے غریب خاندانوں کے بچے ہیںجو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے شدت پسند تنظیموں کا آلہ کار بن گئے اور ان تنظیموں نے جہاد کے نام پر مدارس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملالیا۔ چنانچہ تجزیہ کار یہ تجاویز دیتے رہے کہ مدارس کے نصاب میں جدید سائنس اور کمپیوٹر کے مضامین پڑھانے چاہئیں تاکہ ان طلباء 
کے بند ذہنوں کو جدید علوم سے آراستہ کر کے انہیں شدت پسندی کے جذبات سے پاک کیاجا سکے۔ لیکن شاید اب طالبان کا دور گزر گیا اور داعش کا وقت آ گیا ہے‘ جس میں حیرت انگیز طور پر انتہائی پڑھے لکھے نوجوان شامل ہو رہے ہیں ۔یا یوں کہیے کہ اس وقت دنیا میں شدت پسندوںاور دہشت گردوں کے جو نیٹ ورک ہیں ‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ان کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ کراچی میں ہونے والا سانحہ صفورا بربریت کی بھیانک مثال تھا۔ اس کا ماسٹر مائنڈ سعد عزیز کراچی کے ممتاز تعلیمی ادارے آئی بی اے کا گریجوایٹ تھا ۔ یہ ایسا ادارہ ہے جہاں ذہین اور قابل طلباء ہی داخلہ لے سکتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کاوی سی اسی طرح کی مشکوک سرگرمیوں کے حوالے سے حراست میں لیا گیا‘وہ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا ۔اسے اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ وہ خاموشی اور رازداری سے اپنے تعلیمی ادارے کے طلباء کی برین واشنگ کر رہا تھا۔ بہت سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو وہ شام بھیج چکا تھا جہاں وہ داعش کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب پنجاب بھی پیچھے نہیںرہا۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی جیسے نامور تعلیمی ادارے کے دو اساتذہ ‘جن کا تعلق بزنس اینڈ فنانس ڈیپارٹمنٹ سے تھا‘ دہشت گردوں کے سہولت کار ہونے کے الزام 
میں حراست میں لیے گئے۔ بظاہر ایسے تعلیمی ادارے متوازن ماحول میں جدید سائنسی اور تکنیکی علوم کی تعلیم دیتے ہیں اور یہاں آنے والے طلباء کا فیملی بیک گرائونڈ بھی معاشی اور سماجی اعتبار سے ان طلباء کے خاندانی پس منظر سے بہتر ہوتا ہے جو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ استثنیٰ یقیناً موجود ہے مگر مدارس میں پڑھنے والے بیشتر طلباء معاشی طور پر انتہائی پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ایسے نوجوانوں کو آسانی سے برین واشنگ کے عمل سے گزارا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ صورت حال ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر وہ کیا کشش ہے جو گلاسگو یونیورسٹی سے ریڈیو گرافی میں تعلیم حاصل کرتی ہوئی اقصیٰ محمود کو‘ محبت کرنے والا خاندان اور سہولتوں سے آراستہ زندگی چھوڑ کر داعش میں شمولیت پر اکساتی ہے اوریہ تعلیم یافتہ لڑکی سب کچھ بیچ کر شام پہنچ جاتی ہے؟ اس وقت اقصیٰ محمود داعش کی خواتین پر مشتمل تنظیم ارخنہ بریگیڈ کی اہم لیڈر ہے۔ صرف برطانیہ سے کم و بیش ساٹھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں داعش میں شامل ہونے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ چکی ہیں۔ داعش کا ایک مکمل ونگ آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ہے جو دنیا بھر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں تک سوشل میڈیا‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہیں ۔نوجوانوں کی برین واشنگ مہم بھی انٹرنیٹ کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ لیکن سوال پھر بھی وہی ہے کہ آخر وہ کیا کشش ہے جو اچھے بھلے تعلیم یافتہ افراد کو ان دیکھی دلدل میں دھنسنے پر مجبور کرتی ہے؟
ابھی ایک بہت دلچسپ رپورٹ میری نظر سے گزری جو برطانوی اخبار گارڈین میں چھپی۔ یہ ایک ریسرچ رپورٹ ہے جس کا اہتمام برٹش کونسل نے چند تنظیموں کے ساتھ مل کر کیا۔ یہ رپورٹ دسمبر 2015ء میں شائع ہوئی ۔ اس ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ 48.5فیصد نوجوان جو مشرق وسطیٰ‘ برطانیہ‘ امریکہ یا دنیا کے دوسرے ممالک سے دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوئے ‘جس میں داعش سرفہرست ہے‘ وہ انجینئرنگ‘ سائنس ‘ ٹیکنالوجی اور ریاضی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے سوشل سائنس پڑھی ہو یا آرٹس مضامین میں گریجوایٹ ہو۔ ریسرچرز نے کئی سوالات اٹھائے اور کئی سوالات کے جواب دینے کی کوشش بھی کی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘ انجینئرنگ اور میتھ(ریاضی) کی تعلیم انسانی ذہن کے اندر ایسی کیا تبدیلیاں لاتی ہے کہ اس کا سکالر بربریت اور شدت پسندی کی طرف آسانی سے مائل ہو جاتا ہے۔ ریسرچ رپورٹ میں مضامین کے اس مخصوص گروپ کو انگریزی ناموں کے مخفف کے ساتھ STEMلکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ دنیا بھر میں STEMیعنی سائنس ‘ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ اور میتھ کے نصاب میں فنون لطیفہ‘ سوشل سائنسز اور آرٹس کے مضامین ضرور پڑھائے جائیں تاکہ ذہنوں میں توازن اور میانہ روی کے جذبات پیدا ہوں۔ اگرچہ یہ پوری تصویر کا صرف ایک رخ ہے اور کچھ شواہد کی بنا پر یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے‘ لیکن اس کو ہم یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سائنس پڑھنے والے افراد کی ذہنی تربیت شاید ایسی ہوتی ہے کہ وہ مفروضے کو شواہد کی بنیاد پریا تو ثابت کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں۔ اس میں انسانی جذبات اور احساسات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی‘ جبکہ فنون لطیفہ اور سوشل سائنسز سے متعلقہ مضامین سماج کو انسانی جذبات و احساسات کے آئینے میں دیکھنا بھی سکھاتے ہیں ‘انسان اور انسانی معاشرے کے لطیف پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ریسرچ کا یہ پہلو یقیناً فوڈ فار تھاٹ تو ہو سکتا ہے مگر پوری تصویر کا مکمل تجزیہ نہیں ۔سماج اور انسانی نفسیات کے ماہرین اس پر رائیں دیں۔ داعش میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی دھڑا دھڑ شرکت اور دنیا بھر میں داعش کی صورت میں بربریت اور دہشت گردی کے پھیلتے ہوئے سائے بہت سے سوالات اٹھاتے ہیں۔ تاحال سوالات کا یہ گورکھ دھندہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں