چند دن پہلے خبر آئی کہ میٹرک‘ نویں اور انٹرمیڈیٹ کی عمرانیات کی کتابوں میں بلوچوں اور بلوچستان کے بارے منفی جملے لکھے گئے ہیں‘ اور اس طرح کی کتابیں طالب علموں کے نصاب کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ اس طرف توجہ مبذول ہوتے ہی جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ بلوچوں کی ثقافت اور رسم و رواج کے حوالے سے مواد واقعی غیر مناسب ہے۔ مثلاً یہ کہ ''بلوچ بہت غیر تہذیب یافتہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بلوچستان میں خواتین کو پڑھایا نہیں جاتا۔ شادی کے نام پر انہیں بیچا جاتا ہے‘ اور مردوں کے جھگڑے میں بھی عورتوں کو بطور ایک چیز کے استعمال کیا جاتا ہے۔ ونی اور سوارہ کی غیر انسانی رسمیں بلوچوں میں عام ہیں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ان میں کوئی بھی کتاب نہیں چھاپی۔ یہ کتابیں مختلف دوسرے پبلشرز کی ہیں۔ اس ساری صورت حال پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ آج بھی بلوچستان میں قبائلی طرز زندگی میں ایسی غیر انسانی رسمیں پائی جاتی ہیں‘ جہاں عورتوں اور کم سن لڑکیوں کو گھر کے مردوں کے جھگڑوں میں بطور ایک چیز کے استعمال کیا جاتا ہے‘ سوارہ کی رسم بھی اس کی ایک مثال ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ عورتوں سے غیر انسانی سلوک صرف بلوچستان میں ہی تو نہیں ہوتا۔ پنجاب کی دیہاتی ثقافت ہو یا ‘ پٹھان ثقافت۔ سندھ کے دور دراز وڈیروں کے اونچی دیواروں کے جیل نما گھروں میں مظلوم خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سندھ میں جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے بہنوں اور بیٹیوں کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے۔ جائیداد کی بھینٹ چڑھنے والی ایسی لڑکیاں آج بھی وڈیروں کی جیل جیسی بند حویلیوں میں زندہ لاشوں کی طرح جی رہی ہیں۔
پنجاب کو سندھ اور بلوچستان کی نسبت زیادہ روشن خیال اور پڑھا لکھا صوبہ سمجھا جاتا ہے مگر اس روشن خیال صوبے کے اندر جاگیرداری نظام آج بھی خواتین کے حقوق کا قاتل ہے۔ اس عورت کش نظام کو دیہات کی ثقافت اور چودھراہٹ کی شان سمجھنے والے کئی عوامی نمائندے قانون ساز اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں ایک بڑے سیاست دان کی مثال لیں‘ جن کی خواتین کے حوالے سے شدت پسندانہ سوچ ریکارڈ پر موجود ہے۔ غالباً یہ مشرف دور کا انسانیت سوز واقعہ ہے جب مبینہ طور پر ان کے آبائی شہر نصیر آباد کی دو نوجوان لڑکیوں کو غیرت کے نام پر زندہ دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ خبر منظر پر آتے ہی پورے ملک میں ہاہاکار مچ گئی‘ اور این جی اوز نے خوب شور مچایا‘ اگرچہ یہ مبینہ واقعہ چند روز کے بعد میڈیا میں آیا۔ اس کی صداقت کے بارے بھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی‘ مگر اس بارے میں ان کا پارلیمنٹ میں
بیان ضرور خبروں کا حصہ بنا۔ انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل بلوچ قبائل کی روایت ہے۔ عورتوں کے حوالے سے ایسی سوچ رکھنے والے یہ صاحب ایک اہم حکومتی عہدیدار ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والے وڈیرے‘ جاگیردار‘ تمن دار‘ چودھری کیا عورتوں کو صحیح اور حقیقی معنوں میں Empower کر سکتے ہیں؟ اس سارے منظرنامے میں پنجاب سے آنے والا عورتوں کے تحفظ کا بل دیکھیں‘ تو صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ قانون بنانا اور کام ہے اور اس پر عمل درآمد کرنا دوسرا کام۔ لگتا ہے کہ اس قانون کا حال بھی ویسا ہی ہو گا‘ جیسا اس سے پہلے ایسے دوسرے قوانین کا ہو چکا ہے‘ جن پر عمل درآمد کروانے کے لیے حکومتی مشینری ناکام ہو چکی ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے جب عورتوں پر تیزاب گردی کے واقعات بہت ہونے لگے تو پنجاب حکومت نے بل پاس کیا کہ جو شخص اس گھنائونے کام کا مرتکب ہو گا‘ اسے قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔ تیزاب کی عام خرید و فروخت پر پابندی ہو گی‘ اور اس حوالے سے سخت قوانین نافذ کئے جائیں گے۔ مگر اس قانون کے باوجود آج بھی پنجاب میں تیزاب گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اور کسی کی زندگی کو تباہ کر دینے والی تیزاب کی بوتل صرف 20 روپے میں بآسانی دستیاب ہے۔ اسی طرح ایک اور قانون پڑھے لکھے خواجہ سرائوں کو باعزت روزگار اور نوکری دینے کے لیے بنایا گیا مگر ابھی کل کی اخبار میں نظر سے ایک کالمی خبر گزری کہ پنجاب جیسے روشن خیال اور پڑھے لکھے صوبے میں ابھی تک ایک بھی خواجہ سرا کو نوکری نہیں دی جا سکی۔ پنجاب حکومت کا ایک اور انقلابی قدم نوکری یافتہ خواتین کو سکیورٹی دینے کا تھا۔ اس کا بھی بہت چرچا ہوا۔ جاب کرنے والی خواتین کے لیے سواری بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے خواتین کو خود کفیل بنانا یقیناً ایک اچھا قدم تھا۔ سکیورٹی کی تربیت لینے والی خواتین جب سڑک پر ایک جلوس کی صورت میں آئیں تو عاصمہ جہانگیر ان کی ہمت بڑھانے کو ایک سکیورٹی کے پیچھے خود فاتحانہ انداز میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ لگتا یہی تھا کہ ایک انقلاب ہے جو ہمارے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ مگر اب خبر آئی ہے کہ خواتین کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دینے والا سکیورٹی پروجیکٹ بھی ٹھپ ہو چکا ہے اور اس پروجیکٹ کے فنڈز اورنج ٹرین کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ سو بات یہ ہے کہ پروجیکٹ کا اعلان کر دینا‘ کوئی قانون بنا دینا‘ کوئی بل پاس کر دینا صرف ایک قدم ہے‘ قانون اور بل پر عملدرآمد کرنا اور فائلوں میں موجود پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ایک قدم سے آگے مسلسل سفر ہے۔ اس کے لیے جس توانائی‘ دیانت اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں مفقود ہے۔
پنجاب کے تحفظ نسواں بل پر ہمارے علما کرام خصوصاً مولانا فضل الرحمن جس طرح واویلا کر رہے ہیں‘ وہ بجائے خود ایک دلچسپ منظر ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان علما کرام کی اپنی سوچ کیا اور کس قدر قبائلی رسم و رواج کے تابع ہے۔ وہ خاطر جمع رکھیں تحفظ نسواں کا یہ قانون نہ ان کا کچھ بگاڑے گا نہ ہی بیچاری خواتین کا کچھ سنوارے گا‘ کیونکہ وہ قانون جو اپنے معاشرے کے سماجی ڈھانچے اور حقائق کو مدنظر رکھے بغیر‘ محض نقالی میں بنا دیئے جائیں ان کو نافذ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
خواتین کو تحفظ دینا ہے تو انہیں تعلیم دیں‘ روزگار دیں‘ کام کے لیے آسان قرضے دیں‘ اور انہیں معاشی مضبوطی دیں۔ یہی ہے وہ حقیقت پسندانہ راستہ۔ صرف مولانا پر ہی موقوف نہیں‘ اسمبلیوں میں بیٹھے قبائلی رسم و رواج کے پروردہ‘ جاگیردار‘ وڈیرے اور چودھری کوئی بھی ایسی قانون سازی کے حق میں نہیں ہو گا‘ جس سے پاکستان کی عام عورت مضبوط ہو سکے۔ معاشی طور پر اور سماجی طور پر حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی سماجی مضبوطی ان کی معاشی مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے!