"SQC" (space) message & send to 7575

دو دنیائوں کا اسیر!

زندگی تہہ در تہہ بھید کا نام ہے۔ زندگی ہے کیا؟ شاید اس کی جامع تعریف کرنا کسی کے بس کی بات نہیں، اس لیے کہ زندگی Paradoxes سے بھری ہے۔ ایک کشمکش ہے، ایک Conflict ہے۔ ایک ہی منظر کے کئی روپ ہیں۔ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ۔ کوئی چیز، کوئی خیال‘ کوئی کیفیت ‘ کوئی احساس... حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ خوشی سے چھلکتا ہوا دل اسی لمحے میں گہری‘ گمبھیر اداسی سے کیوں بھر جاتا ہے؟ اطمینان اور سکون ان دنیائوں کے نام ہیں جن کی تلاش میں پوری زندگی انسان بے سکون اور غیر مطمئن رہتا ہے۔ زندگی میں کوئی شے حتمی نہیں تو پھر کامیابی کی حتمی تعریف بھی ممکن نہیں۔ کامیابی کی ایک منزل‘ دوسرے کے لیے سراسر رائیگانی کا سفر ہے۔ 
زندگی سوالات سے بھری ہے۔ یہ ہجر و وصال کیا ہے؟ عشق و محبت کن دنیائوں کے نام ہیں۔ یہ دل میسر و موجود سے کیوں نہیں بہلتا؟ کیوں اسے یہ خواہش بے چین رکھتی ہے کہ کوئی تو ہو جو میری دسترس سے باہر ہو؟ جو کھو چکا اُسے پھر سے پانے کی آرزو کیوں؟ جو میسر ہے دل اس پر قانع کیوں نہیں؟ یہی تو ہیں زندگی کےes Paradox، شاعری انہیں کا اظہار ہے۔ مگر ہر شاعری نہیں! یہاں تو سوشل میڈیا پر ایسی ایسی شاعری پر سیکڑوں لائکس مل جاتے ہیں جو ٹرکوں اور رکشوں کے پیچھے لکھنے کے لائق ہے۔ مگر حیرت ہوتی ہے ان ''اہل ذوق‘‘ حضرات پر جو صرف چہرہ مہرہ ہی دیکھ کر داد کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ سچی بات ہے‘ ادب اور شاعری کے اتنے بُرے حالات دیکھ کر ہم نے تو کنارا کرنے ہی میں عافیت جانی ہے۔ یا پھر یہ کالم نگاری اور صحافت کے ساتھ جڑے رہنے کا اثر ہے کہ مسائل کے کھردرے پن میں شاعری کی نرماہٹوں کی طرف مائل ہونے کا وقت ہی کم ملتا ہے۔ مگر پھر بھی اچھا شعر کہنے اور پڑھنے کی آرزو کم نہیں ہوتی۔ شاعروں کے اس ہجوم میں، جو ہر برس ایک اور کتاب چھاپنے میں ہی اپنا اعزاز سمجھتے ہیں ‘ مسعود عثمانی ایک منفرد شاعر ہے۔ سرتاپا ایک شاعر! مسلسل شاعری کی کیفیت اور فضا میں رہنے کے باوجود ‘ سات آٹھ سال کے وقفے کے بعد مسعود کی تیسری کتاب آئی ہے ...جل پری!
میرے نزدیک یہ کتاب ان کی پہلی دو کتابوں سے جاری شعری سفر کا ہی تسلسل ہے۔ وہی منفرد لہجہ اور معیار کی کڑی میزان پر پرکھا ہوا شِعار! ایسا ہرگز نہیں کہ معیار کے میزان پر پرکھتے ہوئے شعروں میں کہیں مصنوعیت کا عنصر پیدا ہوا ہو۔ بے ساختگی جو اچھے شعر کی پہچان ہے، بدرجہ اتم اس میں موجود ہے۔ شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کیٹس نے بھی کہا تھا کہ شاعری طاقتور جذبات کا بے ساختہ اظہار ہے۔ کیٹس کے الفاظ میں یہ بات زیادہ خوب صورت اور پر معنی لگتی ہے:
Poetry is the spontaneous oveflow of powerful feelings.
ویسے شاعری کو کسی نے اداس روح کا نغمہ کہا تو ٹھیک ہی کہا کہ جب تک خلش نہیں ہوگی‘ اداسی نہیں ہوگی، رائیگانی کا احساس نہیں ہو گا تو شاعری کا بیج نہیں پھوٹے گا۔ شاعری موجود کے ہونے سے نہیں پنپتی بلکہ ناتمام آرزوئوں کی سر زمین پر اپنا سر اٹھاتی ہے۔'جل پری‘ کی شاعری ایسی ہی کیفیات اور جذبات کی آئینہ دارہے۔ سات آٹھ سال کے طویل وقفے کے بعد 'جل پری‘ کی صورت میں آنے والی شاعری پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ خیال، احساس کی بھٹی میں پکتا رہا اور کندن بنتا رہا ؎
یہ بحر ہے کہ جل پری ہے
شعلہ ہے کوئی کہ شاعری ہے
جل پری کا استعارہ سعود نے اُن دو یکسر مختلف دنیائوں کو بیان کرنے کے لیے چنا‘ جو شاعر کو مضطرب کیے رکھتی ہیں اور جن میں بیک وقت قیام اس کی مجبوری ہے۔ سچی بات یہ ہے، یہ صرف ایک حساس شاعر ہی کا المیہ نہیں‘ ہر حساس شخص‘ وہ شاعر ہے یا نہیں‘ کئی دنیائوں میں سفر کرتا ہے۔ ایک دنیا جو باہر کی دنیا ہے‘ ظاہر کی دنیا ہے، اس میں زمینی حقائق ہیں‘ ستمہائے روزگار ہیں‘ کاروبار‘ نوکری ‘ مصروفیات اور ہر روز سر اٹھاتے مسائل ہیں۔ دوسری وہ دنیا جو ظاہری دنیا سے الگ ہے۔ جو ان مکانوں سے آباد ہے جو کب کے چھوٹ چکے۔ جو ان چہروں سے روشن ہے جو کب کے بجھ چکے۔ سعود عثمانی کی شاعری ایسی ہی دنیا کی شاعری ہے، جہاں بچپن کا اتوار سانس لیتا ہے... میں ایک پیڑھی پہ بیٹھا ہوں۔۔۔گندھے میدے کے اک پتلے ورق کی سوندھ پھیلی ہے۔۔۔ مری امِی کسی بوتل کے ڈھکنے سے شہابی گول ٹکڑے کاٹتی ہے۔۔۔ اک ایسے خواب میں بیدار ہوں‘ جس میں مری امی‘ مرے ابو‘ مری بہنیں مرے بھائی‘مرے اطراف میں ہیں اور میں ان سے بات کرتا ہوں۔۔۔ ہمارے قہقہوں کی گونج آنگن میں بکھرتی ہے۔۔۔مہکتی مسکراتی صبح کا ریشم پھیلتا ہے۔
ناسٹیلجیا میں گندھی اس نظم کو پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں اپنے بچپن کا اتوار یاد بن کر ابھرتا ہے۔ سعود عثمانی بے طرح ماضی کے طلسم کا اسیر ہے‘ اسی لیے ایسے اشعار جا بجا جل پری میں موجود ہیں:
گزارنے سے کوئی دکھ گزر نہیں جاتا
سو وہ بھی جا چکا ہے مگر نہیں جاتا
سلگتے دیکھے تھے بچپن میں آب دیدہ چراغ
اور آج تک مرے دل سے اثر نہیں جاتا
چند اور اشعار
کیا تھا ترک محبت کا تجربہ میں نے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں یہ کیا کیا میں نے
کس محبت میں پڑ گیا میں بھی
تو بھی مجھ کو نہ مل سکا‘ میں بھی
آج روٹین کا کالم نہیں لکھا گیا‘ کچھ بھید بھری زندگی پر لکھا۔ کچھ شاعری پر اور سب سے بڑھ کر ایک کتاب پر لکھا جو میرے خیال میں ایک اچھی کتاب کا حق بھی تھا۔ بات زندگی کے Paradox سے شروع ہوئی تھی اور اس کتاب میں بھی اسی کشمکش کی کہانی ہے جو دو دنیائوں کا اسیر شخص اپنی ذات پر جھیلتا ہے:
اک الائو کے گرد بیٹھے ہوئے
راکھ کا ڈھیر ہو گیا میں بھی
عمر کٹتی رہی اور آخرِ کار
قاش در قاش کٹ گیا میں بھی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں