مئی املتاس کا مہینہ ہے۔ اسی مہینے کی گرم ہوائیں املتاس کی شاخوں کو چھو کر اس پر پیلے پھولوں کا جادو جگا دیتی ہیں اور ان دنوں میں یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ یونہی گزرتے ہوئے سڑک کے کناروں پر آپ کو کہیں کہیں ایسے حسین منظر ضرور نظر آئیں گے۔۔۔۔ درخت پیلے پھولوں کے ہار تھامے کھڑے ہیں، فطرت سے لگائو رکھنے والوں کے لیے یہ منظر نہایت دلکش ہے۔
گلشن اقبال پارک میں سرسبز لان کا ایک قطعہ ایسا ہے جس کے گرد املتاس کے درخت لگے ہیں اور اوائل مئی میں اس پر پھولوں کی کونپلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جوں جوں مئی کی گرم فضائیں شاخوں کو چھوتی ہیں، یہ کونپلیں زرد رنگ کے خوب صورت پھولوں میں کھل اٹھتی ہیں۔ یوں وسط مئی تک املتاس کے ان درختوں پر زرد پھولوں کا ایک میلہ سا لگ جاتا ہے۔ مگر اس بار گلشن اقبال پارک کا منظر کچھ مختلف تھا۔ چند ہفتے پہلے یہاں اتوار کی ایک قیامت خیز شام بے گناہ معصوم بچے‘ خود کش حملے میں مار دیے گئے۔ اس پارک کے درخت اور پرندے شاید ابھی تک سوگ میں ہیں اور اس قیامت کو نہیں بھولے۔ اس بار املتاس کے درختوں پر پیلے پھولوں کی بہار دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ املتاس کی شاخوں نے سوگ میں پھول نہیں اٹھائے۔ یہ منظر میرے لیے بڑی حیرت کا باعث تھا۔
ہم تو بڑے بڑے سانحات کو اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ڈسکس کر کے فراموش کر دیتے ہیں۔ ہر سانحے کے بعد کچھ وعدے‘ دعوے اور عزائم، کچھ مذمتیں اور اخباری بیانات، اس کے بعد راوی تب تک چین ہی چین لکھتا ہے جب تک
کوئی اور سانحہ نہیں ہو جاتا۔ کیا آپ کو اور مجھے یہ یاد ہے کہ چند ہفتے پہلے اس پارک میں خوشی سے کھیلتے اور جھولا جھولتے بچوں پر کیا قیامت ٹوٹی تھی؟ مگر دیکھ لیں یہ درخت، یہ پرندے ابھی بھولے نہیں، شاید اس لیے کہ یہ درخت‘ پرندے‘ پھول، شگوفے سب فطرت کے مظاہر ہیں اور معصوم بچے بھی فطرت کا حسین تحفہ، سو آج بھی اگر آپ گلشن پارک جائیں تو محسوس کریں گے کہ یہاں ایک خاص ویرانی اور گہری اداسی کی سی کیفیت ہے۔ اس سانحے کے بعد یہ پارک ڈیڑھ ماہ تک بند رہا اور مضحکہ خیز بات یہ کہ سیل بند پارک کے باہر پنجاب پولیس نے ناکہ لگایا ہوا تھا جو ڈیڑھ ماہ کے بعد صبح کی سیر کرنے والوں کے لیے کھولا گیا۔ فطری طور پر سب لوگ اداس تھے مگر ان سب سے زیادہ اداس پارک کے پودے اور درخت لگے۔ املتاس نے تو لگتا ہے غم کو اوڑھ لیا ہے۔ پھولوں سے عاری شاخیں اس کی اداسی کی کہانی سنا رہی ہیں۔ اُس روز مجھے اے حمید مرحوم بہت یاد آئے جو اپنی خوب صورت تحریروں میں لکھا کرتے تھے کہ یہ درخت مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ واقعتاً ان کے لفظوں کا جادو ایسا ہی تھا کہ ان کی تحریر میں موجود درخت، بارش اور چائے کی خوشبو قاری سے مخاطب ہوتی۔
بات مئی کے مہینے اور اداس املتاس کی ہو رہی ہے تو یہ مہینہ مجید امجد کا مہینہ بھی ہے جن کی شاعری میں اداسی کے زرد پھول جا بجا کھلے نظر آتے ہیں۔ اپنے تخلیقی سفر کا بیشتر حصہ منٹگمری (ساہیوال) میں کسمپرسی کی حالت میں گزارنے والے مجید امجد 11مئی 1974ء کو وہیں وفات پا گئے ۔ یہ کسمپرسی معاشی طور پر یقیناً تھی مگر تخلیقی طور پر ہرگز نہیں، بلکہ منٹگمری کی فضائوں نے اس اداس شاعر کے اندر تخلیق کے املتاس کو چھوکر زرد پھولوں کی شاعری میں بدل ڈالا۔ ساہیوال یا مجید امجد کا منٹگمری خوش قسمت ہے جس کے کوچوان اور بوڑھے پان فروش پر بھی شاعر نے لازوال نظمیں کہیں۔ مجید امجد کی شاعری کا یہ الگ وصف ہے کہ انہوں نے زندگی کو ایک بہت مختلف زاویے سے دیکھا اور ایسے ایسے موضوعات پر نظمیں کہیں جو اس سے پہلے اردو شاعری کا حصہ نہ تھے اور اب بھی حصہ نہیں ہیں۔ میری ناقص رائے میں مجید امجد کو کاپی کرنا اور اس انداز میں لکھنا ایک مشکل کام ہے، اس کے لیے مجید امجد جیسا گہرا احساس اور زندگی کو برتنے‘ پرکھنے اور سمجھنے کا ایک الگ زاویہ نگاہ ضروری ہے۔ مثلاً ایک نظم میں وہ نالی کے کیڑے کو لے آتے ہیں اور اس استعارے کو وہ جس طرح زندگی کے دوسرے مسائل کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ صرف مجید امجد کا خاصہ ہے۔ زندگی کی بے ثباتی، عمر کے گزرنے کا شدید احساس، زندگی اور موت کے درمیاں انسان کی خواہشوں اور حسرتوں کا نا ختم ہونے والا جہان۔۔۔۔ یہ سب مجید امجد کی شاعری کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ لفظ ''عمر‘‘ ایک معنی خیز استعارہ کے طور پر مجید امجد نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے ؎
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جُرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
اور پھر ؎
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
کتنی گمبھیر اداسی اور حسرتوں کی چاپ ہے شاعر کے لفظوں میں! جو زندگی مجید امجد نے گزاری ان کی نظمیں، ان کے اشعار‘ ان کے حرفوں کے آئینے اسی زندگی کا عکس ہیں۔ جرمن خاتون شالاط سے ناکام محبت کی چھبن، شاعر کے حساس دل پر جیسے اثر انداز ہوئی وہ عکس شاعری میں بھی دکھائی جا بجا دیتا ہے ؎
ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سو بہ سو ترا غم
اور پھر ؎
میں زندہ ہوں تو مری زندگی تمہاری حیات
وگرنہ یوں تو ہے کس کو دوام کس کو ثبات
''شب رفتہ‘‘ مجید امجد کی زندگی ہی میں شائع ہو گئی اور جب اپنے عہد کا یہ ممتاز شاعر دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ان کے سرکاری کوارٹر سے غیر مطبوعہ نظمیں، غزلیں ایک بکھرے ہوئے ڈھیر کی صورت اکٹھی کی جاتی ہیں جسے جاوید قریشی (سابق چیف سیکرٹری پنجاب اور خود بھی خوب صورت شاعر) ذاتی دلچسپی لے کر بڑی تگ و دو کے ساتھ چھپواتے ہیں اور اس کا نام رکھا جاتا ہے''شب رفتہ کے بعد‘‘ اور اس وقت میرے ہاتھ میں وہی تاریخی نسخہ ہے جو 1976ء میں یعنی مجید امجد کی وفات کے دو سال کے بعد شائع ہوگا جس کی قیمت 20 روپے درج ہے، نیچے لکھا ہے: مجید امجد اشاعتی کمیٹی۔ کتنے برس بیت گئے مگر شاعر آج بھی اپنی شاہکار تخلیق کی بدولت اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے مگر شاعر کو اپنی زندگی میں اپنی کم مائیگی کا احساس بہت شدید تھا۔ شاید اسی لیے مجید امجد نے کہا ؎
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں کا کون دیکھے گا
بات اداس املتاس کے زرد پھولوں سے شروع ہوئی اور مجید امجد کی شاعری کی اداس فضا تک پہنچی اور یہ شعر تو لگتا ہے شاعر نے مئی کے مہینے میں کھلے املتاس کو دیکھ کر ہی کہا ہو گا ؎
یہ زرد پنکھڑیاں جن پہ کہ حرف حرف ہوں میں
ہوائے شام میں مہکیں ذرا جو تُو چاہے