"SQC" (space) message & send to 7575

سستے رمضان بازار اور موبائل فونوںکی برسات!

رمضان المبارک خیرو برکت‘ نفس کی تربیت اور روحانی صفائی ستھرائی کا مہینہ ہے، مگر بدقستی سے ہمارے ہاں اس ماہ مبارک میں کچھ انتہائی ناگوار اور ناپسندیدہ روایتیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلے تو آمدِ رمضان کے ساتھ ہی ہمارے آف شور کمپنیوں کے مالک کھرب پتی حکمرانوں کو خیال آ جاتا ہے کہ غریب بھی کچھ کھاتے پیتے ہیں‘ سو اس غربت پر کچھ سیاست بھی ہو جائے۔ سیاست کرنے کا یہ موقع بہت عمدہ ہوتا ہے۔ سرکار کی جانب سے منادی کرائی جاتی ہے کہ رمضان المبارک میں عوام کو اشیائے ضروریہ سستے داموں دستیاب ہوں گی اور اس مقصد کے لیے جگہ جگہ سستے رمضان بازار لگائے جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر رمضان بازاروں کا وجود صرف بیانات کی حد تک ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ رمضان کے آنے پر ہی آٹا ‘دالیں ‘گھی‘ چاول‘ پھل سستے کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے‘ کیا حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ غریب عوام صرف رمضان کے مہینے میں کھاتے پیتے ہیں اور باقی 11مہینے ان کا روزہ ہوتا ہے۔ چلیں‘ اگر اس اعلان پر خلوص دل سے عمل بھی ہو جاتا تو شاید غریبوں کا رمضان بھی سکھ چین سے گزر جاتا‘ مگر کہاں صاحب! یہ پاکستان ہے اور یہاں کی سرکاری حکمت عملی کو سمجھنا ہم جیسے ناقص عقل والوں کے لیے تو ممکن ہی نہیں۔ 
ایک چھوٹی سی مثال لیں‘ شادمان جیسے پوش علاقے میں تو 
سستا رمضان بازار لگایا جاتا ہے، مگر جب میں اپنی ملازمہ جو کھاڑک کے غریب طبقے والی آبادی میں رہتی ہے، اس سے پوچھتی ہوں کلثوم! تم نے سستے رمضان بازار سے خریداری کی ہوگی تو وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگتی ہے کہ باجی کون سا سستا بازار! ہمارے علاقے میں تو کوئی سستا رمضان بازار نہیں لگا!! یعنی امیروں کے لیے سستے رمضان بازار اور غریب کی بستی اس نمائش سے بھی محروم!
چلیے اب ذرا رمضان بازار کے اندر جاتے ہیں۔ یہاں جو عوام کی درگت بن رہی ہے وہ حلیمہ بی بی کی زبانی سنیں۔ حلیمہ بی بی پچاس پچپن سالہ گھریلو ملازمہ ہے۔ تین گھروں کا کام کرتی ہے جس سے اس کی گزر بسر ہوتی ہے۔ غربت اپنی جگہ لیکن حلیمہ کا پورا گھرانہ نماز روزے کا پابند ہے۔ روزہ افطاری میں وہ صرف ٹھنڈے شربت کی عیاشی کرتی ہے‘ پھل فروٹ اور افطاری کے دیگر لوازمات خریدنے کی سکت نہیں رکھتی۔ تیسرے روزے جانے اس کو کیا سوجھی کہ گھر جاتے ہوئے بچوں کے لیے پھل اور مرغی سستے رمضان بازار سے خریدتی جائے۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ اس سرکاری رمضان بازار میں بھی آم ‘ عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ حکومتی ریٹ پر جو چیز آم کے نام پر فروخت ہو رہی تھی 
اسے دیکھ کر حلیمہ بی بی نے اپنے پیسے مٹھی میں مزید بھینچ لیے۔ اس کی نظر رسیلے اور پیلے آموں پر پڑی تو اس کی جیب اور سوچ سے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ حلیمہ بی بی نے کہا‘ بھائی ہماری سرکار نے تو سستا بازار لگایا ہے پھر قیمت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ دکاندار جھٹ بولا‘ سرکار کی قیمت پر پھل خریدنا ہے تو پھر یہ پھل ملے گا۔۔۔۔ اس نے گلے سڑے آموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ حلیمہ بی بی جس پھل کو ہاتھ لگاتی اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی۔ جب وہ حکومتی ریٹ کی بات کرتی تو دکاندار گھٹیا اور گلے سڑے پھلوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا، بی بی حکومتی ریٹ پر تو یہ ملے گا۔ پھل خریدنے کا ارادہ ترک کرکے وہ مرغی خریدنے کا خواب لیے ایک سٹال پر پہنچی۔ قصائی خادم اعلیٰ کی بڑی سی تصویر کے سائے تلے گوشت کاٹ رہا تھا۔ آدھ کلو گوشت میں ایک پائوگردنیں اور چھیچھڑے شامل تھے۔ حلیمہ بی بی نے احتجاج کیا تو قصائی بولا‘ بی بی پہلے بتانا تھا کہ اچھا مال چاہیے‘ حکومتی ریٹ پر تو یہی ملے گا!
یہ کہانی صرف حلیمہ بی بی کی نہیں بلکہ ہر اس غریب پاکستانی کی ہے جو دھوکے میں سستے رمضان بازار کا رخ کرتا ہے اور پھر جگہ جگہ اپنی غربت کا مذاق اڑواتا ہے۔ حکومتی ریٹ پر ملنے والی ہر شے دو نمبر اور گھٹیا فروخت ہو رہی ہے۔ آٹا انتہائی ناقص ہے۔ دالیں روڑا اور پتھر سے بھری ہوئی، پھل گلے سڑے یا پھر کچے۔ کیا یہ ہے حکومت کی رٹ اور یہ ہے غریبوں کے لیے حکومت کا سستا بازار‘ جہاں غریب کو بلا کر رولا جاتا ہے اور اس کی غربت اور بے کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے؟ حکمرانوں کے دعوے اور اعلانات کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہے! گلے سڑے پھل‘ گھٹیا مال! غریب رمضان میں بھی محرم منا رہا ہے۔ افطاری اور سحری کے اوقات میں وہ اپنی غربت کا ماتم کرتا ہے۔ یہ انتہائی سنجیدہ ایشو ہے۔ کبھی سوچتی ہوںکہ کیا کبھی اس ملک کے غریب عوام میں یہ احساس جاگے گا کہ ان کی زندگی کے ساتھ یہ ہولناک ناانصافی کرنے والے اصل مجرم حکمران ہی ہیں۔ آغاز میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ اس ماہ مبارک میں ہمارے ہاں جو ناگوار سی روایتیں زور پکڑ رہی ہیں ان میں ایک میڈیا پر رمضان منانے کا رجحان ہے۔۔۔۔ طویل اوقات کی رمضان ٹرانسمیشن۔ ہر قسم کے کھیل تماشے۔ انعامات کی برسات‘ ہنسی مذاق اور اس ہنگامے میں علمائے کرام بھی تشریف فرما ہیں۔ کبھی کبھی دین کی بات بھی بتا دی جاتی ہے مگر زیادہ زور موٹر سائیکل اور موبائل فون جیتنے پر ہے۔ گھروں میں بھی سحری اور افطاری کے بابرکت لمحات میں لوگ عبادت اور دعائوں کی بجائے ٹی وی سکرینوں سے چپکے بیٹھے ہیں۔ لائیو کالز ملائی جا رہی ہیں۔ مسلسل یہی کوشش کہ کوئی موٹر سائیکل یا موبائل فون ہمیں بھی مل جائے۔ پھر پروگراموں کے آخر میں انعام اچھالے جاتے ہیں دین دار پاکستانی بہن بھائی اپنی عزت اور وقار بھلا کر پوری شدت اور جذبے سے ان کوکیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آفرین ہے ایسے لوگوں پر جو رمضان المبارک کے انتہائی قیمتی لمحات اس ہنگامے اور کھیل تماشے کی نذر کردیتے ہیں۔ اور تو اور شب قدر سمیت رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتیں بھی''جیک آف آل ٹریڈ‘‘ قسم کے نام نہاد علماء کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر نظریں گاڑ کرگزار دیتے ہیں۔ افسوس ان میڈیا مالکان پر بھی ہے جنہوں نے ریٹنگ اور کمرشلائزیشن کی دوڑ میں رمضان المبارک کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔
جناب آخری بات یہی ہے کہ آپ کس نفس کی تربیت اور روحانی صفائی ستھرائی کی بات کرتے ہیں ؟ہمارا رمضان تو سستے بازاروں میں بکتے گھٹیا مال سے شروع ہو کر رمضان ٹرانسمیشن میں بٹتے موبائل فونوں کی برسات پر ختم ہو جاتا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں