"SQC" (space) message & send to 7575

گڈ گورننس کی بے گورو کفن لاش

وہ ایک مقبول صوفی فنکار تھا مگر اس کی مقبولیت اس کی موت کے بعد بام عروج کو جا پہنچی۔ بلا شبہ امجد صابری کا سفر آخرت مبہوت کر دینے والا تھا۔ اس کا جنازہ کراچی کے بڑے جنازوں میں شمار کیا گیا۔ حیرت ہے کہ لوگ شدید گرمی میں روزے کے ساتھ اور بدامنی کے تمام تر خدشات کے باوجود امڈے چلے آئے۔ میرے خیال میں اس کی موت سے زیادہ اس کے تاریخی سفرِ آخرت نے اس قدر اہمیت اختیار کر لی کہ عالمی میڈیا نے اس کو نمایاں جگہ دی۔ بھارت کے تمام اہم اخبارات نے بھی شہ سرخیوں کے ساتھ صوفی فنکار کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ لوگوں نے جس طرح اس جواں سال قوال سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا وہ حیران کن ہے۔ اس روز تمام دن لیاقت آباد کی سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہ تھا کہ جس میں مختلف حیلوں اور ہتھکنڈوں سے حاضری بڑھائی جاتی ہے‘ لوگ اپنی مرضی سے کام دھندے چھوڑ کر اس فنکار کو الوداع کہنے آئے جس نے اپنی قوالیوں سے اللہ اور رسولؐ سے محبت کا پیغام دیا‘ امن اور بھائی چارے کی خوشبو پھیلائی۔ انہیں الوداع کہنے کے لیے ہندو اور سکھ بھی آئے‘ وہ بھی اس کی قوالیوں کے مداح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے روز گزرنے کے باوجود ان چینلز کی رمضان نشریات پر جن کا وہ باقاعدہ حصہ تھے‘ ابھی تک سوگ کی کیفیت طاری ہے۔
بہرحال ایسا کم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد کسی فنکار کا فن ایک نئی زندگی سے ہمکنار ہو جائے۔ امجد صابری مرحوم ایسا ہی خوش قسمت فنکار تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر کس نے‘ کس کے ایما پر اس امن پسند انسان کو دن دہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا؟ کس نے امجد صابری سے جینے کا حق چھینا؟ جوانی کی اس ناگہانی موت نے اس کے فن کو تو ایک نئی زندگی ضرور دی مگر امجد صابری جو ایک بیٹا تھا‘ شوہر، بھائی اور باپ تھا‘ وہ کیوں اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا گیا؟ ان کا خاندان جدائی کے اس کرب سے ہمیشہ گزرتا رہے گا۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ شہر کراچی غریب پرور ہے‘ کسی بھی رنگ، نسل اور مسلک کا غریب ہو کراچی اسے اپنی گود میں سمیٹ لیتا ہے۔ پاکستان کے ہر شہر کا غریب کراچی میں بستا ہے مگر اسی شہرکو ظالموں نے مقتل میں بدل دیا ہے۔ اس شہر کی گلیاں حکیم سعید شہید جیسی امن پسند، خوب صورت شخصیت کے خون سے رنگی ہیں۔ پروین رحمان نے اپنی ساری زندگی کم وسیلہ لوگوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے وقف کر دی، لیکن اس کو گولیوں سے بھون دیا 
گیا۔ شکیل اوج جیسے استاداور مولانا یوسف لدھیانوی جیسے جید عالم دین کو بھی لہولہان کر دیا گیا۔ یہ صرف چند نام ہیں ‘ اور کتنے ہی ایسے لوگ جو نامور نہ تھے مگر کراچی والے تھے‘ پاکستان کے شہری تھے‘ مائوں کے بیٹے، بیویوں کے سہاگ تھے‘ وہ اندھی گولیوں کا نشانہ بنے‘ مائوں کے پالے ہوئے خوب صورت بدن تارکول کی سڑکو ںپر لاوارث لاش بن کر رہ گئے! مگر یہ حکمران‘ یہ کراچی کے کرتا دھرتا‘ شہر کی انتظامیہ ‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور وہ مخلوق جسے سیاستدان کہتے ہیں ‘شہر اور شہر والوں کے اس دکھ سے غافل رہے۔ آخر کیوں؟ شریک جرم نہ ہوتے تواصلاحِ احوال کرتے۔ دراصل یہی لوگ شہر کو مقتل بنانے میں کافی حد تک شریک تھے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہی اصل مجرم تھے اور مجرم ہیں مگر ان پر کون ہاتھ ڈالے گا۔ کیا یہی لوگ اس شہر کی تباہی و بربادی کے ذمّہ دار نہیں ہیں جن کی کرپشن نے اس شہر کے وسائل کو جونک کی طرح چوس لیا ہے؟ اگر اس شہر کے وسائل اسی شہر پر ہی خرچ ہوتے تو آج دو کروڑ کے شہر میں محض 35 فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہ ہوتیں‘ ان میں سے بھی آدھی ناکارہ اور ناقابل استعمال! کل شہر کی تین اہم کاروباری مراکز میں پراسرار آگ بھڑک اٹھی جسے بجھانے کے لیے کراچی کی پوری انتظامیہ مفلوج نظر آئی۔ کراچی ریسکیو سروس کی اہلیت کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ گلبائی میں لگنے والی آگ کی اطلاع فائر بریگیڈ کو دی گئی تو گاڑیاں ناکافی سازو سامان کے ساتھ دو گھنٹے کے بعد جائے حادثہ پر پہنچیں۔ بھڑکی ہوئی آگ دو گھنٹے میں کیا قیامت ڈھا سکتی ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت آگ کو لگے اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کہا جا رہا ہے کہ مکمل طور پر آگ کو بجھنے میں مزید 27‘28 گھنٹے درکار ہیں۔ اس شہر پر بے حسی اور سنگدلی کی حکمرانی ہے۔ شہر کراچی پر کرپشن‘ بھتہ خوری کا قہر برستا ہے۔ کیا آپ بھول گئے کہ بلدیہ ٹائون میں گارمنٹ فیکٹری میں 259 غریب محنت کشوں کو آگ میں جلا دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آ چکی ہے‘ جس کی تحقیقات کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے بھتہ خوروں نے 20 کروڑ نہ ملنے پر زندہ انسانوں کو آگ لگا دی‘ بیسیوں محنت کش آگ میں جھلس کر زندہ درگور ہو گئے۔ لوگوں کی لاشوں پر سیاست کرنے والے مکروہ سیاستدان کراچی کو اس حال تک پہنچانے کے ذمّہ دار ہیں۔ آٹھواں برس ہونے کو آیا‘ کراچی کی وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کے پاس ہے‘ ان آٹھ برسوں میں کرپشن‘ مفاد پرستی‘ قومی خزانے کی لوٹ مار کو تو خوب ترقی ملتی رہی جبکہ گڈ گورننس کی بے گورو کفن لاش شاید ایدھی کے کسی سردخانے میں پڑی ہے۔
بلاول زرداری کرپشن کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں‘ کرپشن کیا ہوتی ہے‘ یہ کس طرح نظام کو تباہ کرتی ہے‘ اس کا قہر کس طرح لوگوں پر برستا ہے‘ اس کی بدترین مثال کراچی ہے۔ اور پھر بھی اس صوبے کی ایک بستی ہے جہاں کی موت‘ قحط اور بیماری کسی بریکنگ نیوز کا حصہ تک نہیں بنتی۔ ایم کیو ایم‘ اے این پی بھی شامل اقتدار رہی ہیں مگر المیہ وہی کہ ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا 
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے
شہر پر آج بھی بے حسی‘سنگدلی‘ کرپشن اور بھتہ خوری کی حکمرانی ہے‘ گڈ گورننس کی بے گورو کفن لاش ایدھی کے سرد خانے میں شناخت کی منتظر ہے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں