"SQC" (space) message & send to 7575

وینٹی لیٹر

برسوں پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہم نے سکول کے طلبہ و طالبات کی ایک نشست صاحبِ طرز شاعر منیر نیازی مرحوم کے ساتھ رکھی۔ منیرنیازی جہاں باکمال شاعرتھے وہاں ان کی گفتگو بھی مسحور کر دینے والی ہوتی تھی۔ اس روز انہوں نے ایک بڑا خوب صورت جملہ کہا جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ بات خوابوں اور زندگی کی آدرشوں اور آرزوئوں کی ہوئی تو نیازی صاحب نے نوجوان طلبہ و طالبات سے کہا: ''عمروں کے تھوڑے بہت فرق سے ہم سب ایک ہی جیسے ہیں‘ تمہارے اور میرے خوابوں اور آدرشوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں‘‘۔ بات کہیں دُور نکل جائے گی لیکن چلتے چلتے یہ تذکرہ بھی سہی کہ شاید وہ ٹھیک کہتے تھے۔ عمر کے آخری دنوں میںزندگی کے زوال آسا لمحوں میں بھی منیر نیازی کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت اور آنکھوں میں چمک ہوتی تھی!
خیر‘ یہ جملہ کہ عمروں کے تھوڑے بہت فرق سے ہم سب ایک ہی جیسے ہیں‘ آج سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے یاد آیا۔ بزرگ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی جگہ نوجوان مراد علی شاہ نے سندھ کے چیف ایگزیکٹو کے منصب کا بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا ہے۔ پیپلز پارٹی اسے ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کر رہی ہے‘ جیسے صرف ایک چہرہ بدلنے سے سندھ کا پورا منظر بدل جائے گا۔ مگر دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کو یہ تبدیلی محض''عمروں کا فرق‘‘ ہی دکھائی دے رہی ہے۔ منیرنیازی کے الفاظ کے آئینے میں دیکھیں تو عمروں کے تھوڑے بہت فرق سے ہم سب ایک ہی جیسے ہیں۔ لہٰذا سندھ کی قسمت میں قائم علی شاہ ہوں یا مراد علی شاہ‘ چہرے کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا تاوقتیکہ نئے وزیر اعلیٰ انتظامی اور سماجی مسائل حل کرنے کے لیے کمر کس لیں اور سیاسی مصلحت کے ہر طوفان سے ٹکرا جانے کا حوصلہ پیدا کریں۔ مگر وہ ایسا حوصلہ اس صورت میں کہاںسے لائیں ‘ جب ان کو یقین ہو کہ سیاسی مصلحتوں کے طوفان تو کیا ‘کسی ہلکی پھلکی آندھی سے بھی اگر انہوں نے ٹکرانے کی کوشش کی تو وہ خود پاش پاش ہو جائیں گے۔ سو، ان کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ نئے سیاسی ڈرامے میں وہی کردار ادا کریں جو اس کا دبئی میں بیٹھا ہدایت کار چاہتا ہے۔ اور آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ڈرامے کے ہر کردار کا ہنسنا، بولنا‘ چلنا پھرنا‘ 
پلکیں جھپکنا ‘ پیچھے مڑنا‘ آگے جانا‘ جلال میں آنا یا پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جانا‘ سب ہدایت کار کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ البتہ یہاں ایک مشکل ضرور ہے۔ ہر ڈرامے کا ہدایت کار بالعموم ایک ہی ہوتا ہے مگر اس کھیل میں دو تین ہدایت کار پردے کے پیچھے بروئے کار ہیں۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کو ہمہ وقت تین تین ہدایت کاروں کے اشاروں پر چلنا ہو گا۔ گویا سی ایم شپ ان کے لیے صبر کا امتحان ثابت ہو گی۔ انہیں اپنی قوت برداشت اور تابعداری کی حد کو آزمانا پڑے گا یعنی ''یہ جو ہم میں تم میں نباہ ہے۔ میرے حوصلے کا کمال ہے‘‘ !
بہرحال، سندھ میں نوجوان وزیر اعلیٰ کے آنے سے فی الحال ایک تازہ ہوا تو چلی ہے۔ ان کی پہلی تقریر کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ خوب صورت ارادوں‘ خدمت کے ارفع جذبوں سے سجی ہوئی پہلی تقریر ویسی ہی خوب صورت تھی جیسی عموماً حکمرانوں کی پہلی تقریریں ہوا کرتی ہیں۔ اس کے ایک ایک لفظ سے غریب عوام کے لیے درد جھلکتا ہے‘ ایک ایک جملے میں عوامی خدمت کے مصمّم ارادوں کی ان گنت جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اپنی تین ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے ''عوامی خدمت‘ عوامی خدمت اور عوامی خدمت ‘‘ کا جملہ تین بار بول کر اپنا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے اپنے پالیسی خطاب میں تھر کی فراموش کردہ بدقسمت بستیوں کا ذکر کر کے ہمارے دل موہ لیے۔ صاف ستھرے کراچی‘ سرسبز تھر اور محفوظ سندھ بنانے کے عزم کا اظہار ایک ہی سانس اور ایک ہی جملے میں کر کے مراد علی شاہ نے گویا اپنے دور حکومت کے لیے مائونٹ ایورسٹ جتنی اونچی ترجیحات کا اعلان دیا‘ مگر کیا اس چوٹی کو سر کرنا ان کے بس میںہو گا؟ سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی سیاست پیچ در پیچ گمبھیر مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سیاسی مصلحتوں کے تحت ملک سے باہر موجود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کئی مسائل پر سخت تنائو کی کیفیت ہے۔ خوفناک کرپشن اور دہشت گردی میں سہولت کاری کے سنگین الزامات کے تحت پارٹی قیادت کی قریبی وی آئی پی شخصیات زیر حراست ہیں۔ رینجرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے تحفظات سے سب آگاہ ہیں۔ کہیں کہیں رینجرز کے اختیارات پیپلز پارٹی کی ایڈمنسٹریشن سے ماوراء ہیں۔ عوامی رائے رینجرز کے حق میں ہے۔ 
سندھ میں پیپلز پارٹی کئی برسوں کی لگا تار حکومت کے بعد بھی عوام کو کچھ نہیں دے سکی۔ کراچی ''کچراچی ‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے، جہاں زندگی مہنگی اور موت سستی ہے۔ کرپشن کی دیمک اداروں کو کھا گئی ہے۔ پیپلز پارٹی عالم نزع میں ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی جن طاقتور مافیاز کے قبضے میں ہے ‘ اگر ان سے نجات کی صورت کوئی نہیں بنتی تو پھر مراد علی شاہ کی صورت میں صرف چہرہ بدلنا مریض کو محض نئے وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کے مترادف ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں