"SQC" (space) message & send to 7575

’’خواب اس مٹی کے تھے تعبیر اس مٹی کی ہے‘‘

آج فضا چہار سُو سبز پیرہن میں لپٹی دکھائی دیتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں، محلوں اور گھروں کا منظر دیکھ کر کسی شاعر کی یہ دعا یاد آتی ہے جو اس کے قلم سے وطن کے لیے نکلی ؎
ہر آنکھ تجھے پیرہن سبز میں دیکھے
اے کاش کہ تادیر یہ پوشاک نہ بدلے
سبز ہلالی پرچم، چاند تارے سے سجی سبزجھنڈیاں، سبز کرتے، ٹوپیاں اور سبز دوپٹے۔۔۔۔غرض سبز پوشاک پہنے یہ مناظر ہر پاکستانی کے دل میں ایک امنگ، ایک امید اور ایک ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ مسائل کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں مگر گھر کے در ودیوار سے محبت فطری امر ہے۔ سو، بحیثیت پاکستانی ہمارے مسائل اپنی جگہ مگر اس سبز ہلالی پرچم سے وابستگی اور محبت سب اپنے اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی۔ سپہ سالار راحیل شریف، پاکستان کے پرچم کو عقیدت سے بوسہ دے رہے ہیں۔ یہ منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ میں کافی دیر اس تصویر کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ سپہ سالار جانتا ہے کہ اس سبز اور سفید چاند تارے والے پرچم کی قدر و قیمت کیا ہے! اس کی حرمت پر پاک فوج کے جری جوان اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔
دیکھنے والی آنکھ کو پرچم کے سبز رنگ میں لہو کی سرخی بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ شہیدوں کا لہو ہے۔ یہ بے گناہ اور نہتے معصوم پاکستانیوں کا لہو ہے جو دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ میں مارے گئے۔ یہ ان معصوم طالب علموں کا لہو ہے جن کے لیے ان کی جماعت کے کمرے مقتل بن گئے۔ ان ننھے بچوں کا لہو ہے جو پارک میں جھولا جھولتے ہوئے بدترین دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ یہ ان پاکستانیوں کا لہو ہے جو بازاروں، ہسپتالوں، مسجدوں، چوراہوں میں مارے گئے۔ یہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، پولیس کے جوانوں کا لہو ہے جو اپنے فرض کی ادائیگی میں شہید ہوئے۔ یہ ان صحافیوں، رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کا لہو ہے جو خبر حاصل کرتے ہوئے خبر کا حصہ بن گئے۔ لہو کی یہ جنگ سرحدوں سے ماورا ہے۔ یہ ہمارے گھروں تک پہنچ چکی ہے اور انتہائی خوفناک ہے ؎
تیر سارے کڑی کمان میں تھے
ہم کہ اک شہرِ بے امان میں تھے
رزم آرائی اب کے گھر میں رہی
حادثے یہ کہاں گمان میں تھے
مگر وہ حادثے جو گمان میں نہ تھے اب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ آج 69 واں یوم آزادی مناتے ہوئے ہم ان فیصلوں کا ماتم بھی کر رہے ہیں جو اس ملک کے کرتا دھرتا لیڈروں نے بدقسمت لمحوں میں کیے اور جن کا خمیازہ آج ہمارے بچے بھگت رہے ہیں۔ بچوں کو ہم نے خوف اور سہم کے علاوہ کیا دیا! حکمران تو ہر وقت سکیورٹی کے نرغے میں رہتے ہیں مگر عام پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ وہ ہمہ وقت میدان جنگ میں ہے اور کسی بھی وقت کسی خونخوار کے نشانے پر آ کر اس کی زندگی تمام ہو سکتی ہے۔ جو کچھ کوئٹہ میں 8 اگست کو ہوا، اس کے بعد شہر میں گہری اداسی اور ویرانی کے سائے ہیں۔ اگرچہ بلوچ ایک سخت جان قوم ہے اور دشمن کا مقابلہ کرنا خوب جانتی ہے مگر اس سانحے نے کتنے ہی پرامن اور پرامید رہنے والے بلوچوں کو شکستہ دل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر مالک کاسی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر کاسی بلوچستان کی نگران حکومت کا حصہ رہے۔ بلوچستان کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ ہر حال میں پرامید رہتے ہیں مگر اب اس سانحے میں انہوں نے اپنا جوان بیٹا کھو دیا ہے۔ ایک چپ کا حصار ہے جو نہیں ٹوٹتا۔ ایک ایسی چپ جو روگ بن گئی۔ یہ چپ ہر اس گھرانے کو لگی جس کے پیارے اس سانحے میں شہید ہو گئے۔ علی احمد کرد ماتم کناں ہیں کہ اس سانحے نے ان کے شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خوب صورت لوگوں کو نشانہ بنایا۔
بلوچستان ایسی سرزمین ہے جو ہمیشہ علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کی زد میں رہی ہے۔ یہ علیحدگی پسند دشمنوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کو قومی دھارے میں لانے کے بلند بانگ دعوے ہر حکومت کرتی رہی مگر مسائل کی جڑ تک پہنچ کر اس کا تدارک کرنے کی کوشش کم ہی کی گئی اور کئی کوششیں بارآور نہ ہو سکیں۔ اس خطے پر ہزارہ برادری کے معصوم لوگوں پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے۔ کیا کسی کو خبر ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ پاکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان کے 69 ویں یوم آزادی پر اپنی دھرتی سے ہجرت کر جانے والے ہزارہ افراد اپنے وطن کو بے طرح یاد کر رہے ہوں گے۔ جو رہ گئے ہیں ان کے شب و روز مسلسل ایک خوف کے سائے میں بسر ہو رہے ہیں۔ یہ سب محب وطن پاکستانی ہیں۔ ان کا دکھ کون سمجھے گا؟ مسائل کی نوعیت بلوچستان میں انتہائی پیچیدہ ہے اور متقاضی ہے کہ حب الوطنی سے سرشار اور عالمی سازشوں پر گہری نظر رکھنے والے زیرک لوگوں پر مشتمل تھنک ٹینک صرف پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈے۔ مگر اس حکومت کا کیا کریں کہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کھلی حقیقت ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ اس پر انتہائی معذرت خواہانہ ہے۔ محض دعوئوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ عالمی سطح پر پاکستان کو بہترین سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو اپنے مسائل کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت اس میدان میں پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ ہمیں یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وطن ہے تو ہم ہیں۔ اس کی سلامتی سے ہماری سلامتی وابستہ ہے۔ مخصوص لہجے کے ممتاز شاعر سلیم کوثر کے خوب صورت اشعار وطن کے نام:
خواب اس مٹی کے تھے تعبیر اس مٹی کی ہے
اس خرابے میں مری جاگیر اس مٹی کی ہے
مرے بچپن میں کھلونے بھی اسی مٹی کے تھے
اب جوانی میں مری تصویر اس مٹی کی ہے
اس کی خوشبو سے نکلتا ہی نہیں میرا وجود
جیسے میرے پائوں میں زنجیر اس مٹی کی ہے
اپنے ہونے کی سند باہر سے منگواتے ہیں جو
ان کے بارے میں بھی اک تحریر اس مٹی کی ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں