"SQC" (space) message & send to 7575

خوب صورت روایت کو زندہ رکھیں

سوشل میڈیا... فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ نے ہماری زندگیوں کو جس طرح یرغمال بنا لیا ہے اس میں کتاب کو انہماک سے پڑھنے کے لیے وقت نکالنا واقعی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کتاب اٹھاتے نہیں ہیں، کتاب ضرور اٹھاتے ہیں، ورق گردانی بھی کرتے ہیں مگر کتاب کو پڑھنے کے لیے جو انہماک درکار ہوتا ہے وہ مشکل سے میسر آتا ہے۔ اب تو کتاب پڑھنا بھی ایک ریاضت ہے جس کے لیے آپ کو اپنی ان تمام سرگرمیوں کو ترک کرنا پڑتا ہے جو آپ کی توجہ بٹاتی ہیں۔ روزمرہ کے کاموںاور دفتری امور سے فراغت کے بعد، جب فرصت کے چند لمحے میسر آتے ہیں تو ہم اپنے فیس بک میسیجز چیک کرنے لگتے ہیں۔ مختلف پوسٹوں کو چیک کرتے جانا، لائک کرنا، کمنٹ کرنا۔۔۔ اسی لایعنی سی سرگرمی میں بہت سا وقت گزر جاتا ہے۔ اس سے فراغت ہوتی ہے تو واٹس ایپ پر پیغامات بھیجنے اور موصول ہونے والے پیغامات کو پڑھنے میں وقت گزرتا ہے۔ اب شاعری، فکشن، افسانہ، ادب، فلسفہ سب کچھ، اب لوگ فیس بک کی پوسٹوں پر ہی پڑھنے کے عادی ہیں۔ اب علمی بحث مباحثے، مکالمے، تبصرے، سب کچھ ایف بی کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ فیس بک بھی ایک طرح کی انجمن ستائش باہمی ہے۔ ہمیں اپنی پوسٹوں پر لائک چاہئیں تو ہیں لازماً دوسروں کی پوسٹیں لائک کرنا ہوں گی، کمنٹس دینا ہوں گے، 
حساب کتاب برابر رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ آپ خود کو out cast محسوس کریں گے۔ ایسے ماحول میں کتاب کون پڑھے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ پوری نسل جو انٹرنیٹ کے دور میں پیدا ہوئی ہے، اسے کتاب کی طرف راغب کرنا، کتاب سے جوڑنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مگر اب بھی کچھ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو بچوں کا کتاب سے رشتہ استوار کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں میرے بیٹے کے سکول میں مائوں کے ساتھ ایک تعارفی ملاقات تھی۔ پرنسپل عنبرین شبانہ نے خاص طور پر مائوں پر زور دیا کہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کتاب پڑھیں۔ انہیں کتاب کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے سکول نے ایک سرگرمی کا آغاز کیا ہے جس کا نام ہے: ''ڈیئر، ڈراپ ایوری تھنگ اینڈ ریڈ!‘‘ یعنی سب کچھ چھوڑ دیں اور کتاب پڑھیں۔ مجھے یہ آئیڈیا بہت اچھا لگا۔ اسے ہم اپنی زندگیوں پر بھی لاگو کر کے کتاب سے محظوظ ہونے کا فن سیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ ایک اچھی کتاب اپنے قاری کو خود اپنے ساتھ باندھ لیتی ہے اور اسے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ مگر ایسے ماحول میں جب ایک ساتھ بہت کچھ ہو رہا ہو۔۔۔ سیل فون کی گھنٹیاں بج رہی ہوں، فیس بک کے نوٹی فیکیشن موصول ہو رہے ہوں، واٹس ایپ کی بیل بج رہی ہو اور اس کے ساتھ ہی ٹی وی پر بریکنگ نیوز کا شور مچا ہو تو منتشر ذہن اور افراتفری کے اس عالم میں اچھی سے اچھی کتاب سے بھی محظوظ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ سو، اس کا حل یہی ہے کہ آپ سب سے پہلے ٹی وی بند کریں، پھر اپنا سیل فون بند کریں یا اُسے خاموش کے Mode پر لگا کر کسی دراز میں رکھ دیں پھر اپنی پسندیدہ کتاب اٹھائیں، چائے کا ایک اچھا سا کپ بنائیں اور خموشی میں کتاب پڑھنا شروع کریں۔ یقین جانیے ایک نئی دنیا آپ کی منتظر ہو گی۔ آپ پر سوچ کے نئے در وا ہوں گے۔ اچھی کتابیں پڑھنے سے آپ زندگی کو بہتر انداز میں پرکھنے اور جینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ''میرے پاس ہزار زندگیوں کا تجربہ ہے۔ میں نے ہزار زندگیاں جی ہیں، اس لیے کہ میں کتاب پڑھتا ہوں‘‘۔ اچھی کتاب آپ کی روح پر اتری اداسی اور تنہائی کی گرد کو صاف کر دیتی ہے۔ کتاب سکھاتی ہے، بہلاتی ہے، سمجھاتی ہے۔ ایک دیرینہ دوست کی طرح تنہائی کے لمحوں میں دوستی نبھاتی ہے۔ مگر کتاب سے اس قدر محظوظ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب کو انہماک سے پڑھا جائے۔ مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب سے تعلق تو استوار ہو! اب کچھ سکولوں میں درسی کتاب کو بھی ختم کر کے ٹیب (Tab) کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ یعنی آج کے طالب علموں کا اگر کتاب سے تھوڑا بہت تعلق ہے تو وہ ان کی نصاب کی کتابوں سے ہے۔ اس رجحان سے تو کتاب طالب علموں کی لغت سے بھی ختم ہو جائے گی۔ شاید ہم جاپانیوں کی طرح روایت سے جڑی ہوئی قوم نہیں ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جاپان جیسے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور ملک میں جہاں ہوٹلوں، دفتروں اور گھروں میں روبوٹ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، سکول سے یونیورسٹی تک طالب علموں کے ہاتھوں میں Tablets موجود ہیں، مگر انہی جاپانیوں کی روایت سے جڑی سوچ ملاحظہ کیجیے۔ جاپان میں ای بکس (e-books) پبلشر کا کہنا ہے کہ جاپانی کچھ معاملات میں انتہا کے روایت پسند ہیں، جدید چیزوں کو مشکل سے اپناتے ہیں۔ کتاب کا رسیا جاپانی آج بھی روایتی کتاب سے ہی محظوظ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتاب کو جب تک ہاتھ میں نہ پکڑا جائے، اسے پڑھنے کا لطف نہیں آ سکتا۔ ای پبلشر کا کہنا ہے کہ جاپان میں ای ریڈرز پڑھنے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ یہ کاروبار کرنے والے نقصان میں ہیں۔ اتنی روایت پسند جاپانی قوم ہی ہو سکتی ہے، یہ ہمارے بس کی بات نہیں کیونکہ ہم لوگ تو اپنی روایتوں پر شرمندہ ہونے اور انہیں Disown کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شاید روایت پسند ہونا پسماندگی کی علامت ہے۔ اس سے میری مراد ہرگز یہ نہیں کہ ہم خود کو روایتوں کا قیدی بنا لیں۔ مگر ایسی روایتیں جن سے زندگی اور تعلقات خوب صورت ہوتے ہیں اور جن سے ہم کسی مشکل کا شکار نہیں ہوتے، ان روایتوں کو اپنائے رکھنا چاہیے۔ خیر، یہ تو ایک اور موضوع ہے، فی الحال تو ہم کتاب بینی کی معدوم ہوتی ہوئی خوبصورت عادت پر بات کر رہے ہیں۔ آخری بات یہی کہ کوشش کریں اپنے بچوں کے سامنے کتاب پڑھیں، انہیں ساتھ بٹھا کر کتاب پڑھیں اور انہیں تحائف میں کبھی کبھار کتاب دیا کریں۔ زندگی کی اس خوبصورت روایت کو معدوم نہ ہونے دیں۔ مگر اس کے لیے آپ کو اپنی توجہ منتشر کرنے والی تمام چیزیں آف کرنا پڑیں گی یعنی اس سلوگن کو اپنانا ہو گا! Drop every thing and read

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں