"SQC" (space) message & send to 7575

بش کی یادداشتیں۔۔۔۔ مزید اقتباسات

عید کی چھٹیوں کا خمار اب اتر رہا ہے‘ کل سے کام دِنوں کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ مگر قوم ابھی چھٹی ہی کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ آم ہوں اور بہت سارے ہوں۔ پاکستانیوں کے لیے غالب کے اس جملے میں تصرف کر کے یوں کہا جا سکتا ہے کہ چھٹیاں ہوں اور بہت ساری ہوں۔ کاروبار حیات کو خیر باد کہہ کر زیادہ سے زیادہ چھٹیاں انجوائے کی جائیں۔ ہمیں چھٹیاں شاید اس لیے بھی زیادہ پسند ہیں کہ ہم ''کام‘‘ کو سزا سمجھتے ہیں۔ کام سے لطف اندوز ہونے کا ہمارے ہاں کوئی تصوّر نہیں۔ اسی لیے پاکستانی قوم چھٹیوں کی دلدادہ ہے۔ جمعرات سے کچھ دفاتر اور سکول کھل تو گئے تھے مگر وہاں کام کی جگہ چھٹی کا سا ماحول رہا۔ لوگ ایک دوسرے کو ابھی تک گزشتہ عید کی مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ سے یاد آیا‘ پچھلے اتوار کے ''امکان‘‘ میں جارج بش کی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے حوالے سے لکھا تھا کہ کیسے سپر پاور اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کے حالات کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتی ہے۔ اس کالم کے رسپانس میں بیشتر قارئین نے لکھا کہ کتاب 'دی ورلڈ ٹرانسفارمڈ‘ سے مزید اقتباسات بھی شیئر ہونے چاہئیں۔ سو اس بار یادداشتوں کی اس کتاب کے چند مزید دلچسپ گوشے قارئین کے لیے ترجمہ کر رہی ہوں:
31دسمبر 1990ء کو جب عراق پر حملے کا فیصلہ ہو چکا تھا‘ جارج بش پر جنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں سخت تنقید ہو رہی تھی۔ امریکہ کا صدر اپنے بچوں کے نام1990ء کی آخری رات خط لکھتا ہے، جس میں وہ خود کو نہ صرف انسانی حقوق اور انسانیت کا علمبردار بنا کر پیش کرتا ہے بلکہ خود کو جنگ کا مخالف اور امن کا داعی لکھتا ہے۔ ملاحظہ کریں:
''پیارے جارج‘ جیب‘ نیل مارون اور ڈورو! میں تمہیں یہ خط 1990ء کی آخری رات لکھ رہا ہوں۔ یقین کرو میں امن پر یقین رکھنے والا انسان ہوں۔ میرے نزدیک ہر انسانی جان قیمتی ہے۔ اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ ہم اپنے مقصد کے حصول کے لیے کتنی جانیں ضائع کر سکتے ہیں تو میرا فوری جواب ہو گا ''ایک بھی نہیں‘‘ کیونکہ ہر جان قیمتی ہے۔ ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی ہے کہ ممکنہ جنگ کو روکا جا سکے۔ مجھے امریکی فوجیوں کی زندگی بہت عزیز ہے۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ جانی نقصان کم سے کم ہوں‘‘۔
''ڈیڈ لائن کو گزرے ایک دن ہو چکا اور دن بہت عجیب تھا۔ میرا ذہن کسی بھی شے پر مرتکز نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے میزائل اور ایئر کرافٹ بغداد پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار تھے۔ کانگریس کے کچھ ارکان اب بھی جنگ کے حق میں نہ تھے، مجھے ان کی مخالفت کا سامنا تھا‘‘۔
ایک اور اقتباس:
''میں باب گیٹس اور رچرڈ ہیس کے ساتھ اپنے آفس میں بیٹھا ہوں۔ ہم سب سی این این دیکھ رہے ہیں۔ عراق کے خلاف فضائی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا۔ میرے ہاتھ میں موجود فائل پر حملے کی تمام تفصیلات اور اوقات درج ہیں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں فلم کا سکرپٹ پڑھ رہا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں ٹی وی سکرین پر ایک حقیقی جنگ دیکھنے والا ہوں۔ پہلا اٹیک عراق کے وارننگ ریڈارز پر ہوا۔ بالکل صحیح وقت پر۔ پھر سات بجے کے قریب ٹی وی کی سکرین بم دھماکوں‘ شعلوں اور گرد سے بھر گئی...‘‘۔
''چند منٹ کے بعد مجھے قوم سے خطاب کرنا تھا۔ طے شدہ وقت جنگ کے آغاز ہونے سے دو گھنٹے بعد رکھا گیا تھا۔ اس طرح امریکی وقت کے مطابق نو بجے مجھے خطاب کرنا تھا۔ میں نے اپنی تقریر تیار کر رکھی تھی میں حیران تھا کہ میں ذرا بھی نروس نہیں...‘‘۔
قارئین! سرد جنگ کے اس دور میں جب سوویت یونین بھی کمزور ہو کر بکھرنے کے قریب تھا‘ میخائل گوربا چوف سوویت صدر کی حیثیت سے عراق جنگ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ڈائری کے ایک صفحے پر امریکی صدر بش نے لکھا:
''اگلی صبح میری گوربا چوف سے ٹیلی فون پر کافی لمبی بات ہوئی۔ وہ جنگ میں بڑھتی ہوئی شدت پر کافی پریشاں تھا۔ اس کا لہجہ اس پریشانی کا عکاس تھا۔ ساری گفتگو میں گوربا چوف نے مجھے جنگ روکنے کے لیے بارہا کہا۔ میرا جواب وہی تھا کہ صدام کو باز رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہے۔گوربا چوف نے اصرار کیا کہ اب صدام سے بات چیت کرتے ہیں تاکہ جنگ اسی مرحلے پر روک دی جائے۔ امریکہ کی فتح تو ہو چکی ہے، عراقی شہریوں اور امریکی فوجیوں کو مرنے سے بچانا چاہیے۔گوربا چوف نے اصرار کیا کہ بغداد میں سوویت یونین کا سفیر ابھی صدام سے ملے گا اور اگر امریکہ کہے تو اسے یہ پیغام پہنچا دیتے ہیں کہ اگر وہ کویت سے نکل جائے تو مزید جنگی کارروائی روک دی جائے گی۔‘‘
''سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ ہمارے فوجی دستوں نے شاندار پرفارمنس دی۔ حیران کن! میرا اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ صحیح ہے اور دوسرے بالکل غلط۔ ہم بہت صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ ہم ایک فتح کا جشن منائیں گے اور ویتنام کی ناکامی تاریخ میں بہت پیچھے رہ جائے گی‘‘۔
اسی زمانے میں سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا۔ سوویت یونین کی ریاستیں آزاد ہو رہی تھیں۔ متحدہ سوویت یونین کے آخری صدر کی حیثیت سے میخائل گوربا چوف یک مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ جارج بش اپنی ڈائری میں کیسے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ پڑھیے:
''گوربا چوف کے مسائل بے شمار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ صدر بش اور صدر گوربا چوف کی آخری سرکاری ملاقات ہو گی۔ کیا اس کو اندازہ ہے کہ وہ اس وقت ایک خطرناک ڈھلوان پر کھڑا ہے اور مسلسل نیچے گر رہا ہے‘‘۔
سوویت یونین ڈھے چکا۔ جار بش اپنی ڈائری میں کیا لکھتا ہے:
''یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا لمحہ ہے۔ ناقابلِ یقین! ایک پورے عہد کا خاتمہ!
سوویت پاور زمین بوس ہو چکی۔ اس کی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا۔ سرد جنگ میں امریکی جدوجہد اور کوشش سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہو گیا۔ ہمیں اچانک ہی ایک منفرد حیثیت مل چکی ہے۔ اب ہم دنیا کی تنہا سپر پاور ہیں۔ ہم دنیا کو اب اپنی مرضی سے تبدیل کریں گے۔ ہم پر اب کڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے فیصلے کریں جو امریکہ کے لیے بہترین ثابت ہوں‘‘۔
سب کے سامنے ہے کہ امریکی فیصلوں نے دنیا کو کیا دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں