ستمبر کے آخر دن ہیں، گرمی رخصت ہو رہی ہے مگر ملک کے سیاسی حالات اور عالمی منظر نامہ دونوں سخت گرم ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے جس کے باعث پاک بھارت تنائو عروج پر ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی سیاسی جماعت تحریک انصاف 30 ستمبر کو رائے ونڈ میں دھرنا دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ رائے ونڈ کے اڈا پلاٹ پر احتجاج اور دھرنا علامتی طور پر وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر دھرنا دینے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ اس لیے ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ورکرز کے درمیان سخت تنائو کی کیفیت ہے۔ ایک جانب ن لیگ کے ورکرز ڈنڈے اور ٹماٹر اٹھا کر دھرنے والوں کا استقبال کرنے کو تیار نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی کی بلّے بردار فوج ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کی قیادت بارہا اعلان کر چی ہے کہ حالات ہر طرح سے پرامن رکھے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ورکرز کو ڈنڈے اور بلّے پکڑانے والے کون ہیں؟کپتان کے بے لچک الفاظ ن لیگ کے ورکرز کو یقیناً بھڑکاتے ہیں، اس لیے 30 ستمبر کو دونوں جماعتوں کے ورکرز کے ٹکرائو کا حقیقی خدشہ موجود ہے۔ اگر یہ ناپسندیدہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اسے کون کنٹرول کرے گا؟ ماڈل ٹائون کے سانحے میں 14بے گناہ افراد کے مارے جانے کے بعد کیا پنجاب حکومت مزید کسی ایڈونچر کے متحمل ہو سکتی
ہے؟ عمران خان اپنی تقریروں میںہمیشہ کہتے ہیں کہ پرامن احتجاج سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے۔ پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما بھی ٹی وی ٹاک شوز میں احتجاج کے جمہوری حق کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کو پرامن کون رکھے گا۔ جماعت کے چیئرمین کے الفاظ اگر اس روز بھی تیر و تفنگ بن کر مخالفین پر وار کرتے رہے تو پھر ردّ عمل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جس سے یقیناً نقصان ہو گا۔ بہرحال ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعظم نواز شریف کے پاناما سکینڈل میں ملوث ہونے کی بنا پر اپوزیشن کا رویہ جارحانہ ہے۔ احتجاج جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں ہونے والی تقریروں کا بنیادی موضوع ہی پاناما سکینڈل ہوتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم ان حالات میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب بھی کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی بربریت اور ظلم و ستم کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ تھی کہ ملک کے وزیر اعظم کو ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوتی۔ اس طرح دنیا کو بھی ایک بہتر پیغام جاتا اور اس کا فائدہ کشمیر کاز کو ہوتا۔ احتجاج تو آئے روز ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اگر اس موقع
پر باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنے جلسوں میں صرف کشمیر کاز کو اہمیت دیتیں تو عالمی طاقتوں سمیت دُنیا بھر کو یہی پیغام جاتا کہ کشمیر کے ایشو پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ہم آواز ہیں‘ ان کا موقف ایک ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم جو بین الاقوامی فورم پر کشمیر کے ایشو پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے گئے ہیں، انہیں اپنے ملک کی مکمل حمایت حاصل ہونی چاہیے تھے۔ اس طرح وزیر اعظم خود کو زیادہ پر اعتماد محسوس کرتے۔
مقبوضہ کشمیر میں دن بدن صورت حال پہلے سے زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان بھی شدید تنائو کی کیفیت ہے۔ بھارت نے بھاری اسلحہ اگلے مورچوں پر منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت کا جنگی جنون عروج پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اب فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پکستان کی تمام سیاسی قوتیں یکجا ہوں اور باہمی تضادات کو بھلا کر ایک بڑے قومی ایشو پر متحد ہو جائیں۔ اس صورت حال میں عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ بارڈرز کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر سپہ سالار کی تبدیلی بھی سوچ سمجھ کر کرنا ہو گی۔ اگرچہ اس حوالے سے کچھ اہم فیصلے ہو چکے ہوں گے لیکن تاحال کوئی بات کھل کر منظر عام پر نہیں آئی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی لندن میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا سوال نظر انداز کیا اور اس پر کوئی وضاحت دینے سے گریز کیا۔ یہ قیاس آرائی بھی ہوتی رہی کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل کے رینک پر ترقی دی جائے گی۔ بہرحال ‘ غیر یقینی صورت حال کو ختم کر کے اب کوئی حتمی اعلان ہو جانا چاہیے۔ ان حالات میں ملک کی سیاسی قیادت کو فوری طور پر اس فیصلے کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ سپہ سالار اپنی حکمت عملی مرتب کر سکیں۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے دھرنے کا سوال ہے۔ اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا عمران خان نے اے پی ایس کے سانحے کے تناظر میں ختم کیا۔ وہ اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیںکہ ملکی اور قومی مفاد میں انہوں نے اپنے دھرنے کو ختم کیا۔ میرا خیال ہے اس بار پھر انہیں اسی جذبے سے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کرپشن پر انکار احتجاج ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ یہ لڑائی اب وہ سڑکوں کی بجائے اسمبلی کے اندر لڑیں۔ شہروں کو بند کر کے ‘ راستے بلاک کر کے‘ ایمبولینسوں کا راستہ روک کر مریضوں اور دیگر شہریوں کو اذیت سے دوچار کر ے وہ دھرنے سے کیا حاصل کریں گے۔ پھر 30 ستمبر کے دھرنے کے بعد کیا ہو گا۔ اس کے بعد ان کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ اس سوال کا جواب شاید خود عمران خان کے پاس بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسے کبھی کبھی بدنظمی اور انتشار کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اگر وہی ہلڑ بازی اور بدنظمی اس دھرنے میں بھی ہوئی تو اس کا نتیجہ پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اس دھرنے کو ملتوی کر دیں اور اپنی پارٹی کے اندرونی اختلافات کو سلجھانے کی کوشش کریں ان کے قریبی رُفقاء اور پارٹی ورکرز میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
جہانگیر ترین کے خلاف تو پوسٹر بھی لگ گئے جبکہ اندر کی خبر یہ ہے کہ لاہور کی ضلعی قیادت علیم خان سے سخت نالاں ہے اور اندر ہی اندر بغاوت پر آمادہ۔ سو، بہتر یہی ہے کہ کپتان ان معاملات کو سلجھائیں۔ خیبر پختونخوا پر توجہ دیں‘ کرپشن کی جنگ پارلیمنٹ میں لڑیں۔ کشمیر کا ایشو ایک اہم قومی مسئلہ ہے‘ اس پر حکومت کو سپورٹ کریں۔ اس سوچ کا فائدہ نواز شریف کو نہیں کشمیر اور کشمیریوں کو پہنچے گا جن کی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے۔