"SQC" (space) message & send to 7575

رضیہ سلطانہ کا والد

یٰسین ملک مجھے کسی پرانی رومانی داستان کا ایک کردار لگتا ہے، ایسی داستان جس میں آزادی‘ انقلاب اور جبر سے بغاوت ہی زندگی کا اصل رومان ہو۔ ہر انقلابی رومانی ہوتا ہے اس لیے کہ جب تک وہ اپنے مقصد کے ساتھ عشق کی ڈوری میں نہیں بندھتا وہ جدوجہد کر ہی نہیں سکتا۔ سو، عشق کسی بھی انقلابی کا بنیادی وصف ہے۔ یہی عشق اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے جبر کی ہر طاقت سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھے۔ یٰسین ملک بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔ آزادی کے گلاب لمحوں کے لیے اپنی زندگی کو سعیٔ پیہم میں گزارتے ہوئے ہر مشکل لمحے کو استقامت اور صبر سے برداشت کرنے والا، اس یقین کے ساتھ کہ ڈل جھیل پر ایک روز آزادی کا سورج ضرور چمکے گا، سری نگر کے گلاب لہو سے دھل کر اور بھی تازہ رو اور سرخ رو ہوں گے۔ عمر کے پچاس میں سے بتیس برس‘ یٰسین ملک نے کشمیر کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد میں گزار دیے۔ جیلیں کاٹیں‘ بھارتی فورسز کے تشدد سہے‘ صعوبتیں برداشت کیں مگر آزادی کے خواب سے دست بردار نہیں ہوئے۔ طاقت کے مقابلے میں جذبے اور یقین سے سفر جاری رکھنا آسان نہ تھا۔ ایسے ہی مسافر کو شاعر دعا دیتے ہوئے کہتا ہے ؎
رَہ روِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہو...!
اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں
آج مقبوضہ کشمیر کا ہر فرد اس مشکل راستے کا مسافر ہے۔ یٰسین ملک نے یہ سفر صرف 18برس کی عمر میں شروع کیا۔ سری نگر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا یٰسین ملک تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ ایک حساس بچے اور جذباتی نوجوان کی حیثیت سے یٰسین نے وادی میں اپنے لوگوں کو بھارتی طاقت کے جبر کا شکار دیکھا۔ اس نے اپنے لوگوں کی آبرو کو پامال ہوتے اور ان کی عزت نفس کو بھاری بوٹوں تلے کچلے جاتے دیکھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ 18برس کی عمر میں اس بہادر کشمیری نوجوان کی سوچوں میں کیا قیامت برپا ہوتی ہوگی! یہی عمر تھی جب ایک سانحے نے یٰسین کی زندگی کی سمت متعین کر دی اور وہ ایک فریڈم فائٹر بن گیا۔ وہ کشمیر کی تحریک آزادی میں اپنا حصہ ڈالنے لگا۔ برہان وانی کی کہانی بھی یہی ہے۔ اس کو بھی ایک حادثہ فریڈم فائٹر بنا گیا۔ اس نے بھی اپنی آنکھوں سے بھارتی فورسز کے جبر کو دیکھا اور پھر کشمیر کی تحریک آزادی کو اپنا لہو دے کر امر ہو گیا۔ اس نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔ آج کشمیری نوجوان بھارتی درندوں کے ظلم و جبر اور کرفیو کی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے وادی میں اللہ اکبر اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ 
8 جولائی 2016ء کو جب اس بہادر کشمیری نوجوان کو بھارتی فورسز نے شہید کیا تو گویا مقبوضہ وادی کا ہر نوجوان برہان وانی اور یٰسین ملک بن گیا۔ وادی میں آزادی کی تحریک شدت پکڑ گئی۔ برہان وانی کی شہادت کے اگلے روز 9 جولائی 2016ء کو یٰسین ملک کو بھارتی فورسز نے بلا جواز حراست میں لے لیا اور تقریباً ڈیڑھ ماہ تک اذیت ناک حالات میں قید رکھا۔ یٰسین ملک تو بتیس سال سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، قید و بند کی طعوبتوں کے دوران بھارتی فورسز کے تشدد سے وہ اپنے ایک کان کی سماعت سے محروم ہیں، قید کے دوران زبردستی تیزاب پلانے کی وجہ سے ان کا دل اور گردے خراب ہو چکے ہیں، اب تحریک آزادی کا یہ بہادر مجاہد‘ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا چیئرمین گزشتہ ڈیڑھ ماہ بدترین قید میں گزارنے کے بعد صاحب فراش ہے۔ تازہ خبر ہے کہ اب انہیں سری نگر کے سرکاری ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ان کی اہلیہ مشال ملک ان کے علاج سے مطمئن نہیں ہیں۔ کشمیری فریڈم فائٹر کی شریک حیات کی حیثیت سے وہ یہاں مختلف احتجاجی ریلیوں، جلسے جلوسوں ‘ ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرتی ہیں تاکہ دنیا کو کشمیر کے بدترین حالات سے آگاہ کیا جائے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے۔
میں جب مشال ملک کو اپنے کشمیری شوہر‘ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یٰسین ملک کے لیے پریشان ہوتے‘ کشمیری کاز کے لیے جدوجہد کرتے‘ کشمیریوں کے موقف کو مختلف فورموں پر بیان کرتے دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ یٰسین ملک کی زندگی واقعی افسانوی ہے۔ مشال ملک کی خوب صورت شخصیت نے فریڈم فائٹر کی زندگی کو مکمل کیا۔ بظاہر دونوں کی شخصیات دو الگ الگ دنیائوں کی طرح مختلف ہیں۔۔۔۔ کہاں کشمیر کی آزادی کا ایک سرگرم رہنما‘ مشکل راستوں کا مسافر، خاموش طبع، کھردری اور پر خطر زندگی گزارنے والا‘ درویشانہ سا انداز‘ چہرے پر جیسے کڑے سفر کی تمام کہانی تحریر ہو۔ شاید ہی کبھی کسی نے یٰسین ملک کو یا قہقہہ لگاتے دیکھا ہو۔ دوسری جانب مشال ملک کا تعلق طبقۂ اشرافیہ سے تعلق‘ ناز و نعم میں پلی لندن اسکول آف اکنامکس کی گریجوایٹ، حسین صورت‘ ایک خوب صورت مصورہ‘ جس نے زندگی کا ہمیشہ ملائم اور دلکش رخ دیکھا‘ ایک کانفرنس میں یٰسین ملک سے پہلی بار ملتی ہے اور پھر شادی کا فیصلہ دونوں کو ایک کر دیتا ہے۔ مشال کی زندگی یٰسین ملک سے شادی کرنے سے پہلے تک ہموار اور خوشگوار تھی مگر اس مشکل فیصلے کی وہ آج بھی لاج رکھ رہی ہیں۔ اب لوگ انہیں مصورہ سے زیادہ کشمیری رہنما کے طور پر زیادہ جانتے ہیں۔ اپنی چار سالہ بیٹی کا نام بھی انہوں نے عظیم تاریخی کردار کے نام پر رضیہ سلطانہ رکھا ہے۔ یہ معصوم بچی کئی کئی ماہ اپنے والد سے نہیں مل پاتی کیونکہ اس کا والد ایک ایسی تحریک کا سرگرم رہنما ہے جو جبر اور قہر کی آگ میں جلتی وادی میں کشمیری بیٹیوں کو محفوظ‘ پرامن اور باوقار زندگی دینے کے لیے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ایک عظیم جدوجہد میں شریک ہے۔ مجھے یقین ہے رضیہ سلطانہ کا والد دوسرے تمام کشمیریوں کی طرح ایک روز ضرور سرخ رُو ہو گا!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں