"SQC" (space) message & send to 7575

پنجابی کا المیہ!

پنجابی زبان کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی خود پنجابیوں نے کی‘جو آج اسے ایک انگش میڈیم سکول کے سرکلر میں فائول لینگوئج کے طور پر درج کرنے پر شور مچا رہے ہیں۔ پنجابیوں نے اپنی زبان سے محبت نہیں کی‘ اسے اپنایا نہیں اور اس کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اپنایا۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں پنجابی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔ تقریباً 50فیصد پاکستانی پنجابی بولتے ہیں مگر اس کے باوجود پنجاب میں قابل ذکر پنجابی اخبار نہیں چھپتا۔ پنجاب کے سکولوں اور کالجوں میں پنجابی نصاب کا حصہ نہیں۔ ہمارے گھروں میں بچوں کے ساتھ ہم پنجابی نہیں بولتے‘ اردو یا انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ دراصل ہم بچوں کو یہی زبانیں سکھانا چاہتے ۔ پنجاب میں کچھ سرکاری ادارے پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں مگر ان کی کار کردگی اس سطح کی نہیں جو انگریزی سے مرعوب نسل کو متاثر کر سکے۔ محض سہ ماہی یا ششماہی ترنجن چھاپ لینے سے پنجابی کی خدمت نہیں ہوتی۔
المیہ یہ ہے کہ انگریزی سکولوں میں پڑھنے والی ہماری نسل پنجابی زبان بولنا پسند نہیں کرتی، البتہ یہی نسل پنجابی بھنگڑوں اور گانوں پر بڑے ذوق و شوق سے ناچتی نظر آتی ہے۔ اب تو کوک سٹوڈیو کے پاپ کلچر میں بھی پنجابی بھنگڑے اور پنجابی صوفیانہ کلام کا راج ہے۔ اس تضاد کی وجہ تلاش کرنی چاہیے۔ عارف لوہار مغربی اور مشرقی سازوں کے ملاپ کے ساتھ جگنی گائے تو جینز پہنے ہوئے نوجوان بھی اسے زیر لب گنگنانے لگتے ہیں۔ پنجابی شو‘ پنجابی میوزک‘ پنجابی گانا شاید اس لیے دل میں فوراً جگہ بنا لیتا ہے کہ ہم دوسری زبانیں کتنی ہی کیوں نہ سیکھ لیں احساسات ‘ جذبات کے اظہار کا جو مزہ اپنی مادری زبان میں ہے وہ کسی دوسری میں نہیں آ سکتا۔
جس ملک میں تعلیم‘ صحت اور مہنگائی جیسے بے شمار مسائل ہوں‘ وہاں مقامی زبان کا فروغ ایک نان ایشو بن کے رہ جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ہم پنجابی زبان سے سوتیلوں والا برتائو کیوں کر رہے ہیں؟ اب بھی یہ شور اس لیے اٹھا کہ ساہیوال کے ایک انگلش میڈیم سکول کی ایک برانچ نے اپنے روٹین کے دفتری سرکلر میں طالب علموں کو تہذیب کے دائرے میں رکھنے کے لیے حکم دیا کہ وہ سکول کیمپس کے اندر پنجابی زبان نہیں بولیں گے ۔ انہوں نے پنجابی زبان کے ساتھ گالم گلوچ اور طنز بھرے جملوں کو بھی بریکٹ کر دیا۔ اس پر طوفان اٹھا اور پنجابی زبان سے محبت کرنے والے اس بڑے تعلیمی ادارے کے لاہور میں واقع کیمپس کے سامنے احتجاج کرنے پہنچ گئے۔ پنجابی کے پردھان لکھاری اقبال قیصر‘ مشتاق صوفی‘ پروین ملک اور کئی دوسرے اپنی ماں بولی کے ساتھ اس سلوک پر سراپا احتجاج تھے۔ بہرحال سکول 
نے احتجاجیوں کو ٹھنڈے پانی کی بوتلیں پیش کیں اور انہیں ٹھنڈا کرکے واپس بھیج دیا۔ اس دوران پنجابی ادبی بورڈ یہ معاملہ عدالت میں لے جا چکا ہے۔ سکول نے معذرت کر لی ہے اور اس سرکلر کو فی الفور منسوخ بھی کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں پنجابی کے تمام بڑے نام جمع تھے۔ پنجابی کی باکمال نظمیں کہنے والے ہمارے عہد ساز صحافی منو بھائی بھی موجود تھے۔ یہ سب قابل ذکر شخصیات محترمہ افضل توصیف کے میموریل ریفرنس میں موجود تھے‘ جہاں ایک بار پھر اسی موضوع پر بات چل نکلی۔ پلاک کی ڈی جی صغریٰ صدف کہنے لگیں ‘ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پنجابی مضمون کو سکول اور کالج میں لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہمارے بچے پنجابی زبان پڑھنے کے قابل ہو سکیں۔
سوال یہ ہے کہ پنجابی زبان کے نام پر قائم ان بڑے اداروں کو آج تک اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟ ایک ایشو بنا‘ ایک طوفان اٹھا اور اب مذمتی بیانات کے سلسلے میں یہ سب وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں۔ یہی ہمارا وتیرہ ہے۔ چند روز گزرنے کے بعد یہ گرد بیٹھ جائے گی‘ پھر کسی کو یاد بھی نہ ہو گا کہ ماں بولی کے لیے کیا کیا دعوے اور وعدے کیے گئے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ پنجابی کی علمبردار تمام شخصیات کے بچے انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں اور گھر میں اردو بولتے ہیں۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں سے یہ سلوک صرف پنجابی زبان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سندھ میں پڑھا لکھا سندھی آپس میں سندھی زبان میں بات کرتا ہے۔ سندھی ٹوپی اورسندھی اجرک کا دن وہاں منایا جاتا ہے جبکہ پنجابی پگڑی، دھوتی، کرتے اورشلوار پہننے والے کو پینڈو سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے کلچر‘ اپنے پہناوے اور اپنی طرز معاشرت پر فخر کرنے کی بجائے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ رنگین کپڑوں سے بنائی جانے والی رِلیاں سندھ کے دیہاتی کلچر کا حصہ تھیں‘ آج بڑے بڑے ڈرائنگ رومز میں یہ رلیاں بچھی دکھائی دیتی ہیں لیکن پنجابی کلچر کا کوئی نشان ہمیں ان گھروں میں دکھائی نہیں دیتا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی کے ساتھ یہ ناروا سلوک صرف پاکستان میں ہوتا ہے ورنہ مشرقی پنجاب میں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ امریکہ میں پنجابی زبان کے کمیونٹی اخبار نکالے جاتے ہیں۔ پنجابی ریڈیو بے شمار ہیں۔ کینیڈا کے کئی سکولوں میں پنجابی دوسری زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اس کا سہرا انڈیا سے ہجرت کر کے کینیڈا ‘ آسٹریلیا ‘ امریکہ میں آباد ہونے والے سکھوں کے سر جاتا ہے، جنہوں نے کسی بھی ملک میں رہ کر پنجابی زبان اور پنجابی ثقافت کو اپنائے رکھا۔ باقی لوگوں نے انگریزی بولنے والے ملکوں میں پنجابی زبان کو دیس نکالا دے رکھا ہے۔ زبان محض آوازوںاور حرفوں کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ زبان کے ساتھ ثقافت ‘ طرز معاشرت‘ تاریخ اور لوک کہانیوں کا وزڈم وابستہ ہوتا ہے۔ جب ہم اُس زبان کو ڈس اون (Disown)کرتے ہیں تو گویا دوسرے الفاظ میں ہم اس زبان سے وابستہ تاریخ ثقافت اور طرز معاشرت سے بھی دست بردار ہو جاتے ہیں۔ یہی المیہ پنجابی کے ساتھ ہوا ہے۔ اگر آج پنجابی زبان کو فائول لینگوئج کہا جا رہا ہے تو اس میں ان پنجابی فلموں کا بھی قصور ہے جن میں ہمیشہ ڈنڈے ‘ گنڈاسے اور بدمعاشی کاکلچر دکھایا گیا۔ پنجابی زبان کے علمبردار ادارے اور شخصیات اس وقت کیوں خاموش رہے۔ آج ماں بولی کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے احتجاج انہیں انگلش میڈیم سکول کے خلاف نہیں خود اپنے خلاف کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں