"SQC" (space) message & send to 7575

دو ہزار چودہ کا سولہ دسمبر

انجیلا ملّر امریکہ کی ایک غمزدہ ماں ہے۔ امریکی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ماں دنیا کے کسی بھی خطّے کی ہو‘ کسی مذہب کی ہو‘ کسی ملک سے ہو‘ کالی ہو یا گوری‘ اُس کا خمیر تو ایک ہی مٹی سے گندھا ہوتا ہے۔۔۔۔ محبت اور مامتا۔ سو انجیلا کے امریکی ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ اُس نے سات برس پہلے ایک حادثے میں اپنا بیٹا کھو دیا تھا۔ ماں کے لیے اولاد کے بچھڑ جانے کا غم کیا ہوتا ہے؟ اس کو الفاظ میں ڈھالنا بہت مشکل ہے۔ مگر انجیلا ملّر نے اس دُکھ کو نہ صرف الفاظ میں بیان کیا بلکہ اپنے جیسے دوسرے غم زدہ والدین، جنہوں نے اولاد سے بچھڑنے کا دُکھ سہا ہے، اُن کے لیے ایک کمیونٹی فورم بنایا‘ جس کا نام ہے اے بیڈ فار مائی ہارٹ (A Bed for my Heart) اس کمیونٹی کو ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انجیلا کے پروفائل میں لکھا ہے کہ وہ ایک لکھاری‘ ایک مقرّر اور غمزدوں کی وکیل (Grief Advocate)ہے۔ اردو میں ہم اسے غم زدوں کے لیے مشورہ دینے والی کا نام دے سکتے ہیں۔
انجیلا اپنی ایک پوسٹ میں، جس کا نام ہے'' وہ سات باتیں جو میرے بیٹے کی موت نے مجھے سکھائیں‘‘ لکھتی ہیں:
سب سے پہلی بات یہ کہ دیکھنے والوں کو ضرور ایسا لگتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے بچھڑ گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ میں آج بھی اپنی زندگی کا ہر سال‘ ہر مہینہ‘ ہر دن‘ ہر سکینڈ اُس کے ساتھ گزارتی ہوں۔ اُس کی یاد مرے دِل سے کبھی جُدا نہیں ہوتی۔ آج سات برس گزر جانے کے بعد بھی میری ہر صبح کا آغاز اپنے جگر گوشے کی جُدائی کے کرب کو محسوس کرکے ہوتا ہے۔ وہ آج بھی میری زندگی کا حصّہ ہے‘ اُسی طرح جیسے وہ اپنی زندگی میں تھا۔
دوسری بات وہ لکھتی ہے کہ میں آج بھی اپنے بچھڑ جانے والے بیٹے کی باتیں اسی طرح اپنے دوستوں سے کرنا چاہتی ہوں جیسے وہ حیات ہو۔ اُس کے بارے میں بولنا چاہتی ہوں۔ اُس کا نام ہر بات میں لینا چاہتی ہوں۔ دوسروں سے بھی اُس کا نام سننا چاہتی ہوں۔ میں اپنے بیٹے سے اُسی طرح محبت کرتی ہوں جیسے وہ زندگی میں اُن کے ساتھ ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میرا بیٹا خدا کے پاس جنت میں ہے اور اس کے بچے اُن کے ساتھ دنیا میں ہیں۔
انجیلا ملّر ایک اور دلگداز احساس لفظوں میں ڈھالتی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ اولاد کے مرنے کے غم کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ تکلیف ہے جس کا کوئی مرہم نہیں۔ یہ وہ گھائو ہے جو کبھی نہیں بھرتا‘ اس لیے یہ غم میری آخری سانس تک زندہ رہے گا۔ جب تک میں زندہ ہوں اپنے بیٹے سے محبت کرتی رہوں گی۔ یہ غم بھی زندہ رہے گا‘ یہ گھائوتکلیف دیتا رہے گا۔ انجیلا لکھتی ہے کہ وہ بدقسمت‘ غمزدہ مائیں جن کے بچے انہیں داغِ مفارقت دے جاتے ہیں وہ اس غم کے ساتھ پوری زندگی گزارتی ہیں۔ انہیں زندگی کے ہر منظر میں ایک جگہ خالی نظر آتی ہے۔ خاندان کا کوئی گروپ فوٹو ہو‘ کوئی خوشی کی تقریب ہو، انہیں اپنے بیٹے کی جگہ خالی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب خوشی کے ہجوم میں بھی ان کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔
میں نے جب اس تحریر کوپڑھا تو یقین جانیں میری آنکھیں کئی بار نم ہوئیں اور مجھے اے پی ایس کے شہدا کی غم زدہ مائیں یاد آنے لگیں، جن کے لیے زندگی ان کے بچھڑ جانے والے بچوں کی یاد کے سوا اور کچھ نہیں۔
کہنے کو 16دسمبر گزر گیا مگر کہاں گزرا! 2014 ء کا 16دسمبر تو آج بھی ان گھروں کی دہلیزوں سے لپٹ کر بین کرتا ہے جن کے شہزادے یونیفارم میں مکتب کو گئے اور پھر واپس نہ آئے۔ مائوں کے ہاتھ ان کے وجود کے لمس کو ترس گئے۔ ماں باپ کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ بہنوں کے آنچل آنسوئوں سے بھیگے رہتے ہیں اور بھائی اپنے بھائیوں کی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔ دو سال گزر گئے مگر 
بچھڑنے کی تکلیف کم نہیں ہوئی۔ مائوں کے شہزادوں کو سفاک درندوں نے ایسی بے دردی سے قتل کیا کہ روح کانپ جاتی ہے۔ اس سانحے نے دنیا کو رُلا دیا مگر پاکستان کے حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور کرتا دھرتائوں کی فکر‘ سوچ اور پالیسیوں پر اس ہولناک سانحے کے وہ اثرات دکھائی نہیں دیے جو ہونے چاہئیں تھے۔ آج بھی اے پی ایس شہدا کے والدین اپنے بچوں کے قتل کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس سانحے کے چند کرداروں کو پھانسی دینے سے ان کے دل کی تسلی نہیں ہوئی۔ والدین شکوہ کناں ہیں کہ حکومت ہو یا اپوزیشن، سب سیاست کر رہے ہیں‘ ان کے کرب کا احساس نہ حکمرانوں کو ہے نہ اپوزیشن کو۔ آج بھی اخبار میں خبر چھپی ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا رویہ اے پی ایس کے شہداء کے والدین کے ساتھ تضحیک آمیز رہا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ان والدین کو وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے شکائتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم سے ملنا چاہتے تھے مگر وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر رلتے رہے۔ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے ان سے تحریری مطالبات بھی وصول کئے لیکن وہ آج تک وزیر اعظم ہائوس سے جواب کے منتظر ہیں۔ یہ ناقابل یقین حد تک افسوسناک صورتحال ہے۔ ان عظیم اور دکھی والدین کے جگر گوشے سکول میں بے دردی سے قتل کئے گئے‘ جلائے گئے، کیا حکومت اس قتل کی ذمہ دار نہیں ہے؟ اگر حکومت ہر شہری کی جان و مال کی محافظ ہے تو پھر اس سانحے کی ذمہ دار بھی حکومت ہے‘ وہ صوبائی ہو یا وفاقی۔ یہاں تو سب بے حسی کے مائونٹ ایورسٹ پر چڑھے ہوئے ہیں۔ کُل کارِ سیاست پاناما لیکس‘ دھرنے‘ کھوکھلے نعرے اور وعدے ہیں۔ وزیر اعظم کو 16دسمبر کو اس تقریب میں موجود ہونا چاہیے تھا، جہاں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ شہداء کے والدین کی غمگساری کے لیے موجود تھے۔ جہاں انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی طرح انہوں نے بھی اپنے دفتر میں اِن شہید بچوں کی تصویریں لگا رکھی ہیں تاکہ وہ ان کے لہو کا قرض چکانے سے غافل نہ ہو سکیں۔
ہماری گزارش ہے کہ ان معصوم شہیدوں کی تصویریں وزیر اعظم‘ عمران خان اور تمام اہم سیاست دانوں کے دفتروں میں بھی آویزاں کریں‘ شاید اس طرح انہیں یہ قرض چکانا یاد رہے۔ وگرنہ ان شہید بچوں کے والدین تو لمحہ لمحہ اپنے بچوں کی یاد سے جڑے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کی غم گساری کے لیے ایک فورم بنا رکھا ہے جہاں وہ ہر مہینے کی 16کو اپنے بچوں کا غم مٹانے کے لیے ملتے ہیں۔ اس فورم پر شہید ہونے والے بچوں کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا جاتا ہے اور جنت میں چلے جانے والے بچوں کے لیے غم زدہ لواحقین ہیپی برتھ ڈے کا گیت بھی گاتے ہیں۔ انجیلا ملّر ٹھیک ہی تو کہتی ہیں ‘ یہ وہ تکلیف ہے جس کا کوئی ازالہ نہیں۔ وہ زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں۔ یہ غم زندہ رہتا ہے کیونکہ محبت زندہ رہتی ہے!
دو ہزار چودہ کا 16دسمبر ان گھروں کی دہلیزوں پر آج بھی بین ڈالتا ہے جن کے شہزادے مکتب سے واپس نہیں آئے۔ 
سورج سرِ مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے
(اسلم کولسری) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں