"TSC" (space) message & send to 7575

ہو ہو ہا ہا

عجب نظارہ تھا ’’ریاست ہائے متحدہ کوہ قاف‘‘ سے شاہِ جنات حاضر خدمت تھا۔ شاہِ جنات کو آئین کی شقوں باسٹھ اور ترسٹھ پر پوری اترنے والی شخصیات نے چراغ رگڑ کر آن لائن حاضر کر رکھا تھا۔ ابھی جن پوری طرح سے… ہُوہُوہاہا …کرتے ہوئے اپنا تکیہ کلام… کیا حُکم ہے میرے آقا … بھی ادا نہیںکر پایا تھا کہ سول و ملٹری فرمائشی پروگرام شروع ہو گیا۔ اس روز مجھے پتہ چلا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ریاستی، حکومتی اور سیاسی معاملات میں صرف امریکہ ہی نہیںکوہ ِقاف بھی خاصا اثر انداز ہوتا ہے۔ آن لائن شاہِ جنات کو سب سے پہلی ٹیلی فون کال چودھری شجاعت حسین کی طرف سے موصول ہوئی… ہیلو! اوئے میں نے کہا ہیلو …جن بھائی جان، پیارے، راج دلارے، اوئے جگر جانی! سب سے پہلے تو میری جان تم الیکشن پر مٹی پائو … میرامطلب ہے کہ اب اگر کیانی صاحب نے آئی ایس پی آر کے جنرل باجوہ صاحب سے یہ پیغام دلوا ہی دیا ہے کہ فوج بروقت الیکشن کرانے کے حق میں ہے تو جن بھائی جان الیکشن کی تیاری ویاری تو کر لینے دو … اوئے میری جان … اوئے چودھری شاہ ِ جنات …مم … میرا مطلب ہے شاہ ِجنات صاحب ہم الیکشن سے ڈرتے ورتے نہیںہیں، ہم انیس سو پچاسی سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور خیر سے جیت بھی رہے ہیں۔ بس تم سے اتنی فیور(Favour)چاہتے ہیں کہ الیکشن کو صرف اتنے دن آگے پیچھے کر دو کہ جتنے دنوں میں میٹرو بس پر چڑھنے کے لیے لگائی گئی بجلی کی سیڑھیاںخراب ہو کر سکریپ نہیں بن جاتیں …اوئے جن بھائی جان …تمہارے لیے یہ کون سا مشکل کام ہے، تمہارا آدھا کام تو آنے والے دنوں میں لوڈشیڈنگ نے پورا کر دینا ہے، نہ بجلی آئے گی نہ سیڑھیاں چلیں گی، نہ مسافر میٹرو بس میں سوار ہوں گے اور نہ خادمِ اعلیٰ کی مشہوری ہو سکے گی… اوئے میری جان …گرمی کے دنوں میں لوہے کے بنے سٹیشنوں نے تپ کر تندور بن جانا ہے۔ لوہا تو گرم ہونا ہی ہے ،تم نے اس پر صرف چوٹ ہی لگانی ہے …گجومتہ سے شاہدرہ تک جنگلا بچھا ہوا ہے تمہیںکوئی روک ٹوک بھی نہیں ہونی …میٹرو کے مسافروں کے دلوں میں نان سٹاپ ریپڈ ٹرانزٹ نفرت اجاگر کرتے جانا …ہُوہُو … ہاہا… اس سے پہلے کہ شاہ ِجنّات اپنا تکیہ کلام دہراتا …چودھری صاحب نے اپنی آئندہ ’’سیاسی حکمتِ عملی‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے …ہُوہُوہاہا… مچا دی… شاہِ جنّات چند لمحوں کے لیے تو پریشان ہو گیا کہ …ہُوہُوہاہا… اگر چودھری صاحب کا تکیہ کلام ہے تو وہ اپنے جادو کا اثر دکھانے کے لیے آئندہ کیا… مٹی پائو… جنتر منتر پڑھا کرے گا ؟ شاہِ جنات سیاسی احترام اور کوہ قافی سفارتی آداب بجا لاتے ہوئے… ہُوہُوہاہا… کے بغیر مخاطب ہوا … میرے آقا …پیارے چودھری صاحب اگر خادمِ اعلیٰ مفت بروں پر پابندی نہ لگاتے تو میٹرو بس بھی اب تک سستی روٹی اور پیلی ٹیکسی سکیم ہو چکی ہوتی… وہ تو دس اورگیارہ بجے والے اینکر پرسنوں نے ایویں مشورے دے کر خادمِ اعلیٰ سے میٹرو بس پر ٹکٹ لگوا دی۔ میرا خیال ہے اب ہمیں مٹی پائو آپریشن کے لیے کم از کم چھ ماہ تک انتظار کرنا ہو گا… جن نے چودھری صاحب کو کامل علی آغا کی طرح سیاسی مشورہ دے ڈالا… شاوا بھئی شاوا… تم جن ہو کر ہمیںاس قسم کی سیاسی تدبیریں بتا رہے ہو… اتنی احتیاط تو ہمیں کبھی مشاہد حسین نے بھی تجویز نہیں کی … اوئے تم جن ہو یا جنرل سیکرٹری؟ چودھری صاحب نے شاہ ِجنات کو اچھا خاصا شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔ چودھری صاحب کے بعد شاہِ جنات کو اگلی کال خادم اعلیٰ کی موصول ہوئی… ہیلو شاہِ جنات میں بول رہا ہوں! خادم اعلیٰ پنجاب… سنائو بھابی کیسی ہیں؟ بال بچے ساتھ لائے ہو یا اس بار بھی اکیلے ہی آدھمکے ہو؟ اس سے قبل کہ شاہِ جنات اپنی خیریت سے متعلق کچھ عرض کرتا خادم اعلیٰ دوبارہ بولے: شاہِ جنات اب تمہیں لاہور میں اپنی وی وی آئی پی موومنٹس کے لیے ٹرانسپورٹ کی کوئی تکلیف نہیںہو گی۔ گجومتہ سے نان سٹاپ شاہدرہ تک سفر کرو اور میری جان ٹکٹ صرف بیس روپے… تم ایمانداری سے بتائوکیا یہ سہولت جنوں، بھوتوں، چڑیلوں اور پریوں سمیت کوہِ قاف کے دیگر رہائشیوں کو حاصل ہے؟شاہِ جنات اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر میٹرو بس کی تشہیری مہم دیکھ چکا تھا۔ وہ لاہور کی دھرتی پر تھا اس لیے اس نے جان کی امان پاتے ہوئے جُھک کر جواب دیا… میرے آقا… میٹرو بس جیسا اُڑن کھٹولہ تو پورے کوہ قاف میں نہیں ہے… بلکہ میں تو آپ کو یہ’’ فیڈ بیک ‘‘بھی دینا چاہ رہا تھا کہ آئندہ الیکشن میں کوہ قاف کو بھی اپنا حلقہ ہی سمجھیں۔ میرے آقا آپ کے لیپ ٹاپوں پر ہمارے بچو ں کا بھی حق ہے، یقین جانیں ہمارے جن بچوں کے ’’سم کارڈز‘‘ میں ینگ ڈاکٹرز کی طرح ہڑتالوں اور دھرنوں کی آپشن بھی نہیں ہے …خادمِ اعلیٰ کو شاہِ جنّات سے سینیٹر پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ کی باتوں کی مہک آنا شروع ہو گئی۔ خادم سمجھ رہے تھے شاہِ جنات بھی پیپلز پارٹی کے بھگوڑوں سمیع اللہ خان اور عظمیٰ بخاری کی طرح ان کی متحرک قیادت پر ایمان لے آئے ہیں۔ شاہ ِجنات نے خادم اعلیٰ کے تاثرات دیکھے تو مزید ’’کالم نگاری‘‘ یوں فرمائی: جناب عالی! کوہ قاف کو بھی لاہور سمجھتے ہوئے وہاں بھی دانش سکول، سستی روٹی سکیم، پیلی ٹیکسی اور میٹرو بس چلائیں آخر ہمارے ساتھ سوتیلے خادم اعلیٰ جیسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ خادمِ اعلیٰ جو کہ دردِ دل رکھنے والے وزیر اعلیٰ ہیں‘ انہیںشاہِ جنات کی نوحہ گری پر ترس سا آ گیا … فرمایا: سنو! عام انتخابات میں تھوڑا وقت ہی رہ گیا ہے۔ اگر اب ہم کوہ قاف میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھائیںگے تو فخرو بھائی اور الیکشن کمیشن اعتراض کرے گا، عمران خان بھی ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی بُو سونگھتا رہتا ہے۔ اسے پتہ چل گیا تو خواہ مخوا ٹاک شوز کی ریٹنگ بڑھاتا پھرے گا۔ خادم اعلیٰ کچھ دیر تک اپنے طور پر سیاسی جمع خرچ کرنے کے بعد گویا ہوئے: شاہ ِجنّات …ہم وعدے کے پکّے لوگ ہیں میثاق جمہوریت میں بھی ہم پورا اُتر رہے تھے۔ فریق دوئم میرا مطلب ہے زرداری صاحب نے پاسداری نہیںکی، مجھے تم سے اُمید ہے کہ تم زرداری صاحب کی طرح ہمیں دھوکا نہیںدو گے؟ اگر دھوکا دیا تو پھر تمہیں میرا پتہ ہے کہ میںکوہ قاف کے بچے، بچے، جنوں، بھوتوں، چڑیلوں اور دوسری مخلوقات کو حبیب جالب کی شہرۂ آفاق نظم ازبر کرا دوں گا… اور کوہ قاف کے لیے اس نظم کا 2013ء ورژن یوں ہو گا۔ ایسے کوہ قاف کو، شاہِ جنّات کو …میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا … اس سے قبل کہ شاہِ جنات اپنی وفاداری کا یقین دلاتے خادم اعلیٰ جذباتی انداز میں وارننگ دیتے ہوئے منظر سے غائب ہو گئے۔ شاہِ جنات حیران تھا کہ یُوں اچانک غائب ہو جانا تو ان کی آپشن ہے مگر انسانوں کی نگری میں سیاسی رہنما وہ تمام سہولیات انجوائے کر رہے ہیں جو اس سے قبل صرف جنات اور دیگر ایسی مخلوقات کے لیے مختص سمجھی جاتی تھیں۔ شاہ ِجنات آن لائن تھے مگر تھوڑی دیر کے لئے کمرشل بریک ہوئی تھی۔ اس عرصہ میںشاہ ِجنات نے اپنے پرسنل سیکرٹری سے دریافت کیا کہ چودھری شجاعت اور خادم ِاعلیٰ سے کی گئی گفتگو کے سارے منٹس لیتے رہے ہو؟ اس پر سیکرٹری‘ جو ایک بھُوتنا تھا‘نے پھبتی کہی کہ … میرے آقا … بھوتنا شاہ جنات کا سیکرٹری ہے کوئی صدارتی ترجمان نہیں …بھوتنے نے سمارٹ بنتے ہوئے یاد کرایا کہ اس کی تربیت کسی ایسے ویسے ٹریننگ سنٹر سے نہیںہوئی تھی اس کے لیے اسے کراچی بھیجا گیا تھا۔ شاہ ِجنات نے بھوتنے کو ڈانٹتے ہوئے چپ کرایا اور دریافت کیا کہ اب لائن پرکون ہو گا؟ بھوتنے کے ایک کلک سے شاہِ جنات کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ اب اسے نواز شریف، عمران خان، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، مولانا فضل الرحمٰن، شیخ رشید اور آصف زرداری کا سامنا کرنا تھا…شاہِ جنّات کوہ قافی قہوے کا گھونٹ نگلتے ہوئے کمرشل بریک ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ (جاری ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں