"TSC" (space) message & send to 7575

ہُوہُوہاہا…(2)

چودھری شجاعت حسین اور خادم اعلیٰ سے شاہِ جنّات کی ’’ہارڈ ٹاک‘‘ ہوئی تھی اور اب اُسے میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، عمران خان، اسفند یار ولی خان، شیخ رشید، فخرو بھائی اور صدر آصف زرداری سمیت سابق جرنیلوں کا سامنا بھی کرنا تھا۔ شاہِ جنّات کا امتحان ابھی ختم نہیںہوا تھا بلکہ اُس کی کیفیت منیر نیازی جیسی تھیں کہ ؎ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا کمرشل بریک ختم ہوئی ہی تھی کہ میاں محمد نواز شریف کی کال آ گئی۔ میاں صاحب نے بڑی اپنائیت سے خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا: ’شاہِ جنّات! کیسے ہو؟ پچھلے کئی دنوں سے میں تمہیں تلاش کر رہا تھا، مجھ سے تمہارا موبائل نمبر گم ہو گیا تھا۔ کئی بار پرویز رشید سے کہا کہ شاہِ جنّات سے بات کرائو، دراصل میں مولانا فضل الرحمٰن اور پیر صاحب پگاڑا سے ’’سُٹ پنجہ‘‘ (ہاتھ ملانے) سے پہلے تم سے مشورہ کرنا چاہ رہا تھا‘۔ شاہِ جنّات نے میاں صاحب کا مُوڈ خوشگوار دیکھا تو وہ بھی لاڈلا سا بن گیا۔ کہنے لگا: ’میاں صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں کوہِ قاف کے ٹیلی فون ایکسچینج سے میر انمبر آسانی سے مل سکتا تھا، آپ مجھے ای میل کر سکتے تھے، میں تو اب فیس بُک پر بھی دستیاب ہوتا ہوں… ویسے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ جیسے وی آئی پی کرم فرمائوں کے لئے ٹویٹر پر اکائونٹ بنائوں… میاں صاحب! فیس بُک پر توآج کل ہر ایرا غیرا لیڈر بنا ہوا ہے‘۔ میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا: شاہِ جنّات میں تمہارے سارے اشارے سمجھتا ہوں، ان ایروں غیروں کو فیس بُک پر لگے رہنے دو، الیکشن فیس بُک پر نہیں ہونے اس کے لیے شہر شہر،گائوں گائوں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا پڑتا ہے، سستی روٹی سکیمیں، آشیانہ ہائوسنگ سوسائٹیاں، لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسیاں اور میٹرو بسیں چلانا پڑتی ہیں، الیکشن کا میدان لگنے والاہے ان آئی ٹی رہنمائوں اور الیکٹرانک مادھوئوں کو لگ پتہ جائے گا‘۔ شاہِ جنّات‘ میاں صاحب کے ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ سیاسی حریفوں کے لیے مٹی کے مادھو کے وزن پر الیکٹرانک مادھووں کی اصطلاح استعمال کرنے پر متاثر ہوا۔ شاہِ جنّات نے میاں صاحب کی زبان دانی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: واہ سبحان اللہ… میاں صاحب آج کل ایسے سیاستدان کہاں ہوتے ہیں جنہیں زبان و بیان پر اس قدر عبور حاصل ہو… میاں صاحب نے ایک صاحبِ طرز شاعر اور ادیب کی طرح اشارے سے ہی آداب عرض کیا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: شاہِ جنّات! ایمانداری سے بتائو تمہارے تو اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطے ہیں، پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں ریاست اور سیاست کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف شہباز شریف کو دیکھو اس نے لاہور… مم مم… میرا مطلب ہے پنجاب کو سوئٹزرلینڈ بنا دیا ہے… شاہِ جنّات نے سینے پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہوئے کہا: میاں صاحب مجھے قسم ہے سامری جادوگر کی‘ میں اسٹیبلشمنٹ کا نہیں بلکہ جمہوری جن ہوں۔ میاں صاحب نے شاہِ جنّات کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا: میںسمجھتا ہوں کہ تمہیں اپنے عہدے کے تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے، ذاتی طور پر میں تمہارے راولپنڈی کے پھیروں کا بُرا نہیں مناتا… بس ذرا لال حویلی سے پرہیز کیا کرو… ایویں خواہ مخوا ان چکروں میں نہ پڑا کرو۔ شاہِ جنّات نے میاں صاحب کا مُوڈ دیکھا تو عرض کیا: حنیف عباسی اور شکیل اعوان کی غلط رپورٹنگ پر کان نہ دھرا کریں۔ ان کے انویسٹی گیشن سیل کی خبریں درست نہیں ہوتیں۔ میاں صاحب نے سُنی ان سُنی کرتے ہوئے کہا کہ یار اِدھر اُدھرکو چھوڑو اورکام کی بات بتائو، مولانا فضل الرحمٰن کے دل میںکیا ہے؟ شاہِ جنّات کی توجیسے ہَوا نکل گئی تھی، کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا: ’میاں صاحب کیوں میرا امتحان لے رہے ہیں، مولانا کے دل کی بات بتانا مجھ ہیچمندان کے لئے ممکن نہیں، یہ تو وہ پہلودار لوگ ہیں جن کے سامنے حضرت سلطان باہوؒ کا یہ فارمولا بھی ناکافی ہے کہ… دل دریا سمندروں ڈونگھے کون مولانا دیاں جانے ہو‘ میرے خیال میں ای سی جی ہو یا سی ٹی سکین… مولانا کے دل میںکیا ہے یہ کسی رپورٹ میں واضح نہیں ہو سکتا… شاہِ جنّات معذرت خواہانہ لہجے میں بات کر رہا تھا کہ میاں صاحب ٹیلی فون پرویز رشید کو تھما کر دوسری اہم کال سننے میں مصروف ہو گئے۔ ایک اور کمرشل بریک کے بعد لائن پر مولانا فضل الرحمٰن شاہِ جنات سے مخاطب تھے۔ شاہِ جنات حواس خمسہ کے ساتھ ساتھ اپنی تمام جادوئی طاقتوں کے ساتھ حاضر تھا۔ مولانا اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ شاہِ جنات سے ہم کلام ہوئے: خوش آمدیدشاہِ جنات۔ شاہِ جنات احتراماً ( ہُوہُوہاہا نہ کیا اور) جُھک کر فرشی سلام بجا لایا… مولانا نے خوش ہوتے ہوئے دعا دی: جیتے رہوشاہ ِجنات۔ ’کیا حکم ہے میرے آقا‘ شاہ ِجنات نے عادتاًَ اپنا تکیہ کلام دہرا دیا۔ مولانا نے کہا: میں نے تمہیں کیا حکم دینا ہے، کوہ قاف میںکبھی کوئی پرابلم ہوئی تو مجھے بتانا، تمہارے ہیڈکوارٹر سے میرے بڑے اچھے رابطے ہیں۔ مولانا نے ساتھ ہی کہا: اچھا یہ بتائو کوہ قاف میں سی این جی اور ڈیزل کا لائسنس کس کے نام ہے۔ اس سے قبل کہ شاہِ جنات رپورٹ پیش کرتے فرمایا: ای میل کر دینا پھر تفصیل سے بات کریں گے۔ مولانا کے بعد لائن پر اسفند یار ولی خان تھے۔ خان صاحب نے آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سیدھا سوال کیا کہ شاہِ جنات کیا تم طالبان سے ہماری جان چھڑا سکتے ہو؟…سوری رانگ نمبر… اس کے لیے آپ کو میاں نواز شریف کے ساتھ رابطہ کرنا ہو گا…شاہِ جنات نے بھی مختصر جواب دیا۔ اب شیخ رشید لائن پرتھے۔ شاہِ جنات نے اپنائیت کے ساتھ کہا: بھائی جان کیا حال ہے؟ شیخ صاحب نے ناراضی سے کہا: شاہ ِجنات! بھائی جان تو تم مجھے ایسے کہہ رہے ہو جیسے تم میرے فرسٹ کزن ہو۔ لوگ اتنے بھولے نہیں کہ جنہیں تم بے وقوف بنا لو گے… اور کان کھول کے سنو یہ جو تم نواز شریف اور خادم اعلیٰ سے وعدے کر رہے ہو کہ کوہ قاف میں نون لیگ کی تشہیری مہم چلائو گے کیا تمیں یہ زیب دیتا ہے؟ تمہیںاپنے آئینی اور جنّاتی کردار اور مقام کو پہچاننا چاہیے۔ تمہارے عہدے کا تقاضا ہے کہ تم غیرجانبدار رہا کرو۔ شیخ صاحب نے دھمکاتے ہوئے کہا‘ شاہ ِجنات! اپنے جن ہونے کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا کرو اورحویلی کا چکر لگا لینا تم سے ایک ضروری کام بھی ہے۔ ’’شا ہِ جنات آن لائن‘‘ کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ شاہِ جنات نے اپنے سیکرٹری بھُوتنے سے کہا کہ اچھا نہیں لگتا کہ فخرو بھائی سے بات کئے بغیر کوہ قاف واپس چلے جائیں۔ ذرا فخرو بھائی سے بات تو کرائو۔ بھوتنے نے نمبر لگایا اور فخرو بھائی سے بات کرا دی۔ شاہ ِجنات نے ’ہُوہُوہاہا‘ مچائے بغیر بڑے ادب سے کہا: کیا حکم ہے فخرو بھائی۔ فخرو بھائی نے صرف ایک ہی حکم صادر فرمایا کہ پورے ملک میں خصوصاً کراچی میں صاف شفاف الیکشن کرانے میں مدد کرو۔ شاہِ جنات کی تو جیسی سِٹّی گم ہو گئی تھی۔ شرمندگی کے مارے اِدھر اُدھر کی ہانکتے ہوئے بولا: فخرو بھائی میں الیکشن کمیشن حاضر ہوں گا بیٹھ کر بات کریںگی۔ اس کے بعد سابق جرنیلوں سے ’’ان کیمرہ ‘‘ بات چیت ہوئی۔ ذرائع نے بیان کیا ہے کہ اس سیشن میں شاہِ جنات کی کارکردگی پر سنجیدہ سوال اٹھائے گئے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق شاہِ جنات سے کہا گیا کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کریں ورنہ ان کا تبادلہ شمالی وزیر ستان کیا جا سکتا ہے۔ عسکری شخصیات کے بعد فوراً کپتان خان سے کال ملائی گئی۔ کپتان نے شاہِ جنات سے دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر الیکشن سے پہلے کوہ قاف میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تو وہ میاں برادران اور جناتی برادری کے خلاف سونامی مارچ کریں گے۔ شاہِ جنات نے خان کے تیور دیکھے تو فوراً سرنڈر کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کی طرح جنات کے دروازے بھی ہر کسی کے لیے کھلے رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ ہماری کسی ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی ہے۔ خان نے دوبارہ خبر دار کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔ سب سے آخر میں شاہِ جنات کو لندن سے لانگ ڈسٹنس کال موصول ہوئی بس پھر کیا تھا وہی ہوا جس کے لیے فرمایا گیا ہے کہ ؎ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا شاہ ِجنات اپنا جناتی قہقہہ ’’ہُوہُوہاہا‘‘ بھول کر سر جُھکائے صرف جی جی ہاںہاں کرتا رہا… نجانے کب تک! (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں