وطنِ عزیز میں یوں تو کئی ریکارڈز بنائے جارہے ہیںلیکن دو عدد ریکارڈز کی بڑی ’’دھوم ‘‘ ہے۔پہلے ریکارڈ کی تفصیل یوں تو لمبی چوڑی ہے لیکن اس کا ٹریلر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے پنج سالہ دور میںپندرہ ہزار ارب روپے کے ریکارڈ قرضے لیے۔دوسرار یکارڈ اداکارہ ویناملک نے قائم کیاہے ۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی اس اداکارہ کو بھارت میں ہماری کس ’’ایجنسی ‘‘ نے بھیجا ہے یہ تومعلوم نہیںہوسکالیکن اطلاعات ہیںکہ وینا ملک ’’زرِمبادلہ‘‘ کے ذاتی ذخائر میںخاطر خواہ اضافہ کرنے میںمشغول رہتی ہے۔ وینا ملک نے بھارت جانے سے پہلے مقامی سطح پر بھی اچھے خاصے ریکارڈز قائم کیے تھے ۔ اُس کے ہاتھوں ہارنے والے بعض ’’مفتوحین‘‘ جن کا تعلق کراچی ، لاہور ،بورے والہ سمیت دوسرے شہروں سے ہے ،ان میںچند میرے قریبی دوست بھی ہیں ،جن کا ’’ذکرِ بربادی‘‘ بعد میں ہوگا۔ اداکارہ کا تازہ ترین معرکہ یہ ہے کہ اپنی ستائیسویں سالگرہ ( نادرا کے ڈیجیٹل شناختی کارڈ کے مطابق) کے موقع پر اس نے اپنے ہاتھ پر ایک منٹ میںایک سو پینتیس بوسے دے کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اداکارہ کا خیال ہے کہ ان کی اس ’’حرکت‘‘ کو گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کے منتظمین ایک ریکارڈ جانتے ہوئے اس میںدرج کریں۔کیاایسی حرکات کو گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میںدرج کیاجانا چاہیے؟عین ممکن ہے کہ وینا ملک کی اس حرکت کو مذکورہ بک کی زینت بنا لیاجائے ۔سوال یہ ہے کہ وینا ملک کو یہ ’’ اعزاز‘‘ ملنے پر کیافائدہ ہوگا؟اگر گینز بک کی انتظامیہ نے اس کی اس حرکت کو ریکارڈ جانا تو عین ممکن ہے کہ بعض بھولے بھالے کہنہ مشق حیرت سے یہ کہیںکہ ،کیایہ ریکارڈ ہوتاہے؟ قارئین کرام ! وینا ملک کا تعلق راولپنڈی کے علاقہ ٹینچ بھاٹا سے ہے۔ میں اس ریکارڈ ہولڈر کو تب سے جانتا ہوں جب یہ راولپنڈی سے لاہور آئی تھی۔ لگ بھگ تیرہ سال قبل وینا ملک لاہور میںہونے والی ایک ’’میٹ دی پریس‘‘ تقریب میں پہلی بار میڈیا کے روبرو ہوئی تھی۔اس وقت نیوز الیکٹرانک میڈیا نہیںتھا اس لیے ایک دوقومی اخبارات اورہفت روزوں سے وابستہ صحافی ’’کنگ میکر ز ‘‘ کے طور پر مشہور ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب میںبطور کلچرل رپورٹرایک بڑے قومی اخبار سے وابستہ تھا۔شوبز کے حلقوں اورخاص طور پر نئے آنے والے فنکار مجھے بھی ایک ’’کیری پیکر‘‘ کے طور پر جانتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ میںاپنا کام جوش وجذبے اورایک نئے انداز سے کررہاتھا۔مجھ سے قبل جو فلمی صحافت رائج تھی اس کے بڑے ،بڑے ’’چودھری‘‘ صرف زنانہ صحافت کے ماہر تھے۔مراد یہ ہے کہ وہ نوآموز اداکارائوں کی تشہیر تو کیاکرتے تھے لیکن مردوںکے لیے ان کا ضابطۂ صحافت یہ تھاکہ ’’جان جائے پر خبر نہ لگے‘‘۔میری باتوں کو اگر اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہ سمجھاجائے تو عرض کرتاہوں کہ میں صرف زنانہ ٹیلر ماسٹر نہیںتھا۔ایک طرف میں نے اداکارہ نرگس ٗ اداکارہ نور اورمیرا کو لائم لائٹ میںلانے کے لیے اپنا قلمی چمتکار دکھایاتھا، تو دوسری طرف اداکار شان، معمررانا، نبیل، نیر اعجاز ، کاشف محمود، گلوکار جواد احمد،ببوبرال اورسہیل احمدکی فنی صلاحیتوں کو سامنے لانے میںبھی مدد گار ثابت ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی اورفنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف سے وابستہ عظیم ہستیوں استاد سلامت علی خاں، استاد فتح علی خاں، ماسٹر عبداللہ ، ماسٹر عنایت حسین، استادنذر حسین، طفیل نیازی مرحوم، ماسٹر منظور، استاد بدرالزماں ، استاد قمر الزماں اور استاد حسین بخش گلو سمیت بڑے فنکاروں کو بھی شوبز کے روزانہ صفحات کا حصہ بنایا۔بات تو ویناملک کی شوبز میںآمد کی ہورہی تھی لیکن میں اپنے ’’ناسٹل جا‘‘ ( خوشگوار یادوں ) میں کھوگیا۔یہ باتیں بھی وینا ملک کی کہانی سے ہی متعلق ہیں۔ اس سے وینا ملک کی ذاتی شخصیت سمجھنے میںمدد ملے گی ۔ ویناملک کولاہور لانے کاسہرا معروف ایڈورٹائزر اور پروڈیوسر آفتاب اکبرکے سر ہے۔ ان کے ادارہ کے زیر اہتمام تیار کی جانے والی ڈرامہ سیریل ’’جمشید ڈی پی‘‘ کے میٹ دی پریس شو میںویناملک کو لاہور کے میڈیا کے روبروہونے کاموقع میسر آیا تھا۔ مجھے یادہے مذکورہ ڈرامہ سیریل کا یہ ’میٹ دی پریس ‘ گلبرگ میںواقع ایک ریستوران میںہواتھا۔ڈرامہ کی مرکزی کاسٹ میں کاشف محمود اورمحموداسلم نمایاں تھے۔ویناملک کو اس کھیل میںنئے چہرے کے طور پر متعارف کرایاگیاتھا۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ شوبز سے وابستہ جگت باز صحافیوں کو ویناملک کے لیے ’’نئے چہرے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر اعتراض تھا ۔صحافیوں کاکہناتھاکہ آفتاب اکبر اپنے مخمل کے ڈرامے کو ٹاٹ کا پیوند کیوں لگارہے ہیں؟بہر حال یہ ڈرامہ نمائش پذیر ہوا اوراس کا نتیجہ کچھ ایسا نکلاجیسا دہشت گردی کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس کا برآمد ہواہے۔ویناملک لاہور آئی تو راولپنڈی سے اس شہر میںترقی کرنے کے جملہ گُر سیکھ کر آئی تھی۔لاہور آکر اس نے منزل تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے ’’کنگ میکرز‘‘ سے رابطہ کرناچاہا۔واجبی شکل وصورت اور مالی مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے درجہ اول کے کسی کنگ میکر نے اسے’’ غیر ترقیاتی پراجیکٹ ‘‘سمجھ کر جب لفٹ نہ کرائی توپھر اس ذہین نے ایک درجہ سوم کنگ میکر سے رابطہ کیا۔جواسے ڈریس ڈیزائنر بی جی کے پاس ان کے گلبرگ والے بوتیک پر لے گیا۔بی جی کا بوتیک ان دنوں لاہور میںنئے اور پرانے فلمی چہروں اورصحافیوںکا جنکشن ہوا کرتاتھا۔ہر قابل ذکر فلم ہدایتکار اورفلمساز بی جی کے بوتیک پر حاضری ضروردیا کرتاتھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی تمام سٹارز ہیروئنیں اپنے فلمی اورغیر فلمی ملبوسات بی جی سے ڈیزائن کراتی تھیں۔اداکارہ نیلی ،ریما، نادرہ ،ریشم ،زیبا بختیار سمیت دیگر اداکارائوں کی ارجنٹ ڈیٹس کے لیے فلمساز وں کو بی جی سے سفارش کرانا پڑتی تھی۔فلمی صحافیو ں کے لیے بی جی کے بوتیک کی ا ہمیت کسی فائیوسٹار ہوٹل سے بھی زیادہ یوں ہوجاتی تھی کہ بریک فاسٹ، لنچ اورڈنر کے ساتھ ساتھ صبح وشام فلمی ستاروں سے براہ راست رابطے کا یہ ایک گڑھ بھی تھا۔آغاز میںجب وینا ملک کے پاس لاہور میںکوئی رہائش نہیںتھی تو وہ رات کو بی جی کی بوتیک کے درزی خانے میںہی سوجایاکرتی تھی۔ میں نے وینا کی زندگی کے کئی مرحلے دیکھے ہیں۔ایک وہ زمانہ تھا جب وہ بی جی کے درزی خانے میںسویاکرتی تھی ،پھر وہ زمانہ بھی آیاجب مجھے ایک نیوز چینل کے چیف ایگزیکٹو صاحب نے یہ کہاکہ میںوینا ملک کے لیے ایک نیاشو ڈیزائن کروں ۔اس بار جب میں ویناملک سے ملنے گیاتووہ لاہور کے پوش علاقہ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کی رہائشی بن چکی تھی۔ فروری 2012ء کی وہ طوفانی رات بھی مجھے بھولتی نہیںہے ،جب لاہور میںبارش کے ساتھ تیز ہوائیںچل رہی تھیں۔ میںوینا کے گھر واقع ڈیفنس میں داخل ہوا تومجھے یوں لگا ،جیسے میں بھارتی فلم ’’ڈرٹی پکچر ‘‘ کے سیٹ پر آگیاہوں۔وینا ملک نے کالے رنگ کا نائٹی گائون پہن رکھاتھااور بیڈروم کم ڈرائنگ روم میں اس نے جو انٹری دی تھی، وہ اس ٹرالی کے ساتھ تھی جس پر مشرقی اورمغربی مہنگے مشروبات سجائے گئے تھے۔لوکیشن کی لائٹنگ کچھ اس طرح سے تھی جیسے رام گوپا ل ورما کی کسی سسپنس اورتھرلنگ فلم کی شوٹنگ ہونے والی ہو۔بہر حال میںنے تما م ماحول کو نظر انداز کیا اورلیپ ٹاپ پر اسے ’’ویناہائٹس شو‘‘ کا مرکزی آئیڈیا سنانے میں مشغول ہوگیا۔ وہ بے تکلفی سے صوفے پر نیم دراز مجھے کچھ مشورے بھی دے رہی تھی ۔وہ بار،بار مجھے مسٹر میر کہہ کر مخاطب کررہی تھی جو مجھے کچھ عجیب بھی لگ رہاتھا ۔ رات ڈھل کر صبح کی طرف لپک رہی تھی۔ یکایک وینا صوفے سے اٹھی اورمیرے پہلو میںبیٹھ گئی۔ (جاری )