"TSC" (space) message & send to 7575

کھودا پہاڑ نکلا’’ہیجڑہ‘‘

کھودا پہاڑ نکلاچوہا…یو ں لگتاہے یہ محاورہ ہمارے مقدر کا ’’برانڈنیم ‘‘ بن چکا ہے ۔جس طرح پانچ سال تک جمہوریت کا پہاڑ کھودنے پر عوام کے ہاتھ چوہا بھی نہیںآیا ،بالکل اسی طرح اسلام آباد میںناچنے والی ’’رقاصہ‘‘ بھی کوئی حسینہ نہیںایک ہیجڑہ نکلا۔ ہیجڑو ں کے انڈرورلڈ سے تعلق رکھنے والے خفیہ نیٹ ورک نے مجھے بتایاہے کہ وہ اچھا خاصا سینئر ہیجڑ ہ ہے جس کا نام ہاشم ہے اور وہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان کے مشہورسرکس میںناچنے کے بعد اب’’ سیاسی‘‘ ہوچکاہے۔ بیان کیاگیا ہے کہ ہاشم ایک سیاسی جماعت کے ’’شی میل ونگ ‘‘کا عہدیدار ہے ۔ اس کا عہدہ صدر کا بتایاگیاہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیسری جنس کا اصرار یہ ہے کہ انہیں’’شی میل‘‘ لکھا اورپکارا جائے تو ہاشم کی حیثیت چیئر پرسن کی بھی ہوسکتی ہے۔ پیارے وطن میں سیاست اور ریاست کے معاملات میں کبھی دائیں اوربائیںبازو کی سیاست کا عروج ہوا کرتاتھا۔ریاست کی جارحانہ پالیسیوں کے پیش نظر بایاں بازو تو کاٹ کر کہیںپھینک دیاگیاجبکہ دایاں بازو آج بھی تنومند ہے۔ دائیں بازو والوں کے پاس ریاست کی طرف سے قومی سلامتی اورحب الوطنی کا تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ ہوتاہے ۔اسلام آباد میںہونے والے زنانہ ڈانس کے حوالے سے ایک’’ رائٹ ہینڈ ڈرائیو رِٹ بازسیّاں‘‘ نے تو عجلت میںسپریم کورٹ میں رٹ بھی دائر کردی ہے ۔رٹ میںموقف اختیار کیاگیاہے کہ سیاسی جماعت کے کلچرل ونگ شو میںآئین وقانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ شو میںلاہور سے رقاصائوں کونچا کر پارٹی میںشریک لوگوں کا دل بہلایاگیا۔درخواست گذار کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میںآئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ لاگو کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ قوم کے اس محب وطن ’’رٹ بہادر ‘‘کو علم نہیںکہ ناچنے والی ’’ مخلوق‘‘کا رقص ملاحظہ کرنے پر باسٹھ تریسٹھ کا اطلاق نہیںہوتا۔یعنی ہیجڑوں کا رقص دیکھنے سے سیاسی صحت پر مضر اثرات مرتب نہیںہوتے۔اس سہولت کو یوں بھی بیان کیاجاسکتا ہے کہ ہیجڑوں کا رقص دیکھنے والوں کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ سے استثنیٰ حاصل رہتا ہے۔ وطن عزیز پر مردوں کے ساتھ ساتھ اکاّ دکاّ عورتیں بھی حکومت کے اہم عہدوں پر براجمان رہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو وہ واحد حکمران تھیں جنہوں نے’ رائٹ ہینڈ ڈرائیو ‘ریاستی مشینری کی ٹکسال پر تیار کردہ سیاسی جماعتوں اورقائدین کو دو بار شکست دی تھی ۔اس سے قبل قائد اعظم کی سگی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو اس وقت کی قومی سلامتی کے روح رواں جنرل ایوب خان نے شکست دی تھی۔ جمہوری حکومت کے پانچ سال ختم ہونے پر تجزیہ نگار وں کے جملہ تجزیات میںبیان کیاجارہاہے کہ یوں تو بھارت اورپاکستان اکٹھے آزاد ہوئے تھے لیکن ان 65سالوں میںبھارت میں پندرہ مرتبہ جبکہ ہمارے ہاں صرف آٹھ عام انتخابات ہوسکے۔پاکستان میںپہلی بار1951ء میں الیکشن کرائے گئے جو صرف پنجاب اورصوبہ سرحد( خیبر پختونخوا) میںہوئے تھے جس میںمسلم لیگی حکومتوں نے خوب دھاندلی کی تھی۔1953ء میں سندھ اسمبلی جبکہ 1954ء میں مشرقی پاکستان میں انتخابات کرائے گئے جن میںعوامی لیگ نے مسلم لیگ کا صفایاکردیا۔مشرقی پاکستان میںہونے والے انتخابات کے نتائج دیکھ کر مسلم لیگی حکومت نے مرکز میںعام انتخابات سے گریز کیااوریہیں سے ’ کنٹرولڈ الیکشن اورقومی سلامتی کے ریاستی تصور‘ نے جنم لیا جس نے پاکستان میںنفرت اورمحرومیوں کے بیج بوئے۔جنرل ایوب خان کے بعد آنے والے قومی سلامتی کے ذمہ دار جنرل یحییٰ خان کی سرپرستی میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا۔ جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کے ادوار کے انیس سالوں میںہم بحیثیت قوم جہاد اوردہشت گردی کی جنگوںکا ایندھن بنادئیے گئے۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمارے ملک پر زیادہ عرصہ تک حکومت منتخب نمائندوں کی بجائے ڈکٹیٹروں کی رہی ہے۔ اب اگر مردوں، عورتوں اور ڈکٹیٹروں کو آزما لیاگیاہے تو ہیجڑوں کوآگے لانے کی بات بھی کی جاسکتی ہے۔ ویسے ان پانچ سالوں میںجمہوری حکومت سے بھی کچھ نہیںہوسکا ،اس مناسبت سے اس حکومت کو کیانام دیا جائے …مردانہ یا زنانہ؟ وطنِ عزیز میںجمہوریت کو ہیجڑہ بنانے کی کہانی بڑی طویل ہے۔ فیلڈمارشل ایوب خان،جنرل یحییٰ خان اورپھر جنرل محمد ضیاء الحق کی پے در پے آمرانہ حکومتوں میںجمہوریت کو ہیجڑہ بنانے کے لیے ہرقسم کے چھوٹے بڑے آپریشن کیے گئے۔سب سے بڑی سرجریاں ضیاء الحق کے دور میںہوئیں ۔ملک میںہرجگہ پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے چھوٹے بڑے جنّات پیدا کیے گئے اورکراچی کوتو لسانیت کا ’’کوہ قاف ‘‘ بنادیاگیا۔ یوں تو ہمیںایک سے بڑھ کرایک محب ِوطن میسر آتا رہا لیکن سر پر گلاس رکھنے والے کمانڈو نے تو کراچی کو وار زون بنا دیا۔کمانڈو صاحب خود تو گارڈ آف آنروصول کرکے ملک سے تشریف لے گئے لیکن ان کی اوران کے پیش روئوں کی بوئی ہوئی فصل قوم کو کاٹنا پڑرہی ہے۔ کمانڈو اینڈ کمپنی کی بوئی ہوئی فصل کو پیپلز پارٹی نے تنہا کاٹا ہے حالانکہ پانچ سال تک حکومتی ’’تناول ماحضر ‘‘ نوش فرمانے میںنون لیگ، ایم کیوایم ، قاف لیگ،عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علمائے اسلام (ف) اورآزاد امیدوار شامل رہے ہیں۔نبیل گبول نے پیپلز پارٹی چھوڑکر ایم کیوایم جوائن کرلی ہے۔ اس موقعہ پر انہوں نے کہاکہ یہ پیپلز پارٹی بی بی شہید کی پارٹی نہیںہے۔کبھی پیپلز پارٹی بی بی کی بھی نہیںتھی،یہ اس ملک کے غریبوں کی پارٹی تھی جس کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ اس ملک کے غریب عوام نے دومرتبہ بھٹو کو ووٹ دے کر منتخب کیا۔اس کے بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔بھٹو کو اس ملک کے جرنیلوں اورججوں نے پھانسی دی تھی۔بھٹو کے بعد اس ملک کے غریب عوام نے بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو دومرتبہ وزیر اعظم منتخب کیااور پھر اسے بھی سرعام قتل کردیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری نے سنبھالی۔زرداری صاحب افہام وتفہیم کی سیاست کے جادوگر مانے جاتے ہیںجنہوں نے وہ کمال کردکھایاہے جو اس ملک میں وہ لیڈر بھی نہیںکرسکے جن کی صندوکڑیوںمیں سے دوتہائی اکثریت برآمد ہوئی تھی۔خود ان کی جماعت کی لیڈر بی بی بے نظیر بھٹو کی دوحکومتیں ہاتھ کی صفائی سے چھومنتر کر دی گئیں۔آصف زرداری نے سیاسی پتے بازی کا ایسا کھیل کھیلا ہے کہ بڑے بڑے ’’شارپر ‘‘ اپنے پتے ہاتھوں میںتھامے ہی بیٹھے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آصف زرداری ،ان کے ساتھیوں اوران کی جماعت نے پانچ سال تک حکومت توکرلی لیکن وہ اس عرصہ میںعوام کے لیے کیا کرپائے؟ ہمارے (سابق) وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو جمہوریت کا تحفہ دیا ہے ،اب کوئی آمر اس پر شب خون نہیں مارسکے گا۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی قومی سلامتی کی کسیوں اوربیلچوں سے حب الوطنی کی زمینیں کھودنے کا رواج رہاہے۔پھر ان زمینوں میںقائد اعظم ،لیاقت علی خان ، حسین سہر وردی، ذوالفقار علی بھٹواوربے نظیر بھٹوکو قبروں میں اتاراجاتارہا۔ 1970ء کے بعد بنگالی بھائیوں نے اپنا ملک اور اپنی قبریں ہم سے جدا کرلی تھیںوگرنہ ہم نے مشرقی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر شیخ مجیب الرحمن کوبھی حب الوطنی کے نام پر کھودی کسی قبر میںدفنا نے کا انتظام کررکھاتھا۔پیارے وطن میںایک بار پھر عام انتخابات کا موسم ہے ۔امیدوں اورخواہشات کی ٹہنیوں پر خوشیوں اورخوشحالی کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں ۔ایسے میں بعض گورکن جمہوریت اورانتخابات کی تجہیز وتکفین کے لیے پھر پہاڑ کھودنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ان کا کہناہے کہ ہر الیکشن بوتھ کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے نعرہ بلند کریں گے ’’یہ الیکشن فراڈ ہے ‘‘۔ الیکشن کو فراڈ قرار دینے کا ڈرامہ اب فیل ہوچکاہے ،قوم کو چاہیے کہ ایسے گورکنوں کو ان کی کھودی ہوئی قبروں میںدفنا کر ’’قدیم جادو‘‘ کا اثر توڑ دیںتاکہ اس بار پہاڑ کھودنے پر چوہابرآمد ہونے کی بجائے جمہوریت کے ثمرات میسر آسکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں