"TSC" (space) message & send to 7575

جوتے اور ٹھڈے لائن

شیخ رشید بہت دنوں تک کہتے رہے ہیںکہ ’’2013ء کے انتخابات خونی ہوں گے‘‘۔خدا کرے شیخ رشید کی یہ پیش گوئی بھی جھوٹ ثابت ہو تاکہ سچ اورجھوٹ کے اس ’’کیس‘‘ میں بھی موصوف کی ضمانت ضبط ہو۔شیخ رشید اس بار کس کس حلقے سے ہاریں گے …مم مم …میرامطلب ہے کن حلقوں سے الیکشن لڑرہے ہیں؟اس میں کسی کو دلچسپی نہیں۔شیخ رشید ایک عرصہ تک مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ تمام مسلم لیگوں کواکٹھا کرکے پیپلز پارٹی کو شکست دے سکتے ہیںورنہ آصف زرداری اپنی سیاست کے ذریعے ہم سب کو ’’لے دے جائیں گے‘‘۔آصف زرداری کی افہام وتفہیم کی سیاست کے بارے میںبعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہرقسم اورہر ڈیزائن کاسمجھوتہ کرکے پیپلز پارٹی کو ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ پر بیٹھا دیا۔ پیپلز پارٹی کے ووٹروں کے بارے میں دہائیوں تک یہ مقولہ مشہور رہا ہے کہ اس کا ووٹ کبھی کسی دوسری جماعت کو کاسٹ نہیںہوتا،اس کا ووٹر جب دنیا سے جاتاہے تو اپنی آل اولاد کو وصیت میںیہ کہہ کر رخصت ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیںگے۔پیپلز پارٹی کے حوالے سے اب یہ رومانس بدل چکاہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے جعلی ڈگریوں کے کیس میںریمارکس دیتے ہوئے کہاہے :’’یہ الیکشن ملکی تاریخ کے اہم ترین الیکشن ہیں۔ووٹر سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں۔عدلیہ ،الیکشن کمیشن اورووٹر سب کی یہی خواہش ہے کہ الیکشن مکمل طور پر صاف اورشفاف ہوں‘‘۔ہم زندہ قوم ہیںاورزندہ قومیں اپنے حال اورمستقبل کی سٹیک ہولڈر خود ہوتی ہیں،لیکن ہم چونکہ ذرا وکھری ٹائپ کی زندہ قوم ہیںاسلئے ہمارے ہاں ریاست کے کاروبارزندگی اورمعاملات سیاست میں فرنٹ لائن پارٹنر شپ کارواج ہے ۔یہ پارٹنرشپ دہشت گردی کی عالمی جنگ سے لے کر الیکشن تک منافع بخش ثابت ہوتی ہے۔قومی سیاست میںآغاز سے پائے جانے والے رواج کے مطابق پاکستان میںامریکہ کے سابق سفیر ریان سی کروکرکا بیان قابل غور ہے ۔سات سمندر پار بیٹھے کروکر بلکہ ’’کریکر‘‘ کا بیان پڑھ کرمحسوس کیاجاسکتا ہے کہ امریکہ پاکستان میںہونے والے عام انتخابات میں کس قدر دلچسپی رکھتا ہے۔ کروکر نے واشنگٹن میں’’دنیانیوز ‘‘ کے نمائندے اورہمارے دوست اویس سلیم کو دیے گئے انٹرویو میںپاکستان میںہونے والے عام انتخابات سے متعلق متوقع نتائج کا نقشہ کھینچاہے۔ہمارے خیال میںکروکر نے پاکستان کے الیکشن 2013ء کا ’’پرچہ آئوٹ ‘‘ کردیاہے۔فرماتے ہیں…آئندہ انتخابات میںکامیابی کے آثار مسلم لیگ نون کے حق میںدکھائی دیتے ہیں ۔پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میںاپنی موجود عددی طاقت میںسے تقریباََ چالیس نشستیں کھو سکتی ہے۔تحریک انصاف اورچند دیگر نئی جماعتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ایک موثر آواز بن سکتی ہیں،مگر ان کے حکومت بنانے کے امکانات نہیں۔انتخابات کے بعد زیادہ امکانات اس بات کے ہیںکہ اتحادی حکومت قائم ہو۔کروکر کے مطابق انتخابات کے دوران دہشت گردی کا خطرہ موجود رہے گا۔انہوں نے امریکی حکومت کو مشورہ دیاکہ اسے پاکستان پر کسی بھی طریقے سے اثرانداز ہونے کی کوشش نہیںکرنی چاہیے۔کروکر کے مطابق 2013ء تبدیلیوں کا سال ہے اورانتخابات کے بعدصدر زرداری، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے عہدے چھوڑ دیں گے۔ نئے عہدیداروں کے ساتھ معاملات طے کرنا امریکہ کے لئے مشکل ضرورہوسکتاہے مگر امید ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ پاک امریکہ تعلقات، انسداد دہشت گردی اور ڈرون حملوں کا نیا دور شروع ہوگا۔ مشرف کو پہلی پیشی پر ہی ’’جوتے ‘‘ کی سلامی پیش ہوگئی۔ ہمارے خیال میں یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے کیونکہ جوتا جوتا ہوتاہے ‘ مشرف کو پڑے یا کسی اور کو۔ ویسے ابھی تک ’جوتا مار‘ نے ٹھیک نشانے پر جوتانہیں مارا ماسوائے اُس ماہر نشانہ باز کے جس نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم کے سر پرہاتھ صاف کیے تھے۔ ہمارے کئی لیڈر تاحال اس ’’جوتا باری‘‘ سے محفوظ ہیں ‘ ہمارے خیال میں محفوظ نہیں بلکہ ابھی شائد اُن کی باری نہیں آئی۔کئی لیڈروں کو جوتے تو نہیں پڑے تاہم وہ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ ہیوی بوٹ کے ٹھڈے کھا کر ایک طویل عرصہ تک ’’ٹھڈے لائن ‘‘ لگے رہے۔وقت آگیا ہے کہ ناپسندیدہ شخصیات کی بجائے ناپسندیدہ چیزوں کو بھی جوتے اور ٹھڈے مارے جائیں۔ ہمیں جعلی ڈگری کو بھی ٹھڈا مارنا ہوگا‘ دھاندلی کرنے والوں کو بھی جوتے مارنے ہوں گے‘ نظام لپیٹنے والوں کی بھی چھتر پریڈ کرنی ہوگی‘ جمہوریت کے دشمنوں کا سواگت بھی پشاوری چپل سے کرنا ہوگا‘ ہمیں ملاوٹ‘ اقربا پروری‘ مہنگائی ‘دہشت گردی‘ وڈیرا شاہی اور پروٹوکول کو بھی’’ٹھڈوں کی نوک‘‘ پر رکھنا ہوگا۔جس دن جوتے مارنے کا صحیح استعمال ہماری سمجھ میں آگیا‘ کوئی جوتے کھانے والا نہیں ملے گا۔ مبارک ہو! مولانا فضل الرحمن نے بھی لاہور میں کامیاب جلسہ کرلیا ہے۔مینارِ پاکستان بڑی مبارک جگہ ہے‘ ہرکسی کے لیے بڑے جلسے ارینج کر دیتا ہے‘چھوٹی پارٹیوں والوں کو بھی یہاں جلسے کرنے چاہئیں۔ سنا ہے جلسہ چھوٹا بھی ہو تو مینارِ پاکستان کی برکت سے بڑا ہوجاتاہے۔جلسوں کی سیاست میں ’’جلوسوں‘‘ کی سیاست دفن ہوکر رہ گئی ہے‘ پہلے وقتوں میں سیاستدان بڑے بڑے جلوس نکالا کرتے تھے‘ لیکن خدا بیڑا غرق کرے لانگ مارچوں کا‘ جنہوں نے چھوٹے جلسوں کو ایسے ہڑپ کر لیا ہے جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔فضل الرحمن صاحب اگر چاہیں تو پنجاب کو اپنا ’’گڑھ‘‘ قرار دے سکتے ہیں۔تاہم انہیں مسرت شاہین سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ اگر مسرت شاہین نے بھی مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کر دیا تو شائد وہ مولانا سے زیادہ ہجوم اکٹھاکرلیں کیونکہ شاہی مسجد کے عقب کی آبادی میں اُن کی کافی جان پہچان نکل آئے گی۔میرا اور لیلیٰ بھی الیکشن میں کود پڑی ہیں‘ اگر دونوں الیکشن جیت گئیں تو اسمبلیوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ یقینا ’’فل ہائوس‘‘ کا بورڈ لگانا پڑ جائے گا۔ پتا نہیں ہمارے ہیرو کیوں الیکشن نہیں لڑتے؟ شان ‘ معمر رانا اور سعود کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ کہنا پڑ جائے کہ ’’الیکشن کھیڈ نئیں ہندی مرداں دی‘‘۔الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگری والوں کی فہرست ویب سائٹ پر آویزاں کر دی ہے‘ گویا…اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی… ہم نے تو جی جلا کے سرعام رکھ دیا۔ چودھر ی نثار کا اولیول ابھی تک اُن کے بالوں کی طرح مشکوک ہے‘ ہمارے خیال میں چودھری صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈگری پر اولیول کی بجائے ’’او پازیٹو‘‘ لکھوا کر الیکشن کمیشن کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ انہوں نے جو ڈگری پیش کی تھی وہ تعلیمی نہیں بلکہ خون کے گروپ کی تھی۔فخرو بھائی نے جعلی ڈگری والوں کے سر پر ویب سائٹ کا جوتا مارکر انہیں کھڈے لائن لگا دیا ہے…اب تو کہنا پڑے گا کہ نگران حکومت ہی بہترین انتقام ہے!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں