"TSC" (space) message & send to 7575

اُستاد راحت فتح علی خاں کی زبانی’’ سریلے منشور ‘‘

الیکشن 2013ء کی تشہیری مہم پر نظر ڈالیںتو لگتا ہے کہ نون لیگ اورتحریک انصاف ’’دبنگ ٹو‘‘ ثابت ہوں گی ۔ پیپلز پارٹی اور قاف لیگ بھی اپنے آپ کو ’’اگنی پت ‘‘ اور’’برفی‘‘ہی سمجھ رہی ہیں۔ فلمی سیاسی پنڈتوں کا کہناہے کہ نون لیگ اورتحریک انصاف کی باکس آفس پوزیشن مستحکم جارہی ہے۔ہمارے ہاں ساٹھ ،ستر اوراسی کی دہائی میںنمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں کے بارے میںسٹوڈیو رپورٹ بڑی اہم ہوا کرتی تھی۔تکنیک کار ، اداکار، اداکارا ئیں اوراکسٹراز میں نمائش ہونے والی فلم کے حوالے سے جو گفتگو کی جاتی اسے ’’فلم کی ہوا‘‘ کانام دیاجاتاتھا۔کاروباری ذہن کے مالک فلمساز نمائش سے قبل فنکاروں ، ہنرمندوں اوراکسٹراز کی بڑی بڑی دعوتیں کرتے تاکہ ان کی فلم کی ہوانکل سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ سرکٹ کے چھوٹے بڑے شہروں اورقصبوں میںنمائش کار حضرات، فلمی ادارے سے رابطہ کرتے اور یوں فلم ہاتھوں ہاتھ بک جایاکرتی تھی۔ الیکشن 2013ء کی ہوا نکالنے کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں بالکل اسی طرح جیسے کبھی فلمیں نمائش کے لئے پیش کی جاتی تھیں۔ہماری ہاں تو فلم انڈسٹری کا بے جان لاشہ سرکاری ہسپتال کی کسی گمنام وارڈ میںزیر علاج دکھائی دیتا ہے؛ تاہم بالی وڈ میں فلم کا کاروبار عروج پر جارہاہے۔بالی وڈ کی فلموں کا صرف میوزک ہی کروڑوں میں فروخت ہوتاہے ۔ ان فلموں کے میوزک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میںہمارے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خان کے آئیٹم سونگز بطور خاص شامل کئے جاتے ہیں۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ نون لیگ اورتحریک انصاف کی انتخابی مہم کے ’’انقلابی گیت‘‘ بھی استاد راحت فتح علی خاں کی آواز میں ہی ریکارڈ کئے گئے ہیں۔نون لیگ اورتحریک انصاف کے منشور میںکوئی فرق ہے یا نہیںاس کا جائزہ لینے سے قبل ایک بات کا فیصلہ تو ہوگیاکہ ہماری تقدیر بدلنے کی دعویدار جماعتوں کے انتخابی اور انقلابی گیت گوانے کے لئے دوسری کوئی آپشن نہیںتھی! پاکستان کی میوزک انڈسٹری کے بحران اورثقافتی زمینی حقائق پر نظر ڈالیںتو پتہ چلتا ہے کہ لاہور میں اس وقت بیسیوں گلوکار اپنا اپنا گلا گرم کئے بیٹھے ہیںکہ کوئی آئے اور ان سے کچھ گوائے۔نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں نوجوانوں کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ انہیںروزگار مہیا کرنے کا نعرہ بھی بلند کرتی ہیںمگر حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں نے بے روزگار گویوں سے اپنا انقلابی اورسونامی گیت گوانا بھی مناسب نہیںجانا۔ تبدیلی کی دعویدار دونوں جماعتیں اپنے ا نقلابی منشور کو میوزک کا تڑکا لگوانے کے لئے بالی وڈاسپیشلسٹ استاد راحت فتح علی خان کے ہاں پہنچیں۔نون لیگ کی استھائی ملاحظہ ہوجس میںمیاں نواز شریف کی پرفارمنس بگ بی امیتابھ بچن کوبھی مات دے رہی ہے : تم سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم اس انقلابی گیت کے انترے میں دہشت گردی کے عذاب کو بھی یوں ایڈریس کیاگیاہے :پاک خونِ شہیداں کی ہم کو قسم… پھول ہر ُسو امن کے کھلائیںگے ہم… انتخابی گیتوں میںجو چاہے اور جو مرضی ریکارڈکرادیاجائے ،حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے مذاکرات کی ہامی بھرنے کے لئے جن قائدین کو اپنے لئے قابل قبول قراردیاہے ان کے ہاتھوں یہ مشکل کام ہوتادکھائی نہیںدیتا۔تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لئے استاد راحت خان کے گائے گیت کی استھائی ملاحظہ کیجیے: چلو چلو عمران کے ساتھ ، چلو چلو عمران کے ساتھ صاف چلی شفاف چلی ، تحریکِ انصاف چلی تحریک انصاف کے اس لہوگرم رکھنے والے انتخابی گیت کو عمران خان اوران کے جلسوںکی فوٹیج سے دوآتشہ کیاگیاہے۔ عمران خان کی حقیقت کے قریب پرفارمنس بالی وڈ کے خانز کی فلمی بہادری کو زیر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ انترے میںتحریک انصاف اورکپتان خان کا وہی آزمودہ نسخہ آزماتے ہوئے سیاسی مخالفین کو دشنام طرازی کا یوں نشانہ بنایاگیاہے : چور لیٹر ے جائیں گے ، اچھے سچے آئیں گے خوف کی توڑ زنجیر چلی ، تحریک انصاف چلی بہنو، بھائیو!نون لیگ اورتحریک انصاف کے سیاسی اورمعاشی نظریات میںیوں تو زمین اورآسمان کا فرق ہے مگر استاد راحت فتح علی خان کی آواز پران کا مکمل اتفاق ہے ۔عوام الناس کے لئے یہ اطلاع بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ دونوں انتخابی گیتوں کا میوزک ڈائریکڑاورایرینجر بگاہے ۔موسیقار بگا کا تعلق طافو برادران سے ہے۔بگا استاد طافو کے چھوٹے بھائی امجد کا بیٹا ہے اوراس وقت ملک کا مہنگا ترین میوزک ڈائریکٹر ہے۔چلیں اچھا ہوا کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے غریب عوام کو اپنی انتخابی مہم میں استاد راحت فتح علی خان اور بگاکی تیار کردہ مہنگی موسیقی سنانے کا اہتمام کیا۔اطلاعات کے مطابق استاد راحت خان اس وقت فلمی گیت گانے کا معاوضہ دس لاکھ روپے اوربگا اسکے نصف وصول کرتاہے۔استاد راحت خان کا انتخابی گیت گانے کا ٹیرف میرے پاس نہیںہے، اس لیے آپ کو نہیںبتاسکتا کہ موسیقی کامذکورہ سونامی لانے پر کس قدر لاگت آئی ہے۔بہر حال انترے کے مطابق جس میںفرمایابلکہ گایاگیاہے:چور لیٹرے جائیںگے، اچھے سچے آئیں گے …اچھے سچے آئیں گے تو وہ صاف شفاف طریقے سے قوم کو بتائیںگے کہ بالی وڈ فیم میوزک کا سونامی ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میںلانا ہوتو وہ ہمیں کتنے میںپڑتا ہے ؟ انتخابی گیتوں اوران کی ہائی ٹیک اورایچ ڈی ورژن ویڈیوزکے حوالے سے مذکورہ دوجماعتوں کے مابین ہی مقابلہ دیکھنے کو مل رہاہے۔باقی جماعتوں کی سست انتخابی مہم سے تو کبھی کبھار لگتاہے کہ وہ اب بھی’’آسمان لازوال سے ‘‘ کسی قومی حکومت کا خواب دیکھتے ہوئے ڈپٹی وزیر اعظم یادوتین سالہ ٹیکنوکریٹ وزیر اعلیٰ بننے کے پر تولے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی، قاف لیگ،عوامی نیشنل پارٹی اورایم کیوایم میوزک کے خلاف نہیںہیںمگر نجانے کیوںوہ اب تک اپنے انتخابی پرومواور ٹریلر مارکیٹ میںلے کر نہیںآرہے؟پیپلز پارٹی کا جو ٹریلر مارکیٹ میں سامنے لایاگیاہے اس میںشہید بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بلاول کا اضافہ کیاگیاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ لوگوں کو بھٹو خاندان کی قربانیاں یاد رہتی ہیں یا اپنے ان گنت دکھ؟ دوہری شخصیت کے ایشو پر ہمارے لاکھوں بہن بھائی عام انتخابات میںووٹ کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔امریکہ (نیویارک )میں گزشتہ تیس سال سے مقیم میرے عزیز عرفان میر کا کہناہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میںجمہوریت کو اس کی اصل شکل میں واپس لانے کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔علاوہ ازیں پاکستان کے پاور سٹرکچر اورریاستی دائرہ کار میں فوج اور جمہوری حکومت کے مابین ایک ہارمنی پیدا کردی ہے۔ عرفان میر کا کہناہے کہ گذشتہ اسمبلی کو اگر مڈل کلاس ہائوس کا نام دیاجائے تو غلط نہ ہوگا ۔مذکورہ اسمبلی میںخاص طور پر مڈل کلاسیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔اس اسمبلی نے 73کا آئین بحال کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے کارنامے سرانجام دئیے مگر افسوس ،اسے کرپشن کی ڈگری عطا کرکے الوداع کیا گیا۔ بطور وکیل صفائی عرفان میر صاحب کے نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیںمگر مجھے ان کی حب الوطنی پر رتی برابر بھی شک نہیں۔ وہ فرسٹ ورلڈمیں مقیم ہیںاور ہم تیسری دنیا میںواقع ایک ایسے ملک میںزندہ ہیںجہاں لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ رائونڈدی کلاک دہشت گردی کا دور دورہ ہے ۔کاش ! اسلامی جمہوریہ پاکستان میںدہشت گردی کی بھی لوڈشیڈنگ ہو!،آمین !مگر سیاسی جماعتوں کے سپر نیچر ل ہیروز بھی سالہاسال حکومت کرنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کی یقین دہانی نہیں کرارہے وگرنہ یہ ممکن تھاکہ ہماری سیاسی جماعتیں اور قائدین استاد راحت فتح کی آواز میںہی پروین شاکر کی مناجاتوں کے بانجھ ہونے کی کہانی یوں بیان کرادیتے : آسمانوں میں وہ مصروف بہت ہے یا پھر بانجھ ہو نے لگے الفاظ مناجاتوں کے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں