"TSC" (space) message & send to 7575

نُسخہ ہائے دفاع

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے حوالے سے بعض احباب کا کہنا ہے کہ ’’یہ انصاف نہیںکہ تنہا مشرف کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے‘ ان کے باوردی اور بغیر وردی کے ساتھیوں سبھوں کو سزا ملنی چاہیے‘‘ ۔۔۔ واہ سبحان اللہ۔۔۔ کیا نُسخۂ دفاع ہے۔ لگتا ہے یہی وہ ’نُسخۂ ہائے وفا‘ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے مشرف اور ان کے وہ تمام ساتھی‘ جو آٹھ سال تک اقتدار کے شاہی حمام میں ’’غسل حکمرانی‘‘ فرماتے رہے‘ باعزت رہائی پائیں گے۔ معترضین کا کہنا ہے کہ صرف مشرف پر آرٹیکل 6 کے اطلاق کا نعرہ بلند کرنا قانون کی سربلندی کا جھنڈا نانگا پربت پر لہرانے جیسا معاملہ لگتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جنرل مشرف کی ’’رونقوں کے ساتھی‘‘ بلکہ مشیر اور وزیر اب ان پر قلمی سنگ زنی کر رہے ہیں۔ یہ تو کچھ ایسا ہی منظر ہو گیا کہ اداکارہ نرگس شیطان کو کنکریاں مارنے لگیں تو اس کی چھوٹی بہن دیدار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: ’’ہائے، ہائے نرگس باجی! تمہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ غالباً مشرف کے ’’ریٹائرڈ‘‘ مصاحبوں کو تو اداکارہ دیدار کی طرح کوئی روکنے والا بھی نہیں۔ قارئین کرام ! یہ واقعہ نرگس اور دیدار کی جوڑی نے مجھے خود سنایا تھا اس لیے غلطی کا احتمال نہیں۔ سابق آمر کی عدالتوں میں پیشیوں کی بُنیاد پر قرار دیا جا رہا تھا کہ پاکستان بدل چکا ہے، اس سے قبل کب کسی ڈکٹیٹر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی؟ ابھی ہمیں زندہ قوم ہونے کی ’’گھوکی‘‘ (خماری) پوری طرف چڑھ نہیں پائی تھی کہ نگران حکومت نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ خبطِ عظمت کی ایسی ہی کسی داستان گوئی کے لیے مصحفی نے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفی بس اب چُپ رہ زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر وفاق نے اٹارنی جنرل کی وساطت سے جنرل ریٹائرڈ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے مقدمہ کے حوالے سے جواب داخل کرایا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق صدر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنا اس کے مینڈیٹ میں نہیں۔ ویسے بھی اس معاملے میں جلدی کی ضرورت نہیں لہٰذا یہ معاملہ آئندہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک آمر کو آئین توڑنے کی سزا دینا کس کا مینڈیٹ ہے، نگران یا منتخب حکومت کا ؟؟؟ آئیے تھوڑا فلیش بیک میں چلتے ہیں۔ گنگا میں دھلی ستی ساوتری نگران حکومت سے قبل پیپلز پارٹی، نون لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان والی) اور فاٹا کے ممبران کے الحاق سے معرض وجود میں آنے والی افہام و تفہیم کی ’’شاہکار‘‘ حکومت کے پاس یہ مینڈیٹ تھا؟؟؟ ایک آمر کو صدر کے عہدے سے ہٹانے کا کریڈٹ ہمارے کئی جمہوری پہلوان لیتے ہیں۔ ہیوی مینڈیٹ وزیر اعظم کو زبردستی معزول کرنے کے بعد کمانڈو ’کنگ خان‘ نے نو سال تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ اس جدید دنیا میں کسی آمر کے لیے اس سے زیادہ حکومت کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ یہ سب کرنے کے بعد آمر بابو نقد گارڈ آف آنر وصول پا کر ملکہ وکٹوریہ کے دیس برطانیہ سدھار گئے۔ برطانیہ میں کمانڈو خان نے یہ خود ساختہ جلاوطنی کس طرح کاٹی اس کی جھلک میں جون 2010ء میں دیکھ چکا ہوں۔ یہ جلاوطنی تھی یا کوئی تفریحی دورہ‘ میں سمجھ نہیں پایا تھا۔ مشرف کے ڈرامے کے دریا کو مولانا فضل الرحمٰن کے اس بیان کے کوزے میں ملاحظہ فرمائیں۔ کہتے ہیں: ’’مشرف کی گرفتاری اور نظربندی سب ڈرامہ ہے‘‘۔ مولانا کی بر سبیلِ تذکرہ اور برمحل حق گوئی کو جھٹلانے والوں کا کہنا ہے کہ فضل الرحمٰن تو خود مشرف کے ہمنوا رہے ہیں۔ یہی نہیں آئین شکنی اور آمریت کے بسترِ اقتدار کی شکن شکن کے شریکوں پر بھی‘ جو آٹھ سال تک حکمرانی کے خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے‘ شریکِ جرم ہونے پر مقدمہ چلایا جائے۔ مذکورہ فعل، مفعول اور فاعل ہذا کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسی طرح کا عہدہ ہوتا ہے جیسے’ شریک چیئرمین‘ ہوتا ہے یا ’ڈپٹی وزیر اعظم‘ ہوتا ہے۔ مشرف کے ہمنوائوں کے نام کا سلسلہ چھڑے گا تو بات کراچی سے گجرات اور پھر پشاور سے فاٹا تک جا پہنچے گی۔ مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے والے ’’مقدمہ واروں‘‘ کی فہرست طویل ہے جس میں چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، خورشید محمود قصوری، حنا ربانی کھر، عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رہنما شیخ رشید، پوری کی پوری متحدہ قومی موومنٹ، فردوس عاشق اعوان، ماروی میمن، کشمالہ طارق، طارق عظیم، عائلہ ملک، سمیرا ملک اور خود مولانا فضل الرحمٰن شامل رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور نون لیگ کے مابین انتخابی اتحاد تو نہیں ہو سکا؛ تاہم جنرل مشرف کی لیڈیز اور’’فوٹوجینک الیٹ‘‘ کو نون لیگ کی ٹکٹیں میسر آ گئی ہیں۔ لیڈیز الیٹ میں ماروی میمن، کشمالہ طارق اور سمیرا ملک شامل ہیں جبکہ عائلہ ملک جیسی خوش شکل رہنما تحریک انصاف کے سونامی اور جوار بھاٹوں کو دو آتشہ کیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی تاریخ کے اس مقدمہ کو ضبطِ تحریر میں لانے والے ’’محرر حضرات‘‘ میاں برادران، اہلِ پیپلز پارٹی اور عمران خان کو بھی معافی دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں برادران اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے آمر کے ساتھ معاہدے کیے جبکہ عمران خان آمریت کی فلم کے آغاز کی ریلوں میں کمانڈو خان کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ آمریت کے اس حمام میں تو سبھی اپنے، اپنے زرق برق لباس میں’’ملبوس‘‘ رہے ہیں لہٰذا آمر کو پتھر مارنے کی کوشش کی گئی تو اداکارہ نرگس اور دیدار والے ’’مقدمے‘‘ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر قتل کیس اور آئین شکنی کے مقدمہ سمیت دوسرے سنگین مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کو جس روز پیشی کے لیے عدالت میں لایا جاتا ہے تو کالے کوٹوں اور جنرل صاحب کے ’’چٹ کپڑئیوں‘‘ کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ جنرل صاحب کے ایک جوشیلے وکیل اس وقت عدالتوں سمیت میڈیا کے محاذ پر اپنے لیڈر اور موکل کے لیے ’’کارگل‘‘ لڑ رہے ہیں۔ موصوف اپنے تئیں بہت بڑے مدعی اور وکیل ہیں۔ عالی سرکار کی طرف سے درج کرائی گئی ایک ایف آئی آر کے نتیجہ میں تیسری دنیا کے عظیم لیڈر بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ اب یہی شخص ایک ایسے آمر کا وکیل ہے جس نے کراچی میں ہونے والے سانحہ 12مئی میں 52 بے گناہوں کی لاشیں گرانے کے قبیح عمل کو ’’عوامی طاقت کے سامنے آ کے کچلے جانا‘‘ قرار دیتے ہوئے مکہ لہرایا تھا۔ وکیل صاحب ایک بھارتی نیوز چینل کی خاتون اینکر کے ٹاک شو میں اپنے موکل کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بی بی! آپ کو علم ہی نہیںکہ ترقی پذیر ممالک میں فوج ایک اٹل حقیقت ہے، جنرل صاحب افواج پاکستان کے سربراہ رہے ہیں، ایک سابق آرمی چیف کو حراست میں لینے کے لیے ڈی آئی جی اور آئی جی کافی نہیں ہوتا‘‘۔ قصوری صاحب کے اس فقرے کے بعد بھارتی اینکر نے کہا: ہم آپ کی فوج کی اہمیت اور طاقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ قصوری صاحب کی جوشِ وکالت کا نتیجہ تھا کہ بھارتی اینکر سے ہم نے ٹکا سا جواب سن لیا۔ آمر کے لیے’’ ترسیا سکرپٹ‘‘ لکھنے والوں کو کارساز میں گرنے والی لاشوں، بگتی کے قتل، لال مسجد کے شہدا، آئین توڑنے کے بعد منتخب حکومت پر قابض ہونے سمیت لگ بھگ نو سال کے ان گنت جرائم کو نظرانداز نہیںکرنا چاہیے۔ یہ مطالبہ اصولی طور پر درست ہے کہ جنرل مشرف نے جو کچھ کیا اس میں وردی والوں کے ساتھ ساڑھیوں، واسکٹوں اور شیروانیوں والے خواتین و حضرات شامل رہے‘ جنہیںکوئی کچھ نہیںکہہ رہا۔ جنرل مشرف کو کچھ نہیں ہو گا، اس سے قبل آئی جے آئی بنانے والے جرنیلوں کا کسی نے کیا بگاڑ لیا تھا ۔۔۔ اور کیا اس سنگ میل سے دوام پانے والے الیکشن 2013 ء میں ہمارے نجات دہندہ نہیں ہیں۔۔۔۔ سنتا جا شرماتا جا۔۔۔!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں