پیارے وطن میں تبدیلی ، بدلتے پاکستان اورنئے پاکستان کی تعمیر ی فلم کی ’’ سنیماسکوپ ‘‘ نمائش جاری ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ایک جیسے منشوروں کی تشہیر عروج پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاست کے ایکٹرز، کریکٹرایکٹرز اورسٹارز کی پرفارمنس بھی دیدنی ہے۔ انتخابی اشتہاروں میں ترقیاتی منصوبوں کے مناظر دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم کم از کم سوئٹرزلینڈ میں رہائش پذیر ہیں،لیکن اگلے ہی لمحے جب لوڈشیڈنگ کے باعث بتیاں گل ہوتی ہیںتو پتہ چلتا ہے کہ ’’کھوتی بوڑھ تھلے ای کھلوتی اے ‘‘ (گدھی برگد کے درخت کے نیچے ہی پارک ہے)۔ اس وقت مارکیٹ میں پی ٹی آئی ، نون لیگ، پیپلز پارٹی کے علاوہ قاف لیگ کا اصلاحی اشتہار نمائش کے لئے پیش کردیاگیاہے۔ قاف لیگ کی اشتہاری مہم دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ پارٹی اس بار انتخابات میں’’کڑوا چودھ ‘‘ رکھ لے گی ،مطلب یہ ہے کہ نون لیگ میںشامل ہوجائے گی۔چوہدری برادران کے منصوبے یہ ہوسکتے ہیں کہ …میں تو دریا ہوں سمندر میں اترجاوں گا…مگر میاں برادران یہی چاہیں گے کہ اب کے تجدیدِ وفا کا نہیںامکاں جاناں… تحریک انصاف اورنون لیگ کے انتخابی اشتہار ہماری نیوز چینل انڈسٹری کی رونق بڑھائے ہوئے ہیں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ تمام سٹارز اورمیگاسٹارز اسی ایک ’’پروڈکشن ہائوس‘‘ کے پرانے اورنئے سٹارز ہیں جسے پاکستان کے سیاسی سرکٹ میںلیڈر بنانے کی ٹیکسال سمجھا جاتاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے ایک ’’حمید گل پونا آرٹ اکیڈمی ‘‘ جبکہ دوسرے ہیرو ’’پاشا پرفارمنگ آرٹس ‘‘ کے ڈگری یافتہ ہیں۔ واضح رہے کہ سرکٹ میںزیر نمائش باقی ماندہ سیاسی فلمیں بھی اسی پروڈکشن ہائوس کے’’لوبجٹ ونچر ‘‘ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ سستے منصوبے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی ٹیکسال کا ’’ریٹائرڈ‘‘ روح رواں ان دنوں خود سیاسی سرکٹ میں’’کھل نائیک‘‘ بناپھر تا ہے ۔ میر تقی میرؔ نے کہاتھا! پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزت ِسادات بھی گئی میر تقی میرؔ سے معذرت کے ساتھ جنرل مشرف کے حوالے سے مصرع اول والی بات تو تھوڑی بہت ٹھیک ہے ۔ پیشیوں ویشیوں میںرینجرز، خفیہ والوں اورمیڈیا کے اہلکاروں کے مابین دھکم پیل کے وقت ایک آدھ دھکا کمانڈو خان کو بھی لگ جاتاہے۔لیکن وہ تو ڈرتے ورتے کسی سے نہیںہیں،ان کے ایڈووکیٹ قصوری تو خواہ مخواہ فرطِ جذبات میںمیڈیا کے سامنے روپڑے ،جنرل صاحب نے اس سویلین حرکت پر ایڈووکیٹ صاحب کی سرزنش ضرور کی ہوگی۔چک شہزاد میںجنرل صاحب کی ہمسایہ اورمیری ایک واقف کار ’’ایجنسی ‘‘ نے مجھے بتایا ہے کہ کمانڈو صاحب محفوظ ہاتھو ں میں ہیںاورفارم ہائوس میں زندگی انجوائے کررہے ہیں۔جنرل صاحب پسند کے ناشتے ،مرضی کے عصرانے اورپرتکلف عشائیے برپا کرتے ہیں۔انہیں فائیوسٹار ہوٹل جیسی تمام سہولتیں حاصل ہیںجہاں وہ انٹر نیٹ ،وائی فائی،فیس بک اور ٹویٹرکے ذریعے دنیا بھر سے رابطے میں ہیں۔جن لوگوں کی خواہش ہے کہ جنرل صاحب کے ساتھ بھی منتخب وزرائے اعظموں جیسا رویہ اختیار کیاجائے، ان کی خدمت میںعرض ہے کہ وہ اس براعظم میںممکن نہیںہے۔ البتہ مختلف مقدمات میں جنرل صاحب کی پیشیوں کے حوالے سے دکھائی جانے والی فوٹیج کو بنیاد بنا کر ٹاک شوز میں یہ دعوے کرنا اچھا لگتا ہے کہ ’’پاکستان بدل چکا ہے ‘‘۔ بدلتے پاکستان میں نئے لیڈر جب پرانے لیڈروں کی نقالی کرتے دکھائی دیتے ہیںتویوں لگتا ہے جیسے ’’جھنکار میوزک ‘‘ سن رہے ہوں۔جھنکار میوزک کی گھٹیا آمیزش سے برصغیر کی عظیم موسیقی کو آلودہ کردیاگیاہے۔اس عامیانہ تکنیک سے سدابہار گیتوں کی تال کے پیچھے ایک آٹو ڈرم مشین سے نیا ردم شامل کردیا گیا ہے ۔میوزک کی دنیا میں اس سے بڑی تخریب کاری اوردہشت گردی کی واردات دوسری نہیںہوگی۔کسی بدبخت بے تالے اوربے استادے نے سلیل چوہدری ، ایس ڈی برمن اورخواجہ خورشید انور سمیت دوسرے اوریجنل موسیقاروں کے عظیم کام میں جھنکار شامل کرکے اپنے نامہ اعمال میںتاابد پھٹکار لکھ لی ہے۔سریلے موسیقاروں کے میوزک میں جھنکار شامل کرنے کا عمل ایسے ہی ہے جیسے کوئی نالائق بلڈر اہرام مصر کی عظیم الشان عمارت پر سیمنٹ کردے یاجیسے موہنجوداڑوکو سنی پلیکس میںبدل دیاجائے یا جیسے تاج محل کو شٹر لگادئیے جائیں یاجیسے دیوار چین پر کسی پاکستانی رہنما کے نام کی تختی نصب کردی جائے۔بدلتے ہوئے پاکستان میںغریب کی حالت بدل کر دنیا کے آخری غریب سے ملادی گئی ہے ۔بدلے ہوئے پاکستان میںایک تبدیلی یہ بھی نمودار ہوئی ہے کہ یہاں حکمران سٹارز اور ان کی کرپشن کی دہائیاں دینے والے میگاسٹارز بن گئے ہیں۔پیارے وطن میں یہ رواج فروغ پاگیاہے کہ غریب کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے بل گیٹس کا کزن ہونالازمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض صاحبان دولت تو بل گیٹس کو نیچا دکھائے ہوئے ہیںاورباقی ماندہ اس بابائے دولت کو شکست دینے کے درپے ہیں۔ بدلتے ہوئے پاکستان میںجس لیڈر کی سب سے زیادہ نقالی کی جارہی ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔اپنے ہوں یا پرائے سب بھٹو صاحب کی نقالی کررہے ہیں۔کوئی رہنما بھٹو کی طرح غریب کے میلے بچوں کو گود میں اٹھارہا ہے اور کوئی پسماندہ بستیوں میں غریبوں کے ساتھ فرش نشیں ہے،کوئی بیوائوں کی داد رسی کررہاہے تو کوئی جواں بہوئوں بیٹیوں کے سر ڈھانپ رہاہے۔ان سب مناظر میں سب سے زیادہ جو منظر نمودار ہورہاہے وہ تقریر کرتے ہوئے مائیک گرائے جانے کا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ متعدد مرتبہ (ری ٹیکس) کے باوجود وہ سین ایک بار بھی اوکے نہیںہوسکا۔ انتخابی اشتہاروں اورمختلف ٹی وی پروگراموں میں بھٹو صاحب کی طرح جذباتی انداز سے تقریر کرتے ہوئے مائیک گرانے کا یہ سین سینکڑوں بار دہرایاجاچکا ہے ۔یہ سین یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔اس ضمن میں، میں نے فن ِاداکاری کے ماہر اساتذہ سے بھی دریافت کیا،میراسوال یہ تھاکہ کیابھٹو صاحب نے تقریر کرتے ہوئے مائیک دانستہ گرایا تھا یا جذباتی انداز میں ہاتھ لگنے سے ایسا ہواتھا؟اساتذہ کا کہناتھاکہ بھٹو صاحب کے جذباتی خطاب اورباڈی لینگوئج( بدن بولی) میں ایک سیکنڈ کے سینکڑویںحصے میں بھی یہ شائبہ نہیں تھا کہ وہ کسی قسم کی اداکاری کر رہے ہیں۔وہ منظر ایک آئیڈیل ٹائمنگ سے یادگار دستاویز بن چکا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی بڑا اوراوریجنل ایکٹر مائیک گرانے کا یہ منظر ٹھیک سے پرفارم کردے مگر یہاں تو درجنوں مائیک تباہ ہوچکے ہیںمگر نتیجے میں اس پائے کا ایک سین بھی اوکے نہیںہوسکا۔دنیا میںبہترین تقریر کرنے والے 35افراد کی فہرست دیکھیںتو اس میںکسی ایک نے بھی مائیک نہیںگرایا۔ان بہترین مقررین میں یونان سے تعلق رکھنے والے فاتح سکندر اعظم،چیف جوزف، ڈی موسٹ ہنس، لیوگریگ، امریکی صدررونالڈریگن، جان ایف کینیڈی،ولیم ولبرفورس،چارلس ڈیگال،تھیوڈور روز ولٹ اور برطانوی رہنما ونسٹن چرچل سمیت دیگر شامل ہیں۔ امریکی تاریخ میں بارک حسین اوباما کے ہیرو جان لوتھر کے خطاب بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے عظیم خطیبوں میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاداورنواب بہادر یار جنگ شامل ہیںجو قائد اعظم کی انگریزی تقریر کا ترجمہ ہوبہو کرتے تھے۔اسلامی تاریخ کے عظیم فاتح طارق بن زیاد نے جبرالٹر کے مقام پر اپنی کشتیوں کو آگ لگانے سے قبل جو تقریر کی تھی اس کی گونج تاریخ میں آج بھی محفوظ ہے۔ تاریخ میںمائیکوں سے زیادہ تخت گرائے گئے اورتاج اچھالے گئے ہیں،لیکن ہمارے ہاں مائیک گرانے پر زیادہ زور ہے۔مائیک گرانے کے جس منظر کا ری میک کیاجاتاہے، یہ اصلی منظر بھٹو صاحب نے لاہور میں برپا کیاتھا جہاں وہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے یوں مخاطب ہوئے …لڑوگے… لوگ کہتے ہیں…لڑیں گے …بھٹو کہتے ہیں… مروگے …جلسہ گاہ میں موجود ہر شخص دل سے کہتاہے… مریں گے …پھر بولو…لڑوگے …عوام بھٹو کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہیں…بھٹو کہتے ہیں…ایمان سے کہومیرا ساتھ تو نہیںچھوڑوگے …سب کہتے ہیں نہیں، نہیں،نہیںاور اس پر بھٹو صاحب کے ہاتھوں مائیک گرجاتے ہیں۔(جاری ہے)