"TSC" (space) message & send to 7575

اور مائیک گر گئے!!

بھٹو صاحب کے ہاتھوں لاہور کے جس جلسے میںمائیک گرے تھے وہ قذافی سٹیڈیم میں برپا ہوا تھا۔ اسی جلسے میں پاکستان کے دوست ملک لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کے نام سے اس سٹیڈیم کو موسوم کیاگیاتھا۔ عالمی اصولوں کے مطابق تقریر کے فن میںایک اعلیٰ پائے کے خطیب اور اس کے خطاب میںتین باتوں کو اہمیت حاصل رہتی ہے۔ اول substance(نفسِ مضمون) دوم Style(انداز تکلم)اور آخر پر Impact یعنی اس کا تاثر۔ بھٹو صاحب کی ہر تقریر میں درج بالا تینوں کیفیات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔بھٹو صاحب ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے ، ان میںپائے جانے والی جادوئی کشش کو آج کی نوجوان نسل کی پسندیدگی کے برانڈ لیبل سے موسوم کیاجائے تو کہاجاسکتا ہے کہ ’’ بھٹو صاحب ایکس فیکٹر کا نادر نمونہ تھے‘‘۔ ان کی سحرکردینے والی شخصیت اس وقت اوربھی کرشماتی لگتی ہے جب لگ بھگ 44 سال بعد بھی ان جیسا کوئی دوسر ا سیاسی لیڈر دکھائی نہیںدیتا۔بھٹو صاحب والا کرشمہ یوں تو دوسرے کسی لیڈر میں دکھائی نہیںدیا ،لیکن ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹواورنواسہ بلاول بھٹو اپنی تقریر کے صوتی اورجذباتی آہنگ سے کبھی کبھی بھٹو دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بھٹو فیکٹرکو مکمل طور پر ختم نہیںکیاجاسکا حالانکہ اس کے نشانات مٹانے کے لئے چاروں صوبوں میںہی ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کیاگیا۔ سندھ اورکراچی میں تو اس کے لئے خصوصی ’’انتظام وانصرام‘‘ کئے گئے ۔دونوں مقامات پر لسانیت سے لے کر جنونیت کے بیج بوئے گئے جسے ہم بحیثیت قوم کاٹ رہے ہیں۔آج کے سلگتے کراچی میں اگرچہ قسم قسم کی آگ جلائی گئی ہے لیکن اس کی چنگاری جنرل ضیاء الحق کے دور میںپیپلز پارٹی کو خاکستر کرنے کے لئے ہی جلائی گئی تھی۔ نبیل گبول کراچی میںاس کی آخری نشانی کے طور پر پہچانے جاتے تھے ، مگر اس بار وہ اپنے حلقہ کے رزلٹ کے ساتھ متحدہ کے سکوربورڈ پر جلوہ گر ہوں گے۔پاکستان کے عوام کی زندگی دہشت گردی ، مہنگائی ، بے روزگاری اورلوڈشیڈنگ کی زد میںآئی ہوئی ہے۔یہ دکھیارے عوام ’’پی پی کی کہانی استانی فہمیدہ کی زبانی‘‘ طرز کے میرے کالم پڑھتے ہوئے مجھے برا بھلاکہتے ہوں گے کہ یہ کرپشن اور نااہلی کے ان گنت الزامات کے بوجھ تلے دبی ہوئی پیپلز پارٹی کو نیک پروین ثابت کیوں کرناچاہتاہے؟ اس پر سوال یہ کہ ’’مسماۃ پی پی پی‘‘ کی پانچ سالہ کارکردگی کے بعد بھی جو شخص اس پارٹی کی حمایت کرتاہے اسے دماغی امراض کے ماہرین سے رابطہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں عوام کی اکثریت معصوم اورسادہ دل ہے۔ میں جب پی پی پی کو ایک بڑی اورمحب وطن جماعت کہتا ہوں جسے اس ملک کے غریب عوام نے ووٹ دیاہے تو اس میںغلط کیا ہے؟ سستے انٹر نیٹ پیکج کی سہولت سے فائدہ اٹھاکر سوال پوچھنے والوں کی خدمت میںعرض ہے کہ بھٹو اوربے نظیر کے قتل کے بعد مضروب اور نااہل پیپلز پارٹی کے خلاف بھی سازشوں کی رم جھم میں ایک لمحہ کا تعطل نہیںآیا۔27دسمبر 2007ء کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرادیاجاتاہے، 18فروری 2008ء کے انتخابات میںپی پی قومی اسمبلی کی 124نشستیں جیت پاتی ہے، نون لیگ 92نشستوں کے ساتھ دوسری اورقاف لیگ 51 سیٹیں جیت کر تیسری پارٹی کے طور پر ابھرتی ہیںجبکہ متحدہ حسب روایت کراچی کی لگ بھگ تمام نشستیں حاصل کرکے اول آتی ہے۔یہ ابھی کل کی بات ہے‘ جونہی آصف زرداری نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایاتھاایک اخبار میںخبر شائع کرائی گئی تھی کہ ’’چکلالہ ائیر پورٹ پر خصوصی طیارہ کھڑا ہوگیا،صدر کسی لمحہ بھی بیرون ملک فرار ہوسکتے ہیں‘‘۔گویایہ اس نوزائیدہ جمہوری حکومت کے خلاف اعلان جنگ تھا جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے قائم ہوئی تھی۔ عوام کے ووٹوں کے ساتھ منتخب ہوئے نمائندہ صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ملک سے فرار ہونے والاتھا،دوسری طرف باوردی صدر کا وصف یہ ہوتاہے کہ وہ دوبار آئین توڑنے کے بعد ان گنت غیر آئینی معرکے سر کرتا ہے اور پھر گارڈآف آنر وصول کرتے ہوئے شان سے رخصت ہوتا ہے۔اس ملک میںجمہوریت کو ناکام کرنے کی واردات قائداعظم ؒاورلیاقت علی خان کے قتل سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ 53اور54کی انتخابی بدمعاشیاں ،جنرل ایوب خان کی طرف سے دس سالہ ’’صنعتی‘‘ مارشل لا، جنرل آغا یحییٰ خان کا چارسالہ ’’رنگین‘‘ مارشل لا ، جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ ’’اسلامی ‘‘ مارشل لا اورجنرل مشرف کا نوسالہ’’لبرل ‘‘ مارشل لا اسی سیریز کی اگلی اقساط تھیں۔یہ تمام ڈرامے قومی سلامتی ، حب الوطنی،عام انتخابات کے انعقاد، اسلامی نظام کے نفاذاوردہشت گردی کی جنگ کے نام پر برپا کئے گئے۔یہ وہ ڈرامہ سیریلز تھیںجن کے تمام سکرپٹ قومی سلامتی اورحب الوطنی کے نام پرلکھے گئے۔اس کھیل میںبعض قومی جماعتوں کو سکیورٹی رسک قراردے کر ان کے خلاف آئی جے آئی جیسے انتخابی اتحاد قائم کرکے من پسند مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ جنرل حمید گل صاحب ہمیشہ فرماتے ہیںکہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی تھی ،مگر اس کے اغراض ومقاصد وہ سپریم کورٹ میںبلائے جانے پر سامنے لائیں گے۔ایک عرصہ سے یہ راگ الاپا جارہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار عام انتخابات میںنیوٹرل رہے گی اوروہی نتائج قبول کئے جائیںگے جوصاف شفاف الیکشن کی صورت میںحاصل ہوں گے۔یہ تھیسس اتنا ہی بے معنی ہے کہ کوئی دانش مند فرمائے ببرشیر نے گوشت کھانا ترک کردیا ہے،آج کل وہ ناشتے میںٹوسٹ ، زردی کے بغیر انڈہ اوربران بریڈنوش فرمارہا ہے… بھئی شیر شکار سے جاسکتاہے روزہ تو نہیںرکھ سکتا! شیرسے یاد آیاپنجاب میںواقعی شیر آیا شیر آیا ہورہا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلابھی بال بائونڈری سے باہر پھینکنے کی تیاری میں ہے۔ لیکن پی پی ، اے این پی اورمتحدہ کوشکایت ہے کہ طالبان رائٹ ونگ پارٹیوں کو جتانے کے منصوبے پر گامزن ہیں۔ پلان کے مطابق رائٹ ونگ پارٹیوں یعنی نون لیگ، پی ٹی آئی اورجے یوآئی کوتو کو کھل کھیلنے کے سنہری مواقع فرائم کئے جارہے ہیںجبکہ مخالفین پر الیکشن کے تمام دروازے بند کردئیے گئے ہیں۔ انتخابات کے حوالے سے اس وقت دوتھیوریاں زیر بحث ہیں۔ اول یہ کہ کسی خطرناک ڈرامے کے برپا ہونے کے نتیجہ میںالیکشن دوسے تین سال کے لئے موخر کردئیے جائیںگے ۔ایسی صورت میںنگران حکومت کے ضعیف اورقدرے جواں سال نگرانوں کی آخری خواہشات پوری ہونے کے علاوہ کسی دوسری کا بھلا نہیں ہوسکے گا۔دوم اگر انتخابات وقوع پذیر ہوتے ہیںتو نون لیگ قومی اسمبلی میںاپنی سنچری بنائے گی،پی ٹی آئی کے حصے 40سے 60سیٹیں لکھی گئی ہیں،مضروب پی پی پی 60سے 70نشستوں سے نیم سرخرو ہوگی،متحدہ حسب روایت اپنی ہر نشست جیتے گی، قاف لیگ اس بار گنتی کا سنگل ہدف ہی پورا کرسکے گی۔ انتخابی نتائج کے حوالے مارکیٹ میںدستیاب ’’قریشی انونسبل گیس پیپر‘‘ کے مطابق آزاد اراکین کی نظر عام انتخابات کے ’’جوہری‘‘ صدر آصف زرداری پر ہے کیونکہ ہیرے کی قدر جوہری ہی پہچانتا ہے۔ آنے والے انتخابات میںاگرچہ میاں برادران کی نون لیگ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی مگر آئندہ حکومت وہی بنائیںگے جو اس نعرے کی تعبیر جانتے ہیںکہ ’’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘‘۔افہام وتفہیم کے اس فارمولے نے گذرے پانچ سالوں میںغریب کو کیادیاہے؟یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں کب تک ان آہنی کندھوں پر بیٹھ کر الیکشن کے دریا عبور کرتی رہیںگی جو کامیابی کے بعد انہیں اپنے سنگ میل تو دکھاتے ہیںمگر عوامی دکھوںکی نجات کی منزل کی طرف گامزن نہیںہونے دیتے؟ سیاسی جماعتوں کو رفتہ رفتہ ان دیوتائوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی وگرنہ عوام میںوہ کبھی بھی ساکھ نہیںبناپائیںگے۔آخر میں’’قریشی گیس پیپر ‘‘ کی مخبری کے مطابق کیا کپتان کومنظور وٹو کا دیا فارمولا منظور ہے ؟ یعنی وزیر اعظم عمران خان اورصدر حسب معمول آصف علی زرداری؟ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں