"TSC" (space) message & send to 7575

صدر زرداری ‘ میاں صاحب کو ’’جزیہ ‘‘ ادا کریں

الیکشن 2013ء میں صدر زرداری نے پنجاب میں شریف برادران کی سپرہٹ سیاست کو فلاپ کرنے کا پراجیکٹ میاں منظور وٹو کودیاتھا۔وٹو صاحب نے پراجیکٹ ہاتھ میںآتے ہی یہ بڑھک لگائی تھی کہ وہ…شریف برادران کو چت کرنا جانتے ہیں‘ وہ میاں برادران کی سیاست سے واقف ہیں‘ آنے والے الیکشن میںان تمام ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے ان کی سیاست کا کریاکر م کردیں گے… وٹو صاحب ،شریف برادران کی سیاست کا کریاکرم کرنے کے شوق میںاپنا’’عرس‘‘ کرابیٹھے ہیں۔میاں برادران نے کامیاب ہوتے ہی اس عزم کا اظہار کیاہے کہ اب وہ پانچ سال حکومت کریں گے اوراس عرصہ کے اختتام پر عوام کو جواب دہ ہوں گے۔میاں برادران کے نیک ارادوں سے عیاں ہے کہ وٹو صاحب کی سیاست کے سالانہ عرس کی میعاد پانچ سال تک پھیل سکتی ہے۔ باجے کے پانچویں کالے(آخری سپتک یعنی انتہائی اونچے سروں) سے ٹاک شو کرنے والے ایک اینکر نے میاں منظور وٹو سے سوال کیاکہ صدرآصف علی زرداری کہتے ہیںکہ پیپلز پارٹی کو بین الاقوامی اوراندرونی سازش کے ذریعے شکست دی گئی ،آپ کے خیال میںپیپلزپارٹی کی شکست میںسب سے بڑی اندرونی وجہ کیاتھی؟ لوڈشیڈنگ…وٹو صاحب نے جواب دیا… لوڈشیڈنگ کی وجہ سے قاف لیگ 2008ء کا الیکشن ہاری تھی۔ اسی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہمیں2013ء کے انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔ پاکستانی قوم کی قسمت ملاحظہ فرمائیں کہ 2013ء کے مسیحا میاں محمد نوازشریف نے بھی کہہ دیاہے کہ… لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی تاریخ نہیںدے سکتا،خزانہ خالی ہوچکا ہے‘ قرض اتاریں یا بجلی ٹھیک کریں ،شہباز شریف جوشِ خطابت میں جو کہہ جاتے ہیںمیں نہیں کہوں گا… پنجاب میںسورج سوانیزے پر آچکاہے ،ملک میں30سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیاہے، لوڈشیڈنگ عروج پر ہے ،غریب مہنگائی اور گرمی کی شدت سے مررہے ہیں،متوسط طبقے میںشامل لوگ اپناپیٹ کاٹ کر یوپی ایس اورجنریٹر خریدنے کے لیے مارکیٹوں میں پہنچتے ہیںتو منافع خور اورجعل ساز انہیںہاتھوں اورپیروں سے لوٹنے میںمصروف ہیں،غریب علاقوں میںبائیس بائیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہے، دیہاتوں میںاندھادھند لوڈشیڈنگ ہے، لوڈشیڈنگ کے باعث برف بھی نایاب ہے ،چکیاںبند ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میںآٹے کابحران بھی پیدا ہوگیاہے… مسائل، دکھ درد، وسوسے، وعدے،امیدیں، توقعات اورکبھی نہ ختم ہونے والے اندیشے… اپنے دیس کے حالات تو مجید امجیدکے ’’جیون دیس‘‘ جیسے ہوگئے ہیں پیلے چہرے ‘ڈوبتے سورج ! روحیں‘ گہری شامیں! زندگیوں کے صحن میں کھلتے‘ قبروں کے دروازے! سانس کی آخری سلوٹ کوپہچاننے والے گیانی! ڈولتی محرابوں کے نیچے آس بھر ے اندیشے! بجتی ڈھولک‘ گاتی سیاں‘ نیر بہاتی خوشیاں‘ جاگتے ماتھے‘ سوچتے نیناں‘ آنے والے زمانے! ماہرین کا کہناہے کہ لوڈشیڈنگ کا بحران فوری طور پر ختم تو نہیںکیاجاسکتا لیکن اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو اسے ایک حد تک کم ضرور کیاجاسکتاہے۔ اندازے کے مطابق پاکستان میں اکیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ ہماری ضرورت سولہ ہزار میگاواٹ ہے۔اس کمی کوپورا کرنے کا پہلاطریقہ یہ بیان کیاجاتاہے کہ ایسے بااثر بجلی چوروں کو قانون کے شکنجے میںجکڑا جائے جوغریب اورمتوسط طبقوں کی بستیوں اورآبادیوں سے بجلی کا سارا ’’ٹرن آوٹ‘‘چرا لیتے ہیں‘ بجلی چراتے تو بااثر طبقات ہیںمگر ان کے بل عوام کو اداکرنے پڑتے ہیں۔تین روز قبل فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میںعوام کو بجلی کے فی یونٹ پر 1.55روپے مزید ’’جگا ٹیکس‘‘ ڈال دیاگیاہے۔ پوری دنیا کا اصول ہے کہ مختلف حکومتیں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتی ہیںمگر اس کے بدلے میں وہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں بھی مہیاکرتی ہیں۔ہمارے ہاں سی این جی سٹیشنوں پر قطاریں 2009 ء میں پہلی باردیکھی گئی تھیں مگر بھارت میںیہ سب کچھ میںنے 2000ء میںدیکھ لیاتھا۔بھارتی میڈیا حکومتوں پر تنقید ضرور کرتاہے مگر ان کا ’’رام نام ست ہے ‘‘ کرنے کے پروگرام میںشریک نہیںہوتا۔ جمہوری حکومتوں کا رام نام ست اورکریاکرم کرنے سے جمہوریت کبھی بھی توانا نہیںہوسکتی۔یادرکھنے کی بات ہے کہ میڈیا کی آزادی بھی جمہوریت کی صحت سے ہی مشروط ہے‘ آنے والے دنوں میںسیاسی قیادت کو آزادیٔ صحافت اورآزادیٔ اظہار کے ’’ورلڈ کپ ٹورنامنٹ‘‘کا سامنا بھی رہے گا۔شریف برادران وطن عزیز میںچاہے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں مگر انہیںاس الیکٹرانک میڈیا کا سامنا رہے گا جس کا نصب العین ریٹنگ کا حصول ہوگا۔ میڈیا میںایسے مسیحائوں کی کمی نہیں جن کا نظریۂ صحافت اورنظریہ ٔ حیات یہ ہے کہ ’’ریٹنگ کے لیے کچھ بھی کرے گا‘‘… لاہور میںفاتح میاں محمد نوازشریف نے نون لیگ کے فاتحین سے خطاب کرتے ہوئے سچی اورکھری باتیں کی ہیں۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد قوم سے سچ بولتے ہوئے بیان کیاہے کہ قومی خزانہ خالی ہے ،ہم نے 15سوارب کے قرضے ادا کرنے ہیں، قرضے ادا کریں یا بجلی ٹھیک کریں؟؟۔ میاں نوازشریف سچے لیڈر ہیں ، انہوںنے صاف کہاہے کہ میں شہباز شریف کی طرح جوشِ خطابت میں کوئی تاریخ بھی نہیںدوں گا، لیکن جوشِ خطابت میںشہباز کا مائیک گرانا بڑا اچھالگتاہے… زور کس پہ ہوا… بڑا اچھا لگتا ہے… اس سچوئیشن میںمجھے بھارتی فلم ’’تیرے نام ‘‘ کاوہ شہرہ آفاق گیت یاد آگیاجو بھارتی موسیقار اورمیر ے ٹوپی والے دوست ہمیش ریشمیا نے سلمان خان المعروف دبنگ خان کے لیے کمپوز کیاتھا… ’’تم سے ملنا، باتیں کرنا بڑا اچھا لگتا ہے… کیاہے یہ ؟کیوں ہے یہ؟ کیاخبر ،ہاں مگر ،بڑا اچھا لگتا ہے‘‘… پیار، محبت، کامیابی اور جیت جانے کے جذبات سے لبریز ،سحر ،جادواورمدہوشی کے لمحات میںسب کچھ بڑا چھا لگتاہے لیکن میاں برادران کو مسیحا بن کر پاکستان کے دکھیارے عوام کو درپیش لوڈشیڈنگ ، بھوک، ننگ، مہنگائی، دہشت گردی، معیشت کی بربادی سمیت ان گنت مسائل سے نجات دلانے کی مہمیز کا سامنا کرناہوگا۔ مسائل کا سوئمبر رچادیاگیا‘ اب میدان میں اترنا ہوگا… ایک طرف پیپلز پارٹی کی شکست کے اسباب جاننے کے لیے صدرزرداری کی سربراہی میں ’’بُلٹ پروف اجلاس‘‘ جاری ہیں۔ دوسری طرف بلاول ہائوس کے آہنی دروازے جیالوں او ر ٹکٹ ہولڈرز پر بندکردیے گئے ہیں۔پیپلزپارٹی ایسی بدقسمت جماعت ہے جس نے بھٹو، شاہ نواز، مرتضیٰ اوربے نظیر بھٹو کی قربانی دی مگر آج بھی اس کی لیڈرشپ کو آزاد اورمحفوظ سیاست کرنے کا اجازت نامہ مہیا نہیںکیاجارہا۔زرداری صاحب بلٹ پروف سیاست کررہے ہیں۔بلاول ،بختاوراورآصفہ کو اپنے ملک میں سیاست کرنے کا ’’این اوسی‘‘کیسے جاری ہوگا؟ میاں نوازشریف نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات کو سنجیدگی سے لیناچاہیے۔طالبان سے مذاکرات اوردہشت گردی کی جنگ سے متعلق میاں نوازشریف انتہائی سنجیدہ ہیں۔ان کے بیان سے لگتاہے کہ شاید اس سے قبل اس ’’اُم الامراض‘‘ کے خلاف سنجیدگی سے حکمت عملی طے نہیںکی گئی ۔دہشت گردی نے ہمارے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے،اس جنگ میںہم اپنے فوجی اورعام شہریوں کی 40ہزار زندگیوں کی قربانی دے چکے ہیں،ہماری معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ میاں نوازشریف تیزی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں، بی بی سی کے مطابق پرویز مشرف‘ نوازشریف کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے سے قبل باعزت رہائی پاجائیںگے، طالبان کے ساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھنے کے لیے میاں صاحب نے مولانا سمیع الحق سے تعاون مانگ لیاہے۔میاں صاحب اورطالبان کی اس نشست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر آصف زرداری کو اپنا ’’کیس‘‘ کلیئر کرانے کا معاہدہ بھی کرلیناچاہیے۔تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ زرداری صاحب اوران کے بچوں کو بھی محفوظ سیاست کرنے کی اجازت دی جائے اوراس کے بدلے میںوہ میاں صاحب کی کولیشن گورنمنٹ کو ’’جزیہ ‘‘ ادا کردیاکریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں