"TSC" (space) message & send to 7575

بجلی والا جن کیا کرنے والاہے ؟

سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد اب نہ کوئی بابائے صحافت رہاہے اورنہ کوئی صحافتی بال بھرم چاری (کنوارہ اورپارسا)، جن کی نظر کرم سے ہی آزادیٔ اظہار کے تمام تر تقاضے پورے ہوسکتے ہوں اورجن کے حرف تمنا سے ہی معروضیت کے تمام معنی اد ا ہوتے ہوں ۔’’ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے ‘‘کا تصور بھی اب پرانا ہوگیا ہے،عملی طور پر دنیا سکڑ کر آپ کے موبائل سیٹ میں سمٹ آئی ہے ۔ سائنس کی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشش یہ کرنا پڑتی ہے کہ آپ کو مہنگے والا ٹیلی فون سیٹ خریدنا پڑتا ہے ۔اگر mobile snatchers (سرراہ موبائل چھیننے والے) سے آپ کا آمنا سامنا نہ ہو، اورخوش قسمتی سے موبائل محفوظ رہے تودنیا آپ کے سامنے سمٹی ہی رہتی ہے۔ پیارے وطن میںبہر حال ایسا ممکن ہے کہ اگر آپ موبائل snatchers سے بچ بھی جائیںتو آپ کا مینڈیٹ چھین لیاجاتاہے۔یہ تازہ واردات عمران خان سکنہ زمان پارک کے ساتھ پیش آئی ہے جنہیں الیکشن 2013ء کا ہاٹ فیورٹ سمجھا جارہاتھا مگر کپتان سے وہ مینڈیٹ چھین لیاگیاجس کا انہیںحقدار خیال کیاجارہاتھا۔سیاست اورصحافت کے ’’آئی پی ایل‘‘ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ قومی مفاد ، ملکی سلامتی اورجمہوریت کے فروغ کے لیے الیکشن 2013ء کے نتائج کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسی میںہماری بھلائی ہے۔ہمارے میڈیائی رہبر یہی بتارہے ہیںکہ پاکستان کی تاریخ میںپہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اوراس نے اقتدار دوسری حکومت کو منتقل کیاہے۔خدا کرے ہم اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہوںمگر کبھی کبھی رہبروں کے لہجے سے یوں لگتاہے کہ ہم شاید اپنی منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔شکیب جلالی نے کہاتھاکہ ضرور دھوکے میں منزل سے دور آ پہنچے جھجک رہا ہے بہت راہبر بتانے میں میں گجرانوالیہ ہوں۔اس شہر کی لنکاڈھاتے ہوئے اچھا تونہیںلگتالیکن بھیدی ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیںکہ انسان سچ بات نہ کرے۔ چندماہ قبل نون لیگ کے مدثر قیوم ناہرا ضمنی الیکشن میں کئی ہزار ووٹوں سے ہارے تھے حالانکہ اس معرکے کے سپہ سالار وزیر قانون راناثناء اللہ تھے۔سوچنے کی بات ہے کہ ان چھ ماہ میںگجرانوالہ کی تزئین وآرائش کرتے ہوئے وہاں کونسا ایفل ٹاور یا بُرج خلیفہ تعمیر کردیاگیاہے؟ گجرانوالہ میں میرے عزیز واقارب نے پی ٹی آئی ، نون لیگ اورپی پی پی کو ووٹ دئیے ۔ سب سے زیادہ ووٹ عمران خان کو دئیے گئے مگر پہلوانوں کے اس شہر سے نون لیگ فاتح قرار پائی ہے۔ پارٹی ہٰذا کے ایک انجینئر صاحب نے ایک لاکھ 6ہزار ووٹ حاصل کیے ۔پی ٹی آئی کے ایس اے حمید نے ایک ٹاک شو میںکہاکہ اتنے ووٹ تو انجینئر پہلوان کے والد صاحب نے بھی نہیںلیے تھے ، موصوف نے کیسے لے لئے ؟دوروز قبل میںگجرانوالہ گیاتھا۔اس شہر کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں میںآنسو آگئے۔یہ سچ ہے کہ گجرانوالہ کبھی بھی پیرس نہیںتھا مگر گزشتہ کچھ عرصہ میںتویہ شہر ایک تھڑا اورچھپڑ (جوہڑ) بن کررہ گیاہے۔جی ٹی روڈ یونس پہلوان کے اڈہ سے لے کر گوندانوالہ چوک تک شہر کا نقشہ بالکل تباہ کردیاگیاہے۔اسی طرح سیالکوٹی دروازہ کے سامنے ریلوے پھاٹک کے مشرق میں واقع دیوی والا تالاب اورپھاٹک سے لے کر پولیس لائن تک شہر کو پل کے نیچے دفن کردیاگیا ہے ۔گجرانوالہ کی کونسی سڑک ،کونسا محلہ اورکونسی گلی ہموار اورسیدھی ہے ، اس کے باوجو د ایک لاکھ چھ ہزار ووٹوں کا ملنا الیکشن کے سارے عمل کوایسے ہی مشکوک بناتاہے جیسے کوئی خالص ماجھے کے دودھ(بھینس کے دودھ) میں مینگنی ڈال دے ۔الیکشن 2013ء کے فسانے ایسی عذرداریوںسے لبریز ہیں،لہٰذا تھوڑے کوہی زیادہ سمجھاجائے ،شکیب جلالی نے ہی کہاتھاکہ خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں ’’کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائوں ‘‘ والی سچویشن سے آگے بڑھیں تو کانوں میںکچھ ایسی آوازیں بھی پڑتی ہیں۔چودہ سال بعد میاں نوازشریف قومی اسمبلی میںجلوہ گر ہوئے ہیں۔بتاریخ 25رجب المرجب 1434ہجری یعنی مورخہ 5جون 2013ء کو میاں نوازشریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدہ ٔجلیلہ پر براجمان ہوجائیںگے۔میاں صاحب نے خدا کا شکر ادا کیاہے کہ انہیںسمجھوتوں والی حکومت سے نجات مل رہی ہے۔انہوںنے یہ بھی فرمایاکہ اگر انہیںایسی حکومت میسر نہ آتی تو بہتر ہوتاوہ اپوزیشن میںبیٹھتے۔میاں نوازشریف نے کہاہے کہ خداتعالیٰ کی ذات پاک ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے ۔یوں تو ہم بحرانوں میں گھری ہوئی قوم ہیں لیکن دہشت گردی ،بجلی کی عدم دستیابی، مہنگائی اور بے روزگاری نے حالات دگرگوں کررکھے ہیں۔ عام اور خاص اندازوں کے مطابق بجلی کے شدید بحران اورلوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ بجلی کی چوری بھی ہے۔بجلی کی یہ چوری کراچی سے لے کر خیبر تک جاری وساری ہے۔ میاں صاحب اور ان کی پارٹی کو ملنے والے مینڈیٹ سے سراغ ملتا ہے کہ اب بجلی کی چوری کی روک تھام ہو کر رہے گی ۔ میاں صاحب کو حکومت سازی کے لیے متحدہ کی ضرورت نہیںہے اس لیے امید کی جارہی ہے کہ وہ کراچی میں بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کلین اپ کرسکیںگے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہوگا کہ بجلی کے بحران نے جنرل مشرف کی حکومت کو عوام میں غیر مقبول بنایا اورپیپلز پارٹی کی پوزیشن بھی غیر مستحکم ہوئی۔ بجلی کے اس بحران کے تسلسل نے ہی پیپلز پارٹی کی شکست کو ’’ڈبل ایکشن ‘‘ کیا۔صدر زرداری کا کہناہے کہ الیکشن 2013ئمیں انہیںپاک ایران گیس معاہدہ کی سزا کے طور پرشکست ہوئی۔ماضی میںپیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے پر ’’عدالتی قتل ‘‘ کی سزاد ی گئی اور34سال بعد قوم کو بجلی کے بحران سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش پر اس کے سیاسی مقدر میںبدترین شکست لکھ دی گئی۔سیاسی جماعتیں انتخابات کے ذریعے اوربعض اوقات پاکستان میںرائج دوسرے طریقوںسے ملٹری حکومتوں کاحصہ بنتی رہی ہیں۔بدقسمتی سے قومی میڈیا میںشامل بعض حلقے انہیں’’این او سی ‘‘جاری کرتے رہے ہیںجو ہمارا ایک قومی المیہ رہاہے۔یہ پریکٹس آج بھی جاری ہے لیکن اس کی تعداد میںاچھی خاصی کمی واقع ہوچکی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے رواج نے اس میڈیا کی حیثیت ’’ون اینڈ اونلی‘‘ نہیںرہنے دی جو ایک انقلاب ہے۔ نواز حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کا ٹاسک خواجہ محمد آصف کو سونپ رہی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ بجلی چوروں اورکنڈابازوں کو نکیل ڈال کر ان سے بل کیسے وصول کرتے ہیں؟تہمینہ دولتانہ نے شہباز شریف کو بجلی بحران پر قابو پانے والا جن قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ …شہباز شریف ہمارا جن ہے ، وہ بجلی کے بحران کے جن کو بوتل میںبند کردے گا۔خدا کرے میاں شہبازشریف لوڈشیڈنگ پر قابو پانے والا جن ثابت ہوں۔اس ضمن میںمیاں نوازشریف کا وہ بیان بھی ذہن میںرکھنا چاہیے جس میںانہوں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی بابت شہباز شریف کے جوش ِخطابت میںدی گئیں تاریخوںکومسترد کیاتھا۔ خدا کرے شہباز شریف تہمینہ دولتانہ کی توقعات پر پورااترتے ہوئے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں ۔کہیںایسا نہ ہو جیسا ہندوانے (تربوز) والے جن نے کیاتھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص گرمی کی شدت کوکم کرنے کے لیے نہر پر نہارہاہوتاہے کہ اسے ایک تربوز ملتاہے جس میں سے جن برآمد ہوتاہے۔جن بڑے ادب سے جھک کر کہتاہے ’’کیاحکم ہے میرے آقا؟‘‘وہ شخص چونکہ بے گھر ہوتاہے جن کی پیشکش سن کر اسے کہتاہے ’’ہمارے لیے مکان کا بندوبست کرو‘‘جن یہ سن کر جھک کر کہتاہے۔’’ میرے آقا میں تو خود تربوز میںرہائش رکھے ہوئے ہوں ،آپ کے لیے مکان کا بندوبست کہاں سے کروں؟‘‘خدا کرے ہمارے جمہوری جنات ایسا کوئی عذر پیش کرکے ہمارے خوابوں کی تعبیر کو غلط ثابت نہ کردیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں