"TSC" (space) message & send to 7575

میاں صاحب اور ’’جمہوری ٹرانزٹ‘‘ قیدی

میاں نواز شریف صاحب کو اب متوقع وزیر اعظم لکھنا اچھا نہیں لگتا۔ وہ شوئرشاٹ ہمارے وزیر اعظم ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہمارے مڈل اور میٹرک کے امتحانات کے دنوں میں ایک شوئرشاٹ گیس پیپر شائع ہوا کرتا تھا۔ میرے جیسے کئی ایک نیم خواندہ انہی گیس پیپروں پر عمل پیرا ہو کر اس ’’مقام فیض‘‘ تک پہنچے ہیں۔ وطن عزیز میں یہ گیس پیپر کتنے کارگر ثابت ہوتے ہیں اس سے پہلے مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکا تھا۔ ان دنوں ٹیلی وژن پر میاں نواز شریف کو بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ وہ چودہ سال کے توقف سے قومی اسمبلی کی عمارت میں متحرک ہیں جبکہ ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والا ڈکٹیٹر اپنے فارم ہائوس میں ’’ٹرانزٹ قید‘‘ کاٹ رہا ہے۔ یہ ’’ ٹرانزٹ قیدی‘‘ اگرچہ فائیو سٹار جیل میں قیدی ہونے کی ایکٹنگ کر رہا ہے پھر بھی اس سارے ڈرامے کو عزت افزائی ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدر آصف علی زرداری کے پینل انٹرویو میں سوال کیا گیا جسے میں نے اپنی ذاتی ڈکشن کا تڑکا یوں لگایا ہے کہ… جناب صدر! جنرل پرویز مشرف، میاں نواز شریف کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے سے قبل اسلامی جمہوریہ سے سدھاریں گے یا ان کا ڈولا بعدازاں رخصت ہو گا… افہام و تفہیم کے منبع اور ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے ہول سیل علمبردار آصف علی زرداری نے اس سوال پر گیند میاں نواز شریف کے کورٹ میں پھینک دی… قارئین ! آپ کو تو پتہ ہے ہمارے ہاں کورٹ اورکورٹ مارشل دونوں جمہوریت میں ہی متحرک ہوتے ہیں اس لیے جنرل صاحب کو ’’ستے ای خیراں نیں‘‘ (سات اقسام کی خیروعافیت)۔ شگنوں کے اس سنہری موقع پر ایسی ویسی بات کرنی تو نہیں چاہیے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اصل جمہوریت کب فروغ پائے گی؟ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک نہیں پہنچ پاتی اور میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ہیوی مینڈیٹ وزیر اعظم منتخب ہو کر بھی اس ڈکٹیٹر کا بال بیکا نہیںکر سکتے۔ وطن عزیز میں بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد یہ طریقہ کار رواج پا چکا ہے کہ قاتلوں کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ آپ جمہوریت کی ایک ٹرم انجوائے کر لیں۔ لگتا ہے سابق جنرل پرویز مشرف کی رہائی بھی جمہوریت کی بقا کے اسی بطن سے پیدا کر لی جائے گی۔ قوم کو جمہوریت کی جانب نیا سفر مبارک ہو، جس دن یہ کالم چھپ کر آپ کے سامنے ہو گا اس روز میاں نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے… سبحان اللہ کیا منظر ہو گا۔ میاں صاحب کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک کرنے پر حضرت علامہ اقبالؒ کی شہرہ آفاق نظم ’’سلمیٰ‘‘ (محبوبہ ) سے شعر ملاحظہ ہو جو قومی منظر نامے کے حسب حال ہے ؎ جس کی نمود دیکھی چشمِ ستارہ بیں نے خورشید میں، قمر میں، تاروں کی انجمن میں صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ میاں نواز شریف بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح متفقہ وزیر اعظم منتخب ہوں۔ زرداری صاحب نے اس طرح اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے یا طعنہ دیا ہے‘ اسے سمجھنا نکتہ دانوںکا کام ہے تاہم متحدہ اور ان کے قائد الطاف حسین کا مسئلہ سیدھا سادا ہے۔ متحدہ اور الطاف بھائی ملک میں جمہوریت کا فروغ اور اس کی بقا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اب بھی یہ نہیںدیکھا کہ نون لیگ کے ساتھ ان کے تعلقات ماضی قریب اور ماضی بعید دونوں صورتوں میں کشیدہ ہی رہے ہیں‘ لیکن انہوں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے نون لیگ کی سیاسی سمدھن بننے کا اظہار کر ڈالا۔ نون لیگ کی حکومت نے اس نئی رشتہ داری کی بابت ہاں یا ناں نہیںکی، لیکن میاں صاحبان اور ان کی جماعت کے بڑے بوڑھے جانتے ہیں کہ چٹ منگنی اور پَٹ بیاہ کے فارمولے میں پِٹ جانے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ہاں کرنے سے پہلے دیکھ بھال لینا چاہیے۔ ویسے بھی قومی سیاست کی سینما سکوپ فلم میں لڑکی اور لڑکے کے چال چلن کی بابت بہت سے واقعات اور حقیقتیں زبان زدعام ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ’’ساس‘‘ جیسی حکومت کو اس کی اہل زبان ’’بہو‘‘ نے کیسے ناکوں چنے چبوائے تھے… میاں صاحبان کو ہمیشہ یاد رکھنا ہو گا کہ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ اور مارکیٹ میں ’’جسی جیسی کوئی نہیں‘‘ اس کے ساتھ ساتھ اگر ’’ہٹلر دیدی‘‘ کی کامیابی پر بھی نگاہ رکھی جائے تو پارٹی ہٰذا کو فائدہ رہے گا۔ 3جون 2013ء یعنی 23 رجب المرجب 1434 ہجری کے سہانے دن ملک میں نئی پارلیمانی صبح کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب سے قبل تمام سیاسی جماعتوں نے یہ عہد کیا کہ وہ ہمیشہ آئین کا تحفظ کریں گی‘ آئندہ کسی قانون شکن کو آئین شکنی کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی قانون توڑنے والے کا ساتھ دیں گی۔ نئی نویلی قومی اسمبلی‘ جس کے ہاتھوں میں ابھی جمہوریت کے شگنوں کی تازہ مہندی کا رنگ کافی گاڑھا ہے‘ میں محمود اچکزئی کی طرف سے پوائنٹ آف آرڈر پر تھوڑا کڑوا بولنے سے اس کے رنگ کچھ پھیکے پڑ گئے۔ اچکزئی صاحب نے جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ تمام ممبران نے نئے آئین کے دفاع اور اسے برقرار رکھنے کا حلف لیا ہے لیکن اگر یہ صرف مکالمے بازی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی آئین اور قانون کی بالادستی کے حلف اٹھائے گئے مگر ڈکٹیٹروں نے اسے بار بار پامال کیا اور سیاستدان اس فعل میں ان کے ہمنوا بنے رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ ہو کل پھر کوئی جرنیل اس راستے پر چل پڑے۔ اچکزئی صاحب نے کہا کہ ایوان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے ماضی میں جرنیلوں کا ساتھ دیا… ہائے ہائے ہائے، اچکزئی بابا نے کیا بات کہہ دی‘ یوں لگا کہ سارے فسانے اور ساری داستانیں ہی بیان کر دی ہوں ؎ ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی آپ شرمندہ نہ ہوں، یہ میرا ہی افسانہ تھا اچکزئی بابا چونکہ بھیدی ہیں‘ اس لیے احتیاطاً تجویز کر رہے تھے کہ سب ممبران خدا کو گواہ بنا کر یہ عہد کریں کہ اگر آئندہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی اور اسے توڑا گیا تو کوئی رکن ڈکٹیٹر کا ساتھ نہیں دے گا۔ باباجی نے اس ضمن میں رعایتی پیکج دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے چھوڑ دیں آئندہ کے لیے کوئی کسی آئین شکن جرنیل کا ساتھ نہیں دے گا۔ خوش نصیبی سے نئی نویلی اور2013ء ماڈل قومی اسمبلی کو جو رعایتی پیکج دیا گیا ہے ایسی ہی بمپر آفر ہمارے دکاندار حضرات اپنے گاہکوں کو ’’سیل سیل کلیرنس سیل‘‘ پیشکش میں دیا کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال سے مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب 1988ء میں ایک اخبار سے بطور فیچر رائٹر وابستہ تھا اور ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے صحافت بھی کر رہا تھا۔ اس زمانے میں انارکلی بازار ہی ہمارے لیے شانزے لیزے آف پیرس ہوا کرتا تھا۔ انارکلی میں ان دنوں تھڑوں پر سجائے گئے ’’شاپنگ مال‘‘ ہماری عقابی نگاہوں کا مرکز ہوا کرتے تھے جن پر آویزاں بینروں پر لکھا ہوتا تھا کہ ’’لوٹ سیل، لوٹ لو پروگرام کے ساتھ‘‘۔ معزز اراکین کے لیے بھی اچکزئی آفر ’’لوٹ لو‘‘ پروگرام سے کم نہیں۔ ممبران اس جمہوری آفر سے فائدہ اٹھا کر اپنے پیراہن سے آمری دور کے سارے داغ دھبے صاف کرا سکتے ہیں۔ بقول اچکزئی ایوان آمروں کے ساتھیوں سے بھرا پڑا ہے مگر چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، شیخ رشید اور دوسرے احباب کو اس سستے جمہوری ڈرائی کلین پیکج سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ اسمبلی میں چوہدری نثار، خواجہ محمد آصف، شاہ محمود قریشی اور مخدوم امین فہیم نے جمہوریت کے خلاف کسی متوقع آئین شکنی کی مخالفت کی جبکہ فاروق ستار نے کہا کہ آئین کی 280 شقوں پر پوری طرح عمل درآمد کی قسم اٹھائی جائے۔ اس یادگار موقع پر ’’مرحوم مرد مومن مرد حق‘‘ کے سپوت اعجازالحق نے کہا کہ ملک کی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کیا جائے، ڈرون حملے جاری ہیں، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی بابت جو فیصلے پارلیمنٹ میں کیے گئے ان پر عمل درآمد نہیںکیا گیا… فرزند مرد حق کا کہنا بجا ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملوں سمیت دہشتگردی کے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ’’ایگری منٹ‘‘ ان کے والد گرامی نے کیے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں