"TSC" (space) message & send to 7575

ریکارڈز

اخبارات کے پلندے سے سرخیاں ہماری زندگی میں یوں انقلاب برپا کیے ہوئے تھیں۔ہمارے ہیٹر ک فیم وزیر اعظم نے فرمایاتھاکہ ’’ڈرون حملے ہر صورت بند کیے جائیں، کئی بار احتجاج کرچکے ہیں: نوازشریف‘‘۔ مذکورہ سرخی اخبار کی لیڈ کے طورپر نمایاں تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے فرمان کو یوں سپر لیڈبنایاگیاتھاکہ ’’اب مقتدر قوتوں کو جمہوریت کے ذریعے ہی آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔اردو اخبار کے لے آئوٹ میں لیڈاورسپر لیڈ کی ہی گنجائش ہوتی ہے۔ایک ہی روز اگر تیسرا فرمان بھی جاری ہواورآزادی ِاظہار کے علمبرداروں پر یہ لازم ہوکہ اسے بھی نمایاں طور پر شائع کرنا ہے تو کہنہ مشق اس کے گرد حاشیہ لگا کر یوں نمایاں کرتے ہیں ’’صحت اورتعلیم کے شعبہ میں سیاسی مداخلت پہلے برداشت کی نہ آئندہ کریں گے :شہباز شریف‘‘۔اسے کہتے ہیںمیڈیا مینجمنٹ عرف گڈگورننس …دیکھو ،دیکھو کون آیا،شیر آیاشیر …شیر توآگیا مگر بجلی نہیںآئی۔ نون لیگ کی نئی نویلی حکومت سے یہ توقع نہیںکی جاسکتی کہ وہ الہ دین کا چراغ رگڑ کر عوام کے دکھ درد دور کردیں گے ،لیکن تازہ دم وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف کو عوام کا مورال ڈائون بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ بجلی کے معاملہ میں میاں برادران نے بالترتیب 6ماہ ، ڈیڑھ سال اور3سال کی مدت کے اعلانات کیے تھے جس کی تشہیر پیپلز پارٹی نے ’’ذاتی خرچے‘‘ پر خوب کی تھی۔ مگر اب خو اجہ بہادر حقیقت سرا ہوئے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے کے خاتمے میں ہفتے یا مہینے نہیں سال لگیں گے۔انہوں نے یہ بھی فرمایاہے کہ پیپلز پارٹی کو 5سال ملے تھے اس نے ضائع کردئیے ۔ان حالات میں تو میاں صاحب اوران کی ’’سلور جوبلی کابینہ‘‘( 25وزراء والی ) پر یہ لازم ہوجاتاہے کہ پی پی پی کے ’’ گناہوں‘‘ کا بھی ازالہ کریںکیونکہ ان کی کارگزاری بھی تو جمہوریت کے کھاتے میںلکھی گئی ہے۔ویسے بھی الیکشن 2013 ء کے کھڑکی توڑ اور مینڈیٹ جوڑ انتخابات کے حوالے سے عوام کو ایسی ،ایسی سیاسی لوریاں سنائی گئی تھیں جن کی مدھرتانوں میں انہوں نے ایک ایسی زندگی کے خواب دیکھے جو مشکلات سے ماوراء تھی ؎ چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو دعاہے کہ پاکستان میں بسنے والے بنی آدم کی زندگی منیر نیازی کی طرح مشکل میں نہ گزرے اورجمہوریت اسے راس آجائے۔منیر نیازی کے اندیشوں کے مطابق منزل تک پہنچنے کے لئے کیاگیاسفر اکثر یوں ضائع بھی ہوجایاکرتا ہے ؎ آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائگاں تو ہے پاکستان میں جمہوری اور فوجی طرز کی حکومتوں کے پے درپے تجربات کیے گئے ہیں اورنتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔عوام کو خوشحالی ، امن ، سلامتی اوردیگر بنیادی سہولتوں میں سے کچھ بھی میسر نہیںہے۔میاں صاحب سے قبل پیپلز پارٹی کے وزیرا عظموں کی جوڑی ( گیلانی و راجہ ) دونوں ڈرون حملوں کے بعد ایک احتجاجی بیان جاری فرماتے تھے۔یہ حقائق بھی سامنے آچکے ہیںکہ امریکیوں کو ڈرون حملے کرنے کی اجازت ہمارے ’’فائیوسٹار اورٹرانزٹ قیدی‘‘ پرویز مشرف نے دے رکھی تھی۔ قوم کو یہ بتاناچاہیے کہ ہماری فوج اورسیاسی الیٹ اس قدر قوت افزا نہیں کہ وہ امریکی ڈرون کو بزورطاقت روک سکے۔پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ جیسی بھی تھی یہ تسلیم کرتی تھی کہ وہ سپر پاور سے لڑنہیں سکتی ۔لیکن اس کے برعکس نون لیگ ،پی ٹی آئی اورمولاجٹ ثانی ہماری دیگر لیڈر شپ عوام کو سچ بتانے سے گریزاں رہتی ہے۔مولاجٹ ٗ ٹرمینیٹر کا مقابلہ نہیںکرسکتی ٗ ٹرمینیٹرسے نبٹنے کے لیے سپر مین ہونا ضروری ہے اوراگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم سپائیڈر مین تو بننا ہی پڑے گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمیں سپائیڈر مین بننا زیادہ سوٹ کرے گاکیونکہ اسکے پیکج میں اڑان بھرنے کے ساتھ ساتھ رینگنا بھی شامل ہوتا اوراپنی اس صلاحیت سے وہ بڑی بڑی بلند عمارتوں اورایوانوں پر چڑھ جاتاہے۔ میاں نوازشریف صاحب وہ خوش قسمت رہنما ہیںجنہیںتیسری بار وزارت عظمیٰ کا تاج پہنایاگیاہے۔اگرچہ انتخابات کے نتائج پر ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہارکیاہے لیکن سبھی نے یہ گنجائش بھی پیدا کی ہے کہ نظام کو آگے بڑھنے دیا جائے تو حالات میں بہتری واقع ہوگی۔میاں نوازشریف صاحب نے اپنی سلورجوبلی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی ہدایت جاری فرمائی ہے کہ وقت ضائع کیے گئے بغیر کام کیے جائیںگے ۔تین ماہ بعد ہر وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے گا،اگر وزراء اپنے اہداف پورے نہ کرسکے تو ان سے ذمہ داری (وزارت) واپس لی جاسکتی ہے۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے تو ابھی سے کارکردگی کامظاہر ہ شروع کردیاہے۔ان کی وزارت کے زیر اہتمام چلنے والی عوام ایکسپریس اورہزارہ ایکسپریس 15گھنٹے تاخیر سے بہاولپور سٹیشن پہنچی تو دوہزار سے زائد مسافروں کی بریانی اورٹھنڈے منرل واٹر سے تواضع کی گئی۔ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں نمبر ٹانکنے اورلیٹ نکالنے کی اصطلاحات مقبول ہیں۔نمبر ٹانکنے سے مراد یہ ہوتاہے کہ اہلکار کا شناختی نمبر حاضری بورڈ پر تونمایاں ہوتاہے مگر وہ خود غیر حاضر ہوتاہے ،جبکہ لیٹ نکالنے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ جب کوئی ٹرین لیٹ ہوجائے جو اکثر ہوتی رہتی ہیںتوپاور مین (ڈرائیور) روٹین کی سپیڈ سے زیادہ تیز ٹرین چلاکر منزل تک پہنچنے کی تگ ودو کرتاہے ۔ڈرائیو ر کی اس پھرتی اورفرض شناسی کو( لیٹ نکالنا) کہتے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ خواجہ سعد رفیق ریلوے جیسے بگڑے ہوئے محکمے کو درست کرنے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائیںگے۔ انہیںاسے دوبارہ منافع بخش بنا نے کے لیے بھر پور انداز سے خواجہ گیری دکھانا ہوگی ؟جہاں تک ریلوے کے زرّیں اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی بات ہے تو عوام اورہزارہ ایکسپریس کے مسافروں کے سفرمیں 15گھنٹے کی تاخیر والے کیس میں تو نمبر ٹانکنے اور لیٹ نکالنے والے دونوں فارمولے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ و طن عزیز کی تاریخ کے حوالے سے میرے دماغ کے البم میں کچھ تصویریں بچپن سے محفوظ ہیں ۔ان میں ایک تاریخ ساز تصویر کا اوراضافہ ہوگیاہے۔یہ تصویردوبھائیوں یعنی میاں نوازشریف اورمیاں شہباز شریف کی ہے۔نوازشریف وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا نے کے بعد لاہور پہنچے تو شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ ان کا استقبال کیا۔دونوں بھائی ایک دوسرے کو گرم جوشی سے ملتے ہوئے بھر پور انداز سے مسکرا رہے ہیں۔خدا کرے میاں برادران یونہی مسکراتے رہیںاور ان کی خوشیوںکے ٹریکل ڈائون اثرات غریبوں تک بھی پہنچیں۔ صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے نومنتخب وزیر اعظم نواز شریف کو مبارکباد دی تو میاںصاحب نے یہ مبارک باد ڈیسک بجا کرقبول کی۔ اس موقع پر ایوان میں پارلیمانی جمہوریت کی سنجیدگی اور گرم جوشی کا مظاہر ہ دیکھنے کو ملا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنی والی اسمبلی اوروزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کاخطاب بھی یاد آیا۔اس وقت لگ رہاتھا کہ جمہوری قوتیں مضبوط ہوگئی ہیںاور اب یہ اکٹھی ہوکر عوام کے مسائل حل کریںگی ،لیکن اس کے بعد سیاسی محاذ آرائی شروع ہوگئی۔وزارت عظمیٰ کی ہیٹر ک کرنے والے ریکارڈ ساز وزیراعظم میاں نوازشریف کو جمہوریت کی اصل سپرٹ پر عمل پیرا رہتے ہوئے عوام کے مسائل حل کرنے کے ریکارڈ قائم کرنا ہوں گے۔عوامی مسائل حل کرنے کے ریکارڈز اسی صورت ہی بنائے جاسکیںگے جب جمہوری قوتیں باہم مل کریہ جنگ لڑیں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں