"TSC" (space) message & send to 7575

’’جوبلی کماروں‘‘ کو مشورہ

بھاری مینڈیٹ کی مہندی ابھی خشک نہیںہوئی تھی کہ نون لیگ کی لاڈلی بنورانی حکومت کو طعنے ملنے لگے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ نے ایک بار پھر کہاہے کہ کچھ دنوں بعد لوگ ہمارے دور کو یاد کرکے کہاکریں گے ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ خورشید شاہ سے پہلے یہ استھائی ( موسیقی کی زبان میں شعری مکھڑا)صدر زرداری صاحب نے الاپی تھی۔ صدر زرداری اور میاں نوازشریف کی سیاست میں فرق کیاہے ؟ صدر زرداری افہام وتفہیم کے بادشاہ ہیں اورسیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیںجبکہ میاں نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ جب ہیٹر ک کرتے ہیںتو سوئس مقدمات کے بارے میں فرماتے ہیں… کھول دو… سوئس کیسز کی حقیقت کیاہے اور آپ نے اس بارے میں سوئٹرز لینڈ حکومت کو درخواست کیوں نہیںدی ؟ یہ سوال میں نے 2010ء میں جنرل پرویز مشرف سے لندن میں کیاتھا۔جنرل صاحب نے فرمایاتھاکہ سوئس کیسز فرضی داستان ہے ،میری حکومت نے سوئس حکام سے کئی بار رابطہ کیاتھا،جس پر انہوں نے بتایاتھاکہ یہاں کوئی رقم پڑی نہیںہے ، یہ سب داستانیں ہمیں پاکستانی میڈیا کے ذریعے سننے کو ملتی ہیں۔جنرل مشرف نے کہاتھاکہ ان فضول کیسز کی بیرون ملک تفتیش کرنے پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے جس کے بدلے میں پاکستان کو ایک دھیلے کا فائدہ نہیںہوا۔ جنرل مشرف وطن عزیز سے برطانیہ سدھارگئے جس کے بعد تقریباً پانچ سال تک حکومت اورعدالتوں کے درمیان خط لکھنے کے معاملہ پر رسہ کشی ہوتی رہی۔ اگرچہ ان پانچ برسوں میں عدالت اورحکومت کے درمیان دوسرے معاملات بھی آڑے آتے رہے مگر زیادہ عرصہ چھپن چھپائی اسی تنازع پر ہوتی رہی۔پیپلز پارٹی کے تاریخ ساز مینڈیٹ یافتہ وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے جرم میں نااہل ہوئے۔ سوئس کیسز والا ’’سیکنڈل‘‘ قدیمی ہے،یہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف اس وقت ’’مینوفیکچر ‘‘ کیاگیا جب میاں صاحب ایک عدد ’’احتساب فونڈری‘‘ کے مالک بھی ہوا کرتے تھے۔اس ترقیاتی پراجیکٹ کے رو ح رواں سیف الرحمن نے احتساب الرحمن کے نام سے ’’شہرت‘‘ پائی تھی۔ احتساب اورمقدمات کی حقیقت کیاتھی ؟اس بارے میں برادرم سہیل وڑائچ کی کتاب ’’غدار کون؟‘‘ کے لئے میاں نوازشریف کا انٹرویو بہت اہم ہے جو اس کتاب کے صفحہ 194پر یوں درج ہے: ’’میاں نوازشریف صاحب سے جب سوال کیاگیاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف احتساب درست تھا؟نوازشریف نے صاف گوئی سے کہاکہ احتساب کا طریقہ کار غلط تھا۔ہمیں اس حوالے سے اکسایا گیا تھا‘ فوج اورآئی ایس آئی کا ہم پر دبائو تھا۔ جان بوجھ کر ہم سے بے نظیر اوراپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات کروائے گئے تاکہ سیاست دانوں کا اعتبار ختم ہوجائے‘‘۔ مذکورہ کتاب کے اسی صفحہ پر میاں صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا: ’’آصف زرداری کو ہماری حکومت نے ایک بار بھی گرفتار نہیںکیاتھا۔میں تو بے نظیر بھٹو کو بھی گرفتار کرنے کے حق میں نہیںتھا۔سیف الرحمن شورمچاتاتھاکہ بے نظیر بھٹو کو گرفتار ہونا چاہیے‘ لیکن چوہدری شجاعت گواہ ہیںکہ میں نے کہاتھاکہ محترمہ بے نظیر سزا ہونے سے پہلے ہی بیرون ملک چلی جائیں تاکہ انہیںجیل نہ بھیجنا پڑے۔ میں خود محترمہ کو جیل بھیجنے کے خلاف تھا‘‘۔ قارئین کرام ! سوئس مقدمات کے حوالے سے کتابی حوالوں کے ساتھ ساتھ ایک عدد کالمی ریفرنس بھی پیش کرنا چاہتاہوں۔ یہ عظیم المرتبت کالمانہ تحریک ان دنوں صفحہ قرطاس کی زینت بنی تھی جب وطن عزیز میں افہام وتفہیم کی جمہوری پینگیں چڑھائی جارہی تھیں۔ قوم کو جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ آمرانہ دور سے نجات ملی تو یوں لگ رہاتھاجیسے اب دکھیارے عوام کے دن بدل جائیں گے۔قومی رہنما اس طرح جمہوری سپرٹ کا مظاہرہ کررہے تھے جیسے سیاست ،ذہانت ،متانت ،ثقافت اوردیانت ان کے گھر کی لونڈیاں ہوں اورسقراط سمیت ارسطو جیسے شہ دماغ ان کے لونڈوں میں شامل ہوں۔ایک کالم کا مرکزی پلاٹ مجھے آج بھی یاد ہے جس میں انکشاف کیاگیاتھاکہ سیف الرحمن نے میاں برادران کو بتائے بغیر آصف زرداری کو لاہور ائیر پورٹ پر قتل کرانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔پلان کے مطابق آصف زرداری کو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور ہائی کورٹ پیش ہونا تھا جس کے لئے انہیںلاہور ائیر پورٹ پر لایاجانا تھا۔لاہور ایئر پورٹ پر آصف زرداری کو قتل کرانے کی سپاری دے دی گئی تھی مگر عین وقت پر میاں شہباز شریف کو اس منصوبے کا علم ہوگیا جو فی الفور اس کو وزیراعظم میاں نوازشریف کے علم میں لائے اوریوں آصف زرداری کی جان بخشی ہوگئی۔ تفتیشی کالم میں یہ درج نہیںتھاکہ وزیر اعظم نے سیف الرحمن کے مذکورہ مجرمانہ فعل پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کروانامناسب کیوں نہ سمجھا؟ شاید میاں برادران بھی بعض اوقات پیپلز پارٹی کے اس’’ عظیم فلسفۂ سیاست‘‘ پر ایمان لے آتے ہیںکہ ’’ہیٹر ک کرنا ہی بہترین انتقام ہے‘‘۔ سوئس مقدمات کے نام پر ایک مرتبہ پھر قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایاجارہاہے۔میاں برادران ماضی میں خود تسلیم کرچکے ہیںکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کیسز بدنیتی پر مبنی تھے جوآئی ایس آئی اورفوج کے دبائو پر احتساب الرحمن نے قائم کئے ۔آغاز میں یہ تمام مقدمات محترمہ بے نظیر بھٹو پر قائم کئے گئے تھے۔آصف زرداری کو یہ تمام مقدمات محترمہ کے قتل کے بعد ’’اثاثوں ‘‘ کی شکل میں منتقل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کا ترکہ، اثاثہ اوروراثت قتل یا شہادت کی صورت میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے دوبیٹے شاہ نواز بھٹو اورمیرمرتضیٰ بھٹوقتل ہوئے اورپھر بے نظیر بھٹو کوبھی قتل کردیاگیا۔آصف زرداری اس لحاظ سے خوش نصیب ہیںکہ زندہ ہیں۔ان کی زندگی کی گارنٹی اس لیے بھی ہے کہ وہ بھٹو نہیںزرداری ہیںاور شہنشاہِ افہام وتفہیم ہیں۔زرداری کی افہام و تفہیم برانڈ سیاست سے قوم کو کیا ملا؟ اس کا نتیجہ 2013ء کے انتخابات میںسامنے آچکا ہے ۔یہ دن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ’’سالانہ برسی‘‘ کے نام سے یاد رکھاجائے گا۔ میاں صاحب کی حکومت کو قائم ہوئے یوں توابھی 25دن ہوئے ہیںمگر یوں لگتاہے کہ ہم نے دکھوں ،مصیبتوں اورمہنگائی کی کئی ’’سلورجوبلیاں‘‘ منالی ہیں۔جنرل سیلز ٹیکس کے نافذ ہوتے ہی مہنگائی کے سمندر سے ایسے جوار بھاٹے اٹھ رہے ہیں جس سے غریب کا بچاکچھا ٹین ٹپر سب کچھ غرق ہوگیاہے۔آٹا، دال ، گھی ،چینی ،دودھ،بجلی ہر شے کی قیمت ساتویں آسمان پر جاپہنچی ہیں۔ فریج، ٹی وی، ائیر کنڈیشنر، جنریٹر، پنکھے، واشنگ مشین سمیت بیشترالیکٹرانک اشیاء کے نرخوں میں 3ہزار روپے کا اضافہ ہوگیاہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب اسی طرح جاری ہے جیسے گذشتہ دور میں عوام اسے جھیل رہے تھے۔ تعمیرات کی ماہر حکومت نے سریا، سیمنٹ، موبائل، کمپیوٹر، سائیکل، گاڑیاںاوربرتن بھی مہنگے کردیے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ہر اس آئیٹم پر ٹیکس نافذ کر دیاہے جو زیادہ تر غریب اورمتوسط طبقات استعمال کرتے ہیں۔موبائل کمپنیوں کے ٹیلی کارڈز پر اس وقت 100روپے کے کارڈ پر 25روپے کاٹے جارہے ہیں۔ موبائل فون اس وقت سہولت سے زیادہ ضرورت بن چکا ہے ، ضرورت کے ساتھ ساتھ یہ نمائش اورامارت کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ مارکیٹ میں موبائل فون کی کم سے کم قیمت 1299روپے بھی ہے جبکہ مہنگے موبائل فون لاکھوں روپے میں بھی دستیاب ہوتے ہیں۔جس طرح وقت دیکھنے کیلئے گھڑی صرف ایک سو روپے میں بھی دستیاب ہوتی ہے اور بعض کلائیوں پر 50لاکھ روپے کی گھڑیاں بھی جھولتی ہیں۔دولت کی اس قدر غیر ہموار تقسیم کسی ان چاہے انقلاب کو صدائیں دے رہی ہے ۔اس دور کے جوبلی کماروں کومشورہ ہے کہ وہ عوام کے ’’ایزی لوڈ‘‘ کو ’’ان ایزی‘‘ (uneasy) نہ بنائیں‘ کہیںایسا نہ ہوکہ ان کا اپنا جمہوری سٹارڈم ہمیشہ کے لئے غرق ہوجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں