ایک عرصہ سے پاکستان میں فلم انڈسٹری اور روایتی ٹی وی کی جگہ نیوز انڈسٹری نے حاصل کرلی ہے۔لگ بھگ پندرہ سال قبل جب میں ایک میڈیا گروپ سے بطور شوبز ایڈیٹر وا بستہ تھاتو اس وقت پاکستان میں نیوز چینل کا تصور عام نہیںتھا۔ ایک دن مجھے میرے ایک سنیئر نے بتایاکہ اخبار کی انتظامیہ نیوز ٹی وی لانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ اس وقت تک ٹی وی سے مراد صرف’’ پی ٹی وی‘‘ ہوا کرتا تھا جس میں خبرنامے کا مطلب ٹی وی کا سوئچ آ ف کردینا ہوتا تھا۔ پی ٹی و ی میں خبرنامے کے علاوہ سب کچھ دیکھا اورسنا جاتاتھا۔ سراحی دار گردن والی گلوکارہ طاہرہ سید کے ڈوگری گیت، شہنشاہ غز ل مہدی حسن کی گائی غزلیں،ملکہ ترنم نورجہاں کے ادا کیے زمزمے اورتانیں،روحی بانو، نیلوفر،خالدہ ریاست، شہناز شیخ جیسے چاند چہروں اورفردوس جمال، عا بدعلی ، سلیم ناصر اور آصف رضامیر کے مقبول اوراعلیٰ ڈرامے ،ان کے علاوہ نازیہ حسن اورزوہیب کی بوم بوم کرتی جوڑی پی ٹی وی کو ناقابل تسخیر بنائے ہوئے تھی۔ 1988ء میں پنجا ب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں مجاہد منصوری صاحب ہمیں میڈیا اسٹڈیز پڑھا یا کرتے تھے ۔ منصوری صاحب اپنے لیکچرز میں مسلسل کہاکرتے تھے کہ 2000ء میں پاکستانی میڈیا میں الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ نیوورلڈ آرڈر اورگلوبل ویلج میں جو شکل پاکستان کو دی جانی تھی ارض پاک اس کا ہوبہو منظر پیش کررہاہے۔پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی بھر مار ہے اورہر طرف بریکنگ نیوز کا طوفان ہے۔جس پر ہروقت ریٹنگ کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ٹی وی انڈسٹری سے وابستہ افرادریٹنگ کی اصطلاح سے نہ صرف واقف ہیں ،بلکہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی اس فیکٹر سے اچھا خاصا متاثر بھی ہوتی رہتی ہے۔عام لوگ ریٹنگ کے فیکٹر کو یوں سمجھ سکتے ہیںکہ بعض ادارے نیوز ٹی وی اورانٹر ٹین منٹ ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والے پروگراموں کے بارے میں علیحدہ علیحدہ سروے رپورٹ تیار کرتے ہیں۔جس میں ٹی وی ناظرین کی پسندیدگی اورناپسندیدگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ ان سروے رپورٹس تیار کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جن پروگراموں کوناظرین پسند کرتے ہیںان کاCONTENT(مواد)معیاری ہوتاہے، پروڈکشن کوالٹی بہترین ہوتی ہے اورانہیںتیارکرنے والے پیشہ ور اپنے کام کے ماہر ہوتے ہیں۔ٹاک شوز کے معاملہ میں سب سے اہم اس کا انکر پرسن ہوتاہے۔ شو میں انکر پرسن کی حیثیت وہی ہے، جو نظامِ شمسی میں سورج کی ہوتی ہے۔سورج اپنی بے پناہ حدت اور شدت سے اپنے اردگرد واقع سیاروں کو زندگی بخشتاہے، اسی طرح انکر پرسن بھی اپنے تبصروں،تجزئیوںاورمباحثوں میں شرکاء کو سیاسی حیات بخش رہے ہوتے ہیں۔ میرتقی میر نے کہاتھا ؎ جلوہ ہے مجھی سے لب ِ دریائے سخن پر صد رنگ مری موج ہے ، میں طبع رواں ہوں برصغیر میں جاگیر داری نظام آیاتو یہاں راجوں اورمہاراجوں نے اپنے دربار سجائے۔شعرائے دربارمیں شرف قبولیت حاصل کرنے کی خاطر قصیدے لکھتے تھے۔ملک الشعراء ہونے کی ہر کسی کو خواہش ہوتی تھی۔گویا ہمارے ہاں ’’ریٹنگ فیکٹر‘‘ پرانی روایت ہے۔ مراد یہ ہے کہ فنکار، شاعر اورادیب نے تخلیق کرتے ہوئے اس پوائنٹ کو ذہن میں رکھاکہ اس کی تخلیق لوگوں کوپسند آنی چاہیے۔گویا اس نے اپنی سوچوں پر کمرشل ازم کاپہرہ لگالیا۔ پرانے وقتوں میںہونے والے مشاعروں میں باقاعدہ مقابلہ ہوتاتھا۔اس دور میں غزل بھی ترقی کی منازل طے کررہی تھی۔غزل گو اساتذہ اکثر ایسے اشعار لکھ کر لاتے تھے جن پر محفل یا دربار میں خوب داد ملے۔اگر کسی شاعر کو داد نہ ملتی تو ا یسے مضمون سے دانستہ پرہیز کیاجاتا۔یوں سامعین کی طرف سے داد کاملنا شاعری کے لئے ’’ریٹنگ فیکٹر‘‘ بن گیا تھا۔لہذا شاعری میں نہایت ہلکے پھلکے اور مقبول مضامین باندھے جاتے تاکہ داد مل سکے اور’’ملک شعر ا‘‘ کا خطاب حاصل کیاجاسکے۔یہ ایک قسم کا condition reflexبن گیاتھا۔لہٰذا اس دور میں غزل موضوعاتی طور پر پھل پھول نہ سکی۔ فیض صاحب کو داد دیتے ہوئے کسی شخص نے کہا کہ آ پ نے اپنے کلام میںغزل کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں نظم کے مضامین سمودئیے ہیں۔فیض نے کہا تھاکہ یہاں تک تو درست کہ ہم نے غزل کو ترک نہیں کیا،یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس (Medium) میں ہم نے نئے مضامین کے رنگ باندھے ہیں۔مگر یہ غلط ہے کہ اس کی ابتدا ء ہم نے کی۔ایک زمانے تک مشاعروں میں اشعار پڑھے جاتے تھے اورشعراء داد کے لئے بے تاب رہتے تھے۔شعرا ء کی کوشش ہوتی تھی کہ عام اورمقبول مضامین باندھے جائیںجو مجمع عام میں بیٹھے ہوئے ہر فرد کو بآسانی سمجھ آسکیںتاکہ داد یقینی آئے غالب پہلا غزل گو شاعر تھا جس نے داد کی پرواہ کیے بغیر کہا: نہ ستائش کی تمنا ،نہ صلے کی پروا نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی غالب نے اپنے حساب کتاب اور مزاج کی غزل کہی۔کسی کو سمجھ نہیںآتی تو وہ اپنی سمجھ ٹھیک کرے۔غالب نے مشاعروں میں مکمل بغاوت کا اعلان کردیا تھا۔غالب کے اس جرأت مندانہ فعل سے شعری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ فیض صاحب کے مطابق اگر غالب بغاوت نہ کرتا اور اپنے آپ کو مجمع عام کی داد کا غلام بنا دیتا تو پھر وہ کبھی اتنا بڑا غزل گو شاعر نہ بنتا۔ا س نے داد کی پرواکیے بغیر اپنی غزلوں میں نہایت سنجیدہ شاعری کی ہے ۔ غالب کے بعد بڑے غزل گو شاعر اقبال ؒ تھے۔ ان کی تمام شاعری میں غزل کی صورت میں نظم کے مضامین ہیں۔علامہ دوسرے باغی تھے جنہو ں نے داد کی پرواکیے بغیر شاعری اپنے مزاج کے انداز میں کی اورغزل میں نظم کو پابند کیا۔غالب اوراقبالؒ نے مروجہ روایات سے بغاوت کی تھی۔فیض کے مطابق دونوں کے بعد ان کے پایے کا غزل گو شاعر پیدا نہیںہوا۔فیض نے اپنی زندگی میں اکثر یہ کہاکہ ہم نے تومحض غالب اوراقبال ؒکی پیروی کی ہے ،ہم نے اپنے ان بڑوں کی طرح اس میڈیم کوترک نہیں کیا۔ یہ خوبصورت میڈیم ہے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کاآنا ضروری تھا،یہ انقلاب ہم نہیںلائے ۔اس کا سہراتو غالب اوراقبال کے سر ہے۔وہ بڑے استاد ہیںہم نے تو ان سے سیکھا ہے۔ فنون لطیفہ سے لے کرجرنلزم تک ہر میدان میں ’’ریٹنگ فیکٹر‘‘ کی تلوار لٹکتی رہتی ہے ۔فنکار نے اس بنیادی تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے تخلیق کے مرحلے سے گذرنا ہوتا ہے۔فیض کے مطابق غالب اورعلامہ ؒ نے اپنے زمانے کی مقبول روایات سے بغاوت کی تھی مگر منفرد اورمعیاری شاعری کرنے کا ’’فیکٹر‘‘ دونوں حضرات کے ذہنوں میں ضرور ہوگا۔اقبال نے کہاتھا: رہتی ہے سدا نرگسِ بیمار کی تر آنکھ دل طالب ِ نظارہ ہے ،محروم ِ نظر آنکھ اور فیض نے کہاتھا: کون ایسا غنی ہے ،جس سے کوئی نقد شمس و قمر کی بات کرے جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے جائے تسخیرِ کائنات کرے