"TSC" (space) message & send to 7575

’’مین آف ٹک ٹک‘‘

ہمارے بعض سیاسی رہنمائوں کے بیانات بلاناغہ اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔میاں برادران کے بیانات روزانہ کی بنیاد پر شہ سرخیوں کی زینت بنائے جاتے ہیں۔ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ میاں نواز شریف تیسری بار اورمیاں شہباز شریف چوتھی بار خادم اعلیٰ کے عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز ہیں۔شیخ رشید ہمارے ایسے سدا بہار سیاسی ایکٹر ہیں جو اسمبلی سے باہر ہوں یا اندر ٹا ک شوز انڈسٹری سے باہرنہیں ہوتے ۔پرویز الٰہی ڈپٹی وزیر اعظم ہوں یاڈپٹی چوہدری الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں ان کی باکس آفس چوہدراہٹ متاثر نہیںہوتی۔دیگر سیاسی ٹاپ ٹین سپرہٹ سیلیبرٹیزمیںسب سے پہلے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کا نام سامنے رہتاہے۔سیاست کے ان ایورگرین’’کریکٹرایکٹرز‘‘ کا ذکر ِخیر کسی اوردن کروں گا ۔فی الحال اپنے فیورٹ حافظ حسین احمد صاحب کے ایک شگفتہ بیان کی تشریح کرناچاہتاہوں۔ حافظ حسین احمد بڑے خوش گلواورخوش گفتار ہیں اسی لئے مجھے بہت پسندہیں ۔ متوقع صدارتی انتخاب کے حوالے سے حافظ صاحب کا ایک بیان پڑھ کرمجھے ہیمامالنی اورششی کپور پر فلمایاگیاایک دوگانا یاد آگیا۔جس میں ششی کپور کندھے اچکا تے،اچھلتے کودتے گاناگاتے اپنے مخصوص انداز میں ڈریم گرل کاخطاب رکھنے والی ہیروئن ہیما مالنی سے یوں گلہ کرتے ہیں: جب بھی ملتے ہو‘ دیر سے ملتے ہو جانِ من تم کمال کرتے ہو حافظ صاحب سے میر ا بھی گلہ ہے کہ وہ شگفتہ گوئی کرتے ضرور ہیںمگر دیر کردیتے ہیں۔ حافظ حسین احمد نے فرمایا ہے کہ عشرت العباد نے جس چشمے سے گورنری کا ’’آب ِحیات‘‘ پی رکھا ہے ممنون حسین صدر بننے سے قبل ہی اس چشمے کے کنارے فیض یابی کے لئے پہنچ گئے ہیں۔ زرداری اینڈ کمپنی پیپلز پارٹی میں ’’مال کھانے‘‘جبکہ اعتزاز احسن اوررضاربانی ’’مار کھانے والے ‘‘ ہیں‘‘۔صدارتی انتخاب کے حوالے سے حافظ صاحب نے فرمایاہے کہ ’’پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ نے اپوزیشن کے اتحاد کے تاثر کو ختم کردیا،ممنون حسین کو پیپلزپارٹی کا ممنون ہوناچاہیے ورنہ ’’وجیہہ کی شبیہہ ‘‘پریشانی کا باعث بن سکتی تھی‘‘۔نون لیگ کے امیدوار ممنون حسین اس وقت صدارتی انتخاب کے لئے ہاٹ فیورٹ سمجھے جارہے ہیں۔اگرچہ انہیں پاکستان کامتوقع صدر سمجھا جارہاہے مگر ان کی مقبولیت اورپسندیدگی ایسے ہی ہے جیسے ویسٹ انڈیز اورپاکستان کے مابین کھیلے جانے والی کرکٹ سیریزکے ’’مین آف سیریز‘‘مصباح الحق کے کھیل کے ’’ٹک ٹک سٹائل‘‘کو شائقین کرکٹ زیادہ پسندنہیں کرتے اس لیے ویسٹ انڈیز سے جیتنے کے باوجود انہیں ’’مین آف ٹک ٹک‘‘ کہاجارہاہے۔سیاست اورآئینی عہدوں پر جلوہ افروز ہونے والی شخصیات بھی زیادہ تر ’’مین آف ٹک ٹک ‘‘ ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اقتدار کا اصل کھیل کیری پیکروں کے ہاتھ میں رہتاہے۔ جیسے پتلی تماشہ میں پتلیوں کی ڈور پاٹے خاں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ایک عرصہ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب پتلیوں کے پیچھے پاٹے خاں نہیںہیں اورپتلیاں ’’آٹو میٹک‘‘ ہوچکی ہیں اور اپنی من مرضی اورآزادی سے متحرک ہیں۔ عمران خان نے کہاہے کہ ممنون حسین متنازعہ اورنوازشریف کے ’’پتلی ‘‘صدر ہوں گے ،ہم احتجاجاًصدارتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیںکیونکہ وجیہہ الدین نے کہا تھاکہ حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع نہیںدیناچاہیے۔ سب کچھ ویساہی ہے جیسا حافظ حسین احمد نے تذکرہ کیاہے ۔پنجابی کے بے مثل شاعر وارث شاہ نے کہاتھا: وارث شاہ دا بولنا بھید اندر عقل مند غور ضروری اے مراد یہ ہے کہ وارث شاہ جب کوئی بات کرتے ہیںتو عقل مند شخص کو اس پر غورضرور کرناچاہیے۔میرزا غالب نے نکتہ سرایاروں کو یہ صلائے عام یوں دی تھی : ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے میاں نوازشریف اوراہالیان نون لیگ نے ممنون حسین کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے پہلے صلائے عام کے ساتھ،ساتھ ’’صلائے خاص‘‘ کے مراحل بھی طے کئے ہوں گے۔نون لیگ کی الیٹ جو اصولی سیاست کی علمبردار ہے، خود چل کرنائن زیرو گئی۔سیاسی پارسائوں کے نیک عمل کو افہام وتفہیم کے سنہری پنوں(صفحات ) پہ لکھا جائے گا۔ جاتی بہار کے ہمارے صدر آصف زرداری نے اقتدار کے پانچ سال کا عرصہ سیاسی دشمنی کو افہام وتفہیم کی تربت میں دفن کرکے برآمدکیاتھا۔ اسی طرح عروس البلاد کراچی پر اپنے اقتدار کا پرچم لہرانے اور صدارتی الیکشن کے نتیجہ کو ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کا درجہ دینے کے لئے نون لیگ نے بھی نائن زیرو ’’حاضری‘‘دینے میں ہی عافیت جانی ہے۔نون لیگ کا کمال ہے کہ جب یہ حکومت میںنہیں ہوتی ہے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے عمل کو بھی سستی ،کاہلی اور کرپشن قرار دیتی ہے لیکن جب خود حکومت میں تشریف لاتی ہے تو اس کے سیالکوٹی وزیر پانی وبجلی اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے لئے بھی تین سال کا عرصہ طلب کرتے ہیں…ہائے اوئے تیریاں زودانتظامیاں… عمران خان نے لاہور میں کی گئی ایک پریس کانفرنس میں حکومت اوربعض ریاستی اداروں کے مبینہ جانبدارانہ رویے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ صدارتی الیکشن میں عدلیہ اورالیکشن کمیشن کا بدترین کردار سامنے آیا ہے ،دیگر اپوزیشن کا موقف اس حوالے سے بالکل درست ہے،ہم اس الیکشن میں احتجاجاًحصہ لے رہے ہیں ۔میں بھی چاہتاتھاکہ صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہوجائوں تاکہ عدلیہ اورالیکشن کمیشن کے کردار کوایکسپوزکرسکوں مگر وجیہہ الدین کی دلیل تھی کہ ہمیں حکومت کے لئے کھلامیدان نہیںچھوڑنا چاہیے۔عمران خان نے صدارتی الیکشن کی کیمپین کے لئے ایک مشکل ،منفرد مگر دلچسپ طریقہ کار کا اعلان بھی کیا ہے۔خان صاحب نے کہاہے کہ وہ ممبران اسمبلی کے ضمیر کوجگائیںگے۔ عمران خان کو ضمیرجگانے کی اس مہم جوئی میں ’’مینڈیٹ‘‘ ملنے کی توقع نہیںاسی لئے اس ’’الیکشن ‘‘کو بھی مشکل قرار دے رہے ہیں۔ خان صاحب اہالیان اسمبلی کے اہل وعیال کو بتائیں گے کہ کون سا صدارتی امیدوار ملک وقوم کیلئے بہتر ہوگااورکون صرف ’’پتلی صاحب‘‘ ہوگا؟عمران خان نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے صدارتی الیکشن میں انتخابی مہم چلانے کے لئے بہت کم وقت دیاہے اورجمہوری تقاضے پورے نہیںکئے گئے۔اتنے قلیل وقت میں صدارتی امیدوار کس طرح انتخابی مہم چلاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن نے 11مئی کے انتخابات کی طرح اس انتخاب کو بھی متنازعہ کردیاہے۔عمران خان نے ایک ادارے کی مبینہ جانبدار ی کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کیاتھا۔60سے70جلسے کئے،جب سمجھا کہ جانب دارانہ امپائرنگ ہورہی ہے اورکسی ایک سیاسی ٹیم کی حمایت کی جارہی ہے تو تحریک انصاف کوسڑکوں پر نکلنے کا ٹارگٹ دے رہے ہیں۔عمران خان نے کہاکہ 11مئی کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ہم نے ملک وقوم کے مفاد اورجمہوری روایات کے فروغ کے لئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا،لیکن صرف 4حلقوںکے نتائج کے حوالے سے پٹیشن دائر کی گئی کہ متذکرہ حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات چیک کئے جائیں،یہ پٹیشن سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن میں پڑی ہے اورہمیں کوئی جواب نہیںدیاجارہا۔عمران خان نے کہاہے کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم چپ کرکے بیٹھ جائیںگے۔ہم اپنے تمام قانونی راستے اختیار کریںگے۔عمران خان نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہ عمل یونہی جاری رہا اور جانبدارانہ امپائرنگ جاری رہی تو عید کے فوراًبعد تحریک انصاف سٹرکوں پر نکل آئے گی ۔پارٹی کو بھی کہہ دیاہے کہ وہ تیاری کرلے۔کپتان خان ، لطیفہ گوئی، شگفتگی اوربذلہ سنجی کے نہیںبے باکی اورجگر بازی کے قائل ہیںاس لیے ’’مین آف ٹک ٹک‘‘بننے کے بجائے جگر مراد آبادی کے لہجے میں کہہ رہے ہیں: اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیںکہ جن کو زمانہ بنا گیا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں