سکندرنے ساڑھے پانچ گھنٹے تک اسلام آباد کو ’’ہائی جیک‘‘ کیے رکھا مگرحیرت کی بات ہے کہ حکومت، پولیس اورسکیورٹی ادارے اسے قابو کرنے میں ناکام رہے۔ شکر ہے کیپیٹل کو ہائی جیک کرنے والا دیسی ساخت کا ہیرو حافظ آبادی سکندر نکلا جس سے صرف پانچ گھنٹے میں نون لیگ کی حکومت کی گلو خلاصی ہوگئی ۔ اگر سکندر بالی وڈ کی فلم ’’مقدر کاسکندر‘‘ کا ہیروہوتاتونون لیگ کی حکومتی فلم کی باکس آفس پوزیشن اپنی نمائش کے فوراََبعد ہی متاثر ہونے کااندیشہ تھا۔وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان نے اسلام آباد میں رونما ہونے والے ’’ڈرامے‘‘ کو 5گھنٹے سے زائد وقت تک کھینچے چلے جانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔یہ درست ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے لیکن اس کی سزاکسی غیر کو نہیں عوام کو ہی بھگتنا ہوگی ۔یہ سزا ایسے ہی کسی اور نا خوشگوار واقعہ کی صورت میںدوبارہ اورسہ بارہ بھی سنائی جاسکتی ہے ۔ اس وقت تک عوام اپنے آپ اور وطن عزیز کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔ سکندر کی عمر 53سال بیان کی جارہی ہے۔ایسا حادثہ شاذوناذر ہی رونما ہوتاہے کہ کوئی دہشت گرد پکی عمر کا ہو۔خودکش اوردہشت گرد عموماََ12سے 18سال کی عمروں کے ہوتے ہیں ۔دہشت گرد یا خودکش کے لیے نابالغ یا کم عمر ہونا کیوں ضروری ہے، یہ کیا راز ہے ، ایسا کیوں ہوتاہے؟اس نوع کے ’’کار خیر‘‘ میں کم عمر ہوناکیوں ضروری ہے؟شاید اسلئے کہ کچی عمر کا دہشت گرد اپنے کام کا پکا ہوتاہے اورپکی عمر کے دہشت گرد کے ارادے کچے ہونے کا اندیشہ رہتاہے۔ ماسٹرمائنڈز اورٹرینرز(استادوں) کیلئے کچی عمر کے معصومین کو اپنے رستے پر لگانا قدرے آسان ہوتاہے جبکہ پکی عمر کے زیر تربیت دہشت گرد ’’ مخصوص نظریا ت‘‘ کے پرچار کے حصار میںتذبذب کا شکارہو رہتے ہیں۔ایسا بھی ہواکہ عین موقعہ پر پکی عمر کا دہشت گرد موت کو اپنے سامنے کھڑے پاکر ذرا سا چونکا اوراسے گرفتار کرلیاگیا۔ہمارے ہاں دہشت گردوں کو گرفتار توکرلیاجاتاہے مگر بعد ازاں انہیںسہولت کے ساتھ آزاد کرالیاجاتاہے۔جیل اگر ڈیرہ اسماعیل خان یابنوں میں ہوتو یہ ’’نیک کام ‘‘ سہولت سے کرلیاجاتاہے۔گذشتہ دنوں ڈھائی سو دہشت گرد ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے چھڑا لیے گئے ۔بیان کیاگیاہے کہ مذکورہ دہشت گردوں کے لیے آئی ’’ریسکیوفورس‘‘ وزیر ستان کے پہاڑوں سے اتری تھی ،وہ اپنی سکونت کے مقام سے لگ بھگ 100کلومیٹرتک پاکستان کے ان علاقوں کے اندر آئی جہاں آئین اور قانون کی عملداری ہے ،ان کے رستے میں ہمارے محافظوں کی درجنوں چوکیاں اورناکے آئے مگر کسی مائی کے لال نے انہیں اس کام سے نہیں روکا۔ایسا کیوںہوا ؟اس حقیقت کو کسی کالم میں موضوع بحث نہیںبنایاجاسکتاالبتہ ریاست اورحکومت کے اختیارات کے علاوہ اپنی ذمہ داریوںاورقومی سلامتی کے ان معاملات کا طے کرنااز حد ضروری ہے۔ اسے المیہ کو کیا نام دیں کچھ سمجھ نہیںآتا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ایک ہاتھ دہشت گردوں کو گرفتار کرتاہے اور دوسرا ہاتھ ان کا مدد گار بھی رہتا ہے۔دہشت گردی کے معاملہ میں بھارت بھی کسی سے پیچھے نہیںہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارتی پولیس اورخفیہ ایجنسیوں نے ایک ایسا دہشت گرد گرفتار کر لیاجس کی عمر 70برس بیان کی جارہی ہے۔دہلی پولیس کے مطابق عبدالکریم ٹنڈا کو ہریانہ کے ایک گائوں بنواسا سے گرفتار کیاگیاہے۔ٹنڈا صاحب 1943ء میں نئی دہلی میں پیدا ہو ئے تھے۔1994ء میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیاگیاتاہم وہ ڈھاکہ فرار ہوگیا۔دہلی پولیس نے دعوی ٰ کیاہے کہ ٹنڈا نے 2010ء میں بھارت میں دولت مشترکہ کھیلوں کے موقع پر بھی دہشت گردی کا منصوبہ بنایاتھالیکن وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہاتھا۔ مشتاق احمد یوسفی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’آب ِگم ‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ’’ ملکوں ملکوں گھومنے اوروطن سے دور رہنے کاایک بین فائدہ یہ دیکھا کہ وطن اور اہل ِوطن سے محبت نہ صرف بڑھ جاتی ہے بلکہ بے طلب اور غیر مشروط بھی ہوجاتی ہے۔ سفر کردم بہر شہری دویدم بہ لطف و حسن ِ تو کس را ند یدم ترجمہ( میں ملکوں ملکوں ،شہروں شہروں گھوما۔لیکن یہ تیرے لطف اورحسن کافیضان ہے کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا) پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔یہ عمل دس گیارہ سال تک جاری رہے تو حساس آدمی کی کیفیت سیسمو گراف کی سی ہوجاتی ہے ،جس کاکام ہی زلزلوں کے جھٹکے ریکارڈ کرنااورہمہ وقت لرزتے رہناہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری سیاست کا قوام ہی آتش فشاں لاوے سے اٹھا ہے‘‘۔مشتاق احمد یوسفی نے وطن سے محبت کا درس ملکوں ملکوں گھوم کر پڑھا تھا،میرزا غالب نے نجانے ہماری جغرافیائی اورنظریاتی حدود کا سراغ کیسے لگالیاتھا ؎ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولیٰ برق ِ خرمن کا ہے ، خون ِ گرم دہقا ں کا یوسفی اورغالب کے شعری و نثری حوالہ جات کا مطالعہ بالترتیب کریں تو پاکستان کی افواہوں کے سچ نکلنے کی کہانی تھوڑی تھوڑی سمجھ میں آجاتی ہے۔کسی ’’نامعلوم‘‘ مقام پر ’’کسی ملک‘‘ کے دوہم منصب بھانڈ COMPOSITE DIALOGUE جامع مذاکرات بلکہ ’’مذاق رات ‘‘ میں مصروف تھے۔ بھانڈنمبر ون: مولاخوش رکھے۔۔۔ امریکہ ،روس اورایک’’تیسری طاقت‘‘ کے خفیہ و الوں کے مابین سیکورٹی کے معاملات پر کانفرنس جاری تھی۔ بھانڈنمبر 2:واہ وا۔۔۔آل پارٹیز کانفرنس ۔۔۔۔کیاہوا اس کانفرنس میں ؟ بھانڈنمبر 1 :امریکہ کے خفیہ والوں نے کہاکہ ہم دہشت گردی کے ناخوشگوار واقعہ کے رونما ہونے کی صورت میں صرف 24گھنٹوں میں دہشت گرد تک پہنچ جاتے ہیں۔ بھانڈنمبر2:سبحان اللہ ۔۔۔۔اورمولاخوش رکھے روس کے خفیہ والوں نے کیا بتایا؟ بھانڈنمبر 1:روس والوں نے اپنی ایفی شینسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ وہ صرف 12گھنٹوں میں دہشت گرد کی گردن دبوچ کر اسے آہنی سلاخوں کے پیچھے کھڑا کردیتے ہیں۔ بھانڈنمبر 2:بہت اچھے ۔۔۔کیاکہنے ۔۔۔لیکن تیسرے ملک کے خفیہ والوں کا بھی بتائیں کہ وہ دہشت گرد کو کتنے گھنٹوں یا دنوں میں گرفتارکرتے ہیں؟ بھانڈ نمبر 1:واہ وا بیٹا ۔۔۔اس وقت تو پرائم ٹائم والے انکر پرسن ہی لگے ہو۔۔۔ سوال کا جواب غور سے سنو! تیسری طاقت کے خفیہ والوں نے روس اور امریکہ کے اہلکاروں کو کیابتایا۔ بھانڈ نمبر 2:(پوری توجہ سے کان آگے کرتے ہوئے ) واہ وا۔۔۔۔تیسری طاقت کے اہلکاروں نے کیابتایا؟ بھانڈنمبر 1 :تیسری طاقت کے اہلکاروں نے روس اورامریکہ کے خفیہ والوں کی ہوائیاں اڑا دیں۔۔۔۔انہوں نے بتایاکہ ہم تو دہشت گرد کوواردات سے ایک ہفتہ پہلے گرفتار کرلیتے ہیں۔ بھانڈ نمبر 2:(حیرت سے ) واردات سے ایک ہفتہ پہلے ۔۔۔۔مگر وہ کیسے؟ بھانڈنمبر :1 روس اورامریکہ کے خفیہ والوں نے بھی یہی سوال کیاتھاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ واردات سے ہفتہ پہلے مجرم کا سراغ لگالیاجائے؟تیسری طاقت کے اہلکاروں نے کندھے اچکاتے ہوئے بتایاکہ ہم مجرم تک اسلئے پہنچ جاتے ہیںکیونکہ وہ اپنا ہی بندہ ہوتاہے۔۔۔۔ روس اورامریکہ کے خفیہ والوں نے تیسری طاقت کے اہلکارکی یہ بات سنی تو ایک دوسرے کے منہ کو دیکھنے لگے کہ وہ اس ’’نیٹ ورک‘‘ کامقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟