امریکہ میں پاکستان اوربھارت کے مابین کھیلا جانے والا سیاسی اورسفارتی ’’ٹونٹی ٹونٹی‘‘ ختم ہوگیا۔یہ میچ بھی پہلے میچز کی طرح خاصا بور تھا، جس میں دونوں ملکوںکے درمیان کشیدگی اوربداعتمادی کی ففٹی بنی اورنہ ہی پیار محبت کے چوکے چھکے لگے؛بلکہ ہوایہ کہ بھارتی ٹیم کے کپتان سردار منموہن سنگھ نے کیری پیکروں سے پاکستان کی شکایت کردی ۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے لاہور ی لہجے میں اگرچہ یہ کہہ کر کہ ’’ من موہن سنگھ نے بالکل دیہاتی مائی کی طرح ہماری شکایتیں کی ہیں‘‘اس کا جواب دے دیا لیکن یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اسی دوران بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشیدنے یہ الزام بھی عائد کیاکہ پاکستان کی فوج اورآئی ایس آئی پاک بھارت تعلقات کے لیے وزیر اعظم میاں نوازشریف کی کوششوں سے راضی نہیں ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان نے بھی بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کے ردعمل میں منہ توڑ اوربئیاں(بازو) مروڑ قسم کا جواب دیاہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی منتخب حکومت اورفوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیںاورنہ ہی غیر حکمرانوں کو پاک فوج اورحکومت کے درمیان خلیج کے ذکر کا اختیار ہے ۔سلمان خورشید کابیان بلاجواز ، غیر ضروری اورسفارتی آداب کے منافی ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ پاکستان ،بھارت سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے ،دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے وقت ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔سلمان خورشید کو کشمیر میں بھارتی فوج کے کرتوتوں پر توجہ دینا چاہیے اورسابق آرمی چیف وی کے سنگھ کے بیان پر فکر مند ہوناچاہیے۔ پاکستان اوربھارت پڑوسی ملک ہیں،یہ رہتی دنیا تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیںگے ۔پاکستان کے بعد لگ بھگ 25سال تک بنگلہ دیش بھی پاکستان ہی تھالیکن یہ الگ بات کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج اس وقت بوئے گئے جب بنگالیوں کو کہاگیاکہ اردو ان کی قومی زبان ہے۔بنگالی ہم سے علیحدہ کیوں ہوئے اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت نے کیاکردار ادا کیا،یہ کوئی راز نہیںہے۔مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کو ہم سے گلہ تھاکہ ہم مغربی پاکستان والے ان کے تمام وسائل پر قابض ہیںاور انہیں ان کے حقوق مہیا نہیںکرتے۔بنگالیوں کے گلے شکوے کا سیاسی مداوا ممکن تھا مگر مختلف فوجی اورنیم فوجی حکومتوں نے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا ۔ جنرل آغا یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان ،بنگلہ دیش بنا ۔بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت نے بنگالی قوم پرستوں کی سرپرستی کی تھی ۔غیر سیاسی حکمت عملی اور تاریخ کے ملبے میں چنگاری تو موجود تھی،بھارت نے ان حالات میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس چنگاری کو آگ کا الائو بنادیا۔پاکستان اوربھارت کے تعلقات کے ساتھ مسئلہ کشمیر، سرکریک،سیاچین اور اب ایک عرصہ سے بھارت سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے پانی کا تنازعہ جڑا ہواہے۔ گزشتہ 66سالوں میں پاکستان اوربھارت کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔نفرت اورجنگ جیسے جذبوں سے لدی یہ پرواز اور اس کی طویل مسافت میں چند ’’ایئر پاکٹس‘‘ ایسے بھی آئے جب ہمارے ہاں سے جنرل محمد ضیاء الحق، محترمہ بے نظیر بھٹو ،جنرل پرویز مشرف ، یوسف رضا گیلانی اورسابق صدرآصف علی زرداری اجمیر شریف ؒ کے مزار پر چادر چڑھاتے دکھائی دیتے رہے ۔ اسی طرح بھارتی حکمران اے کے گجرال اور اٹل بہاری واجپائی بھی پاکستان آئے مگر یہ سلسلہ کارگل ، ممبئی حملے ،سمجھوتہ ایکسپریس کو جلانے اوردونوں اطراف سے برپا کردہ ’’معرکوں ‘‘ سے رُک گئے ۔ اگر بھارتی وزیر خارجہ یہ الزام عائد کرتے ہیںکہ پاکستانی فوج وزیر اعظم نوازشریف کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے تو کیا بھارتی فوج کے سابق چیف جنرل وی کے سنگھ نے یہ اعتراف نہیںکیا کہ بھارتی فوج کی خفیہ ایجنسی پاکستان میں اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنے کے لئے متحرک رہی ہے؟میرے دوست سعید قاضی فرمایا کرتے ہیںکہ خفیہ ایجنسی کسی ملک کی بھی ہووہ ( این جی او) یاکوئی فلاحی تنظیم نہیںہوتی ۔خفیہ ایجنسی کے اہداف ہوتے ہیں جس کے لئے وہ کام کررہی ہوتی ہے ۔را، موساد اورسی آئی اے اگر دنیا میں کوئی فلاحی کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہیںتو آئی ایس آئی کوبھی پولیو کے قطرے یا کسی دوسرے رفاہی منصوبے پر تعینات کیاجاسکتاہے۔ پاکستان اوربھارت میں بسنے والے لوگ تاریخی،جینیاتی اورارضیاتی طور پر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ تقسیم کے وقت لاکھوں افراد ہندوستان سے پاکستان اورپاکستان سے بھارت آباد ہوئے تھے۔مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے بھارت میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت بھارت میں 30کروڑ سے زائدمسلمان رہ رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ہی دیکھ لیںوزیر اعظم میاں نوازشریف بھارت کے شہر امرتسر کے مضافات میں واقع جاتی عمرہ سے ہیں۔اسی طرح شری من موہن سنگھ کا خمیر بھی چکوال کی مضافاتی مٹی سے ہے۔ہمارے کمانڈو اورسابق صدر جنرل پرویز مشرف ’’میڈ ان دہلی ‘‘ ہیں ،اسی طرح آنجہانی بھارتی وزیراعظم اے کے گجرال’’میڈ ان پاکستان ‘‘ تھے اورانہیں اس پر فخر بھی تھا۔ ہمارے گیارہ سالہ ریکارڈ ہولڈر فوجی رہنما جنر ل محمد ضیاء الحق جالندھری تھے۔ پاک بھارت حکمرانوں کے علاوہ دلوں پر حکمرانی کرنے والے فنکار دلیپ کمار، بی آر چوپڑہ ، یش چوپڑہ، سنیل دت، جتیندر ا، گلزار ، منوج کمار ، کامنی کوشل، دیو آنند، پریم چوپڑہ، ہدایتکار رام دیال اورلوک گلوکارہ سریندر کا تعلق پاکستان سے رہا ۔دلیپ کمار صاحب کا تعلق پشاور کے قصہ خوانی بازار سے ہے جہاں 13مرتبہ دہشت گردی ہوچکی ہے۔دلیپ صاحب ایک حساس انسان ہیں ،وہ جب پشاور کا نام لیتے ہیںتو خون میں نہائے پشاور اورقصہ خوانی بازار کا ذکر کرتے ہوئے ان کی نیلی آنکھیں آنسو ئوںسے بھرجاتی ہیں۔ دلیپ کمار صاحب کی طرح پاکستان اوربھارت میںآباد لاکھوں اورکروڑوں انسانوں کا براہ راست اوربلاواسطہ ایک رشتہ ہے جو ہمیشہ قائم رہتا ہے ۔آپ اگر واہگہ بارڈر پر جائیں تو آپ کو دکھائی دے گا کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان چندانچ چوڑی لکیرہے جہاں دونوں اطراف میں بھارتی اور پاکستانی فوجوں کے جوان تعینات ہیں۔پاکستان کے سنجیدہ حلقوں نے نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے مابین اس اتفاق کو خوش آئند قرار دیاہے کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو موثر بنایاجائے۔ جنگ بندی اورجنگ بازی کے تخمینے لگانے والوں نے بیان کیاہے کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 60ارب ڈالر ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوجائے اوردونوں ملک اگر اپنا دفاعی بجٹ 25فیصد کم کرلیں تو آنے والے 20برسوں میں 500سوارب ڈالر کی بچت ہوسکے گی۔دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دفاعی بجٹ خطرات کو سامنے رکھ کر بنایاجاتاہے ۔وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا نقطہ نظر انتہائی دانشمندانہ ہے ،اگر دونوں ملک معاہدہ امن پر اتفاق کرلیں تو دفاعی بجٹ کم کرکے دونوں ممالک کے کروڑوں انسانوں کوسکھ اورچین کی زندگی فراہم کی جاسکتی ہے ،مگر اس راہ میں دونوں اطرف سے ’’کوہ قاف‘‘ حائل ہیں۔نواز شریف صاحب کی بذلہ سنجی نے بھارت میں وزیر اعظم من موہن کو مشکل میں ڈال دیاہے۔نوازشریف کی طرف سے پاکستانی صحافیوں کو سنایا جانے والا’’دیہاتی مائی ‘‘ والا لطیفہ خاصا مہنگا پڑرہاہے۔میاں صاحب ایک خوش گفتارانسان ہیں ، ان کی بذلہ سنجی مشہور ہے۔ ’’دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ’’مذاق رات‘‘ کی مذاقراتی ٹیم کے کپتان امان اللہ جو لطیفہ گوئی کے بادشاہ مانے جاتے ہیں،کا کہناہے کہ انہیں کسی ہمی شمی(ایرے غیرے) کی بات پر ہنسی نہیں آتی ،لیکن ماضی میں میاں نوازشریف انہیں بات کرکے ’’ناک آئوٹ ‘‘ کرتے رہے ہیں۔میاں نوازشریف کی طرف سے دیہاتی مائی کے لطیفے سے مجھے بھی ایک ’’تاریخی مائی ‘‘ یاد آگئی ہے ۔وہ مائی کون ہے ؟کل بیان کروں گا۔(جاری)