بلاول بھٹو اور عمران خان کے مابین گزشتہ دنوں ’’ٹوئٹر ٹوئنٹی‘‘میچ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے عمران خان کو ’’بزدل خان‘‘ قراردیا۔بلاول نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ عمران خان ان کے والد آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ اورمیاں برادران کو ڈینگی برادران کہتے تھے اوراب مجھے بچہ کہتے ہیں ۔ بلاول نے کہاکہ دراصل وہ خود بزدل خان ہیں اورمیں انہیں ’’بزدل خان‘‘ قراردیتا ہوں۔ہمارے ملک کے ’’رائٹ ہینڈ ڈرائیو‘‘ دانشوروں کاخیال ہے کہ بلاول، عمران خان کو بزدل یا بہادر قراردینے کا ’’فتویٰ ‘‘ نہیں دے سکتے ۔ وطن عزیز میں اس وقت خالصتاََ لیفٹ ہینڈ ڈرائیودانشورتو ناپید ہوچکے ہیں،بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے یہ ’’متروکہ وقف املاک‘‘ٹائپ کے دانشور وں کے ساتھ ظلم اورزیادتی کی گئی ۔ ان میں بعض کو تو قید اورکوڑوں کی سزائیں اورشاہی قلعے جیسے عقوبت خانوں میں ڈالاگیا،جبکہ اس برانڈ کے دوسرے انقلابیو ں نے اپنے پیش رووں پر دور سے ہی ظلم وتشدد ہوتا دیکھ کر اپنے اندرتبدیلی محسوس کی جسے اگر بزدلی کا نام دیا جائے تو کچھ زیادہ غلط نہ ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر گالی اسے دی جاتی ہے جو عمران خان کو ’’بزدل خان‘‘ کا خطاب دے۔ ہمارے ہاں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو دانشور وں میں اس تبدیلی کی وجوہات ریاستی جبر اورتشدد کے بعد معاشی آسودگی سے مشروط ہوئی ۔ لینن ،کارل مارکس اورفیض کا دم بھرنے والے امریکہ ،این جی اوزاورکیپٹل ازم زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ اپنے ملک کے ان رائٹ اورلیفٹ ہینڈ ڈرائیو سورمائوں کی ’’مہابھارت‘‘پھر کبھی سنائوں گا۔فی الحال اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ بائیں بازو کے ’’سابق ‘‘ دانشور جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے رومانس میں گرفتار ہوا کرتے تھے وہ بھی بھٹو کے نواسے کو ’’رعایتی نمبرز‘‘ دینے کے لئے تیار نہیں۔اگرچہ ملک کی سیاست کی طرح صحافت میں بھی دائیں اوربائیں بازو کی صحافت دم توڑ چکی ہے لیکن اکا دکا ایسے بھی ہیں جنہوں نے لکھا کہ بلاول ٗذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کا ہی خون ہے جس کے سگے ماموئوں شاہ نواز بھٹو اورمرتضیٰ بھٹو کا قتل بھی اس لیے کیاگیاتھا کہ پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کے کردار کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے۔اس ملک کے عوام کی تقدیر لکھنے والے عوام کی حقیقی لیڈر شپ کے لئے موت لکھتے رہے اور اس کے ساتھ وہ نقلی ، جعلی ، مصنوعی اور’’فارمی قیادت‘‘ پیدا کرتے رہے۔مذکورہ جملہ قائدین ’’مخصوص ٹکسال‘‘ سے تیار کئے گئے اورپھر وقت کے ساتھ ساتھ انہیں قومی سیاست کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔ہماری بدقسمتی کی کہانی پرانی ہے لیکن امید ہے کہ وقت نئے مضمون کی نئی کہانی لکھے گا مگر اسے اس طبقے کے خون کی ضرورت ہوگی جو عوامی خوشحالی کے راہ میں روکاٹ ہے ۔جوش ملیح آبادی نے کہاتھاکہ ؎ ایک کہانی وقت لکھے گا ،نئے مضمون کی جس کی ُسرخی کو ضرورت ہے ،تمہارے خون کی اس وقت وطن عزیز میں یہ بحث پوری شد ومد سے جاری ہے کہ ہمارے وزیر اعظم قبلہ میاں محمد نوازشریف کا دورۂ امریکہ کامیاب رہایاناکام؟ صاحبانِ فن لکھ رہے ہیںکہ میاں صاحب نے امریکہ میں ڈٹ کر کہاہے کہ ’’ڈرون حملے بند کیے جائیں‘‘۔امریکی ہم منصب نے اس کا جواب دینا بھی مناسب نہیںجانا۔انہیں صرف اتناکرنا پڑا کہ پاکستانی وزیر اعظم کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی۔امریکی آفیشل اورمیڈیا نے پریذیڈنٹ اوباما کی خاموشی کی تشریح یوں کی کہ ’’امریکہ اپنے ٹارگٹ پر ڈرون پھینکتا رہے گا‘‘۔پاکستان میں جب ڈرون کا بڑا شوروغوغا ہوا تو امریکہ نے باب وڈ ورڈ کی خبر شائع کرادی کہ ڈرون حملے خود پاکستانی فوجی اورسویلین حکام کے صلاح مشورے سے کیے جاتے رہے ہیں۔ڈرون حملوں کا آغاز سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا اور پھر یہ آصف زرداری اوریوسف رضاگیلانی کے دورمیں جاری رہا۔آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور ہماری عسکری قیادت نے ڈرون حملوں کی بابت مرحوم ایس اے بخاری کی گھریلو اصلاحی فلم ’’میں چُپ رہوں گی‘‘جیسا رویہ اپنائے رکھا۔ مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ناصر عباس جعفری نے کہاہے کہ اس ملک میں گزشتہ 35سال سے ہمارے خلاف ریاستی ادارے طاقت استعمال کررہے ہیں۔ان سالوں میں ہمارے ہزاروں قائدین اورکارکنان شہید کردئیے گئے مگر ان میں ایک کا قاتل بھی گرفتار نہیںہوا۔ انہوں نے الزام لگایاکہ پنجاب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہواہے۔وفاقی حکومت بالخصوص پنجاب حکومت سن لے کہ اگر عزادری کے خلاف کوئی سازش کی گئی تو پاکستان کے شیعہ اور سنی مل کر باہر نکل آئیں گے اوراسے ناکام بنادیں گے۔انہوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات کے اعلان کو ہم مسترد کرتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیںکہ دہشت گردوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی جائے۔ناصر عباس جعفری دوٹوک الفاط میں کہہ رہے ہیںکہ گزشتہ 35سال سے ان کے فرقے اورقوم کو ٹارگٹ کیاجارہاہے۔اس عرصہ میں خطے میں سوشلز م اورکیپٹل ازم کی جنگ لڑی گئی ۔یہ جنگ یوں تو امریکہ اورروس کے درمیان لڑی گئی مگر پاکستان اورافغانستان میں اس جنگ کا برانڈنیم(کاروباری نام)’’جہاد ‘‘متعارف کرایاگیا۔امریکہ ،پاکستان اور افغانستان سمیت بعض دوسرے مسلمان ’’پارٹنرز‘‘ نے معاشی نظاموں کی اس جنگ میںمخصوص مذہبی عقائد کے جنگجوئوں کو ڈالروں کے ساتھ جدید اسلحہ بھی فراہم کیا۔اس جنگ سے سوویت یونین تو شکست سے دوچار ہوا مگر ہم بھی بر باد ہوگئے۔ یوں تو پاکستان کو ایک دفاعی ریاست بنانے کا بندوبست آغاز سے ہی کردیاگیاتھامگر اس ڈاکٹرائن کو جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے زمانوں میں مزید فروغ دیا گیا۔ اس کے بعد جنرل محمد ضیاالحق نے تودفاعی ریاست کو جہادکا’’تڑکا‘‘لگا کر ہمارا بیڑہ غرق ہی کردیا۔جنرل ضیاالحق کے زمانے میں ملک میں لسانیت ، مذہبی جنونیت،فرقہ پرستی اوردہشت گردی کو فروغ دیاگیا۔پیپلز پارٹی کا قلع قمع کرنے کے لئے پنجاب ،سندھ اورخصوصاََکراچی میں گھنائونا کھیل کھیلا گیا۔کراچی پر آج بھی جنرل ضیا الحق کے تیارکردہ ’’آسیب کا سایہ‘‘ ہے۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ملک میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے 55گروپ (ٹرسٹ ، این جی اوزاور مختلف تنظیموں کی صورت میں )دہشت گردی پھیلانے میں سرگرم ہیں۔پنجاب، بلوچستان، سندھ میں ان کے بڑے،بڑے آفس قائم ہیںاور عوام سے مختلف طریقوں سے فنڈز اکٹھے کرکے القاعدہ کو فراہم کیے جارہے ہیں۔رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ یہ گروپ تعلیم کے نام پر نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔بعض گروپوں کی جانب سے سیاستدانوں کے گھروں میں بھی دھوبی، باورچی اورمالی سمیت دیگر ملازمین کے روپ میں دہشت گردوں کے ساتھی موجود ہیں۔یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف حکومتی منصوبہ بندی کے بارے میں سراغ لگا کر اپنی حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔ القاعدہ ہمارے ملک میں کس انداز سے کام کررہی ہے؟مجھے نہیں معلوم کہ یہ خبر درست ہے یانہیں۔ اتنا کھل کھلاکر تو پیارے وطن میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم بھی نہیں چلائی جاتی ۔وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف نے متنبہ کیاہے کہ بھارت ہمارے دریائوں کا پانی روک کر ہمیں قحط سالی کی طرف دھکیل رہاہے ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر بھارت نے ایسا کردیا تویہاں ایتھوپیا جیسا قحط پڑسکتا ہے۔ہمارے ہاں خارجہ پالیسی سے لے کردفاعی پالیسیاں جن لوگوں نے بنائی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اب ’’سرنڈر‘‘ کرکے سویلین رہنمائوں کو حالات میں بہتری لانے کا موقع دیں۔بہتری کا یہی ایک طریقہ ہے۔اگر یہ پالیسی وضع کی گئی تو اس کے نتائج فوری طور پر رونما نہیںہوں گے مگر یہ منزل کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔