"TSC" (space) message & send to 7575

رام لیلا

آج صبح اٹھا ہوں تو میرا بلیک بیری ای میل سے بھرا ہوا ہے۔ دوست احباب اور’’فٹ پاتھ‘‘ پڑھنے والوں نے آج کے کالم ’’رام لیلا‘‘ پر بھرپور فیڈ بیک دیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے پاکستانی جنہیں اپنا دیس چھوڑے ایک عرصہ ہوگیاہے‘ ان کے گھر بار‘ بال بچے اورکاروبار تو بیرون ملک ہیں لیکن دل اورروح پاکستان میں بھٹکتی رہتی ہے۔ یہ لوگ امریکہ میں ہوں یابرطانیہ میں‘ آسٹریلیا میں ہوں یاکینیڈا میں‘ ان کا دل پاکستانی گھڑی کے ساتھ ہی ٹک ٹک کرتاہے۔’’رام لیلا‘‘ کے حوالے سے مجھے سب سے زیادہ ای میل امریکہ ، برطانیہ اورکینیڈا سے موصول ہوئی ہیں۔ای میل کرنے والے مرد اورخواتین سبھی نے یہی ایک سوال کیاہے کہ ہمارے پیارے وطن اوراس میں رہنے والے بھائی بہنوں، بزرگوں اوربچوں کو دہشت گردی سے نجات کب ملے گی؟ ان میں سے بیشتر لو گوں کاکہنا ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کافروغ عوامی فیصلوں کے بجائے حکمرانوں کے فیصلوں سے ہوا خصوصاََفوجی حکمرانوں کی من مانیوں سے بھی ہم بحرانوں کا شکار ہوتے گئے‘ لہٰذا فوج کو چاہیے کہ وہ اقتدار اورسیاست سے دور رہ کر آئین کے مطابق پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتی رہے۔ تاریخی طور پر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جنرل ایوب خان سے ’’عوام کو فتح‘‘ کرنے والی معرکہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوا اورپھر جنرل آغا یحییٰ خان،جنرل محمد ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف تک جاری رہاہے۔ یہ خود ساختہ فاتحین اپنے ہی عوام کو فتح کرتے ہوئے فیلڈمارشل، امیرالمومنین اور کمال اتا ترک ثانی بنتے رہے۔ امریکی سٹیٹ مشی گن سے ایک خاتون خاور اکرام ملک اور نیویارک سے رضیہ ڈار نے میل میں لکھا ہے کہ… مجھے پاکستان کی کہانی کو ’’رام لیلا‘‘ کا عنوان نہیں دینا چاہیے تھا… آپا خاور صاحبہ اورباجی رضیہ ڈار نے تجویز نہیں کیاکہ مجھے پاکستان کی کہانی کو کیانام دینا چاہیے تھا؟۔ اگرچہ انہوں نے نام تجویز نہیں کیامگر نکتہ اعتراض یہ ہے کہ مجھے امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے عظیم ملک پاکستان کی کہانی کو ہندوانہ نام نہیں دینا چاہیے تھا۔اپنی محترم آپائوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کیامیں اس کہانی کو ’’علی بابا چالیس چور ‘‘ کا نام دیتا یا پھر ’’سند باد کا آخری سفر‘‘ جیسا کوئی عنوان موزوں کرتا؟دنیا کے مختلف ملکوں اورقوموں میں کہانیاں اورداستانیں تو وقوع پذیر ہوتی ہیں ٗ قوموں میں قومی مسائل پر ہم آہنگی بھی ہوتی ہے اور اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے ٗ مگر کوئی بھی اپنے شہداء کی شہادت کو مشکوک قرار نہیںدیتا ٗ لیکن ہم وہ بدقسمت قوم ہیںجو اپنے شہیدوں کی شہادت کومشکوک قراردے رہے ہیں۔یہ کارنامہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کردکھایاہے ۔منور حسن بھی ساغر صدیقی کی طرح ’’پریشان ‘‘ہیں کہ وہ پاکستان کے شہیدوں اورشہادت کو کیانام دیں۔ساغر صدیقی نے کہاتھاکہ ؎ آئو بادہ کشوں کی بستی سے‘ کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں میں فسانے تلاش رکھتا ہوں‘ آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں پاکستانی’’ رام لیلا‘‘ کی بات کریں تو ہاف ٹائم کے بعدکرداروں کی نفسیات ،جزئیات اورکہانی بدل چکی ہے۔ فرید احمد پراچہ نے کہاہے کہ جماعت اسلامی کوہمیشہ فوج کی بی ٹیم کہاگیاہے۔فوج کی مذکورہ بی ٹیم نے جنرل محمد ضیاء الحق کے دورمیں طویل دورانیہ کی افغان جہاد ’’ٹیسٹ سیریز‘‘ کھیلتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو جس طرح ’’فالوآن ‘‘ کیا تھا۔ وہ عذاب جاری ہے اورہم اسے آج تک جھیل رہے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے امریکہ خطے میں اس لیے آیا تھاکہ روس نے افغانستان پر حملہ کردیاتھا۔پاکستان پر اس وقت چونکہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت تھی اس لیے حالات نے ایسا رخ اختیار کرلیاتھاکہ ہمیں گیارہ سال تک فوجی حکمران کو جھیلناپڑا تھا۔یہ سوچ سادا اورمعصومانہ ہے۔منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جعلی مقدمے کے تحت پھانسی پر اس لیے چڑھایاگیاتھاکیونکہ ’’رام لیلا‘‘ کے اگلے مناظر میں امریکہ نے سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ لڑنا تھی۔سرمایہ دارانہ نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کی اس عالمی جنگ میں پاکستان میں امریکہ کو کٹھ پتلی ڈکٹیٹر حکمران چاہئیں تھے‘ اس لیے جنرل محمد ضیاء الحق کا نام نہاد اسلامی برانڈ انقلاب لایاگیاتھا۔جماعت اسلامی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ طالبان کی قیادت اورالقاعدہ کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اس کی وجہ جماعت اور طالبان میں نظریاتی ہم آہنگی ہے۔امیر جماعت اسلامی منور حسن کی طرف سے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو ’’شہادت‘‘ اورپاکستانی فوجیوں کی شہادت کو شہادت نہ قراردینے کے حوالے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پیارے وطن میں مُلّا ملٹری الائنس(خصوصاََجماعت اسلامی کے حوالے سے) کا وائنڈ اپ (خاتمہ ) ہوگیاہے۔اس ٹوٹتے رشتے پر مہر تصدیق آئی ایس پی آر نے لگائی ہے جس میں جماعت کے امیر اورجماعت سے کہاگیاہے کہ وہ شہیدا ء کی توہین کرنے پرقوم سے معافی مانگیں۔ افواج پاکستان کی ڈاکٹر ائن میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جسے مثبت اورخوشگوار قراردیاجاسکتا ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی فوج اورانٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے۔ چاہے وہ جہاد کشمیر ہو یا جہاد افغانستان یا پھر ملکی سیاست جیساکہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی ) کی تشکیل ہوئی تھی۔جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے وزیر اعظم نوازشریف کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے سے روکا جائے۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت یا شہادت کے بعد نکتہ دانوں نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔سوال کیاجارہا ہے کہ اگر بقول مولانا فضل الرحمن امریکی حملے میں مارے جانا والا کتا بھی شہید ہے تو ان روسیوں کے مرنے کوکیانام دیا جائے جو امریکہ ، پاکستان اورافغانستان کے اتحاد سے مارے گئے تھے؟ یہ بھی سوال کیاگیا ہے کہ بستی لال کمال کی فضا میں فوج کے طیارے سی ون تھرٹی کے کریش ہونے کے سانحہ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ امریکی جرنیل رافیل کی ہلاکت کو کیاکہاجائے ؟ ایک ہی طیارے میں کون شہید ہوا اورکون ہلاک؟ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ روس جارحیت کرتے ہوئے افغانستا ن میں گھس آیا تھا اور اس کا اگلانشانہ پاکستان تھا۔ 80ء کی دہائی میں امریکہ کی ساتھ مل کر روس کے خلاف جہاد کرنے کا سبب روسی جارحانہ عز ائم تھے۔یہ وقت کا تقاضا تھاکہ ہم امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ کرتے‘ وہ ہماری اپنی جنگ تھی جبکہ آج ہماری فوج اورحکومت امریکی جنگ لڑرہی ہیں۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد جو دستاویزی ثبوت سامنے آئے ہیں‘ ان روسی جنگی عزائم میں کہیںبھی یہ ذکر نہیںکہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے روس پاکستان پر حملہ آور ہونے والا تھا۔روسی تھنک ٹینکس توجیہہ یہ پیش کرتے ہیںکہ پاکستان میں روس کے آنے سے ان کااہم اتحادی بھارت خوفزدہ ہوسکتاتھا ۔ امریکہ اور اس کے عالمی اتحادیوں کی روس کے ساتھ جنگ کے موضوع پر Ninth Company کے نام سے فلم میں روسی نوجوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف جنگ لڑتا ہے ۔ فلم کے آخری مناظر میں امریکہ اورروس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوتا ہے اور سوویت یونین کی حکومت اس نوجوان کو جنگی اعزاز سے نوازتی ہے۔کچھ عرصہ بعد ہی سوویت یونین کی عظیم ریاست ٹوٹ کے بکھر جاتی ہے۔ نوجوان ان دنوں سوویت یونین کی طرف سے ملنے والا’’ تمغہ حسن کارکردگی‘‘سینے پر سجائے جب گلیوں اوربازاروں میں نکلتا ہے تو لوگ اسے کہتے ہیں: تم کس اعزاز پر فخر کررہے ہو؟جس ملک نے تمہیں یہ تمغہ دیا تھا وہ ریاست تو اب موجود ہی نہیں ہے… پاکستان کی ’’رام لیلا‘‘ میں جماعت کی حیثیت بھی کچھ ایسی ہے جس میں وہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر اپنے نظریاتی وجود کے متعلق سوال پوچھ رہی ہے ۔منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف کی طرف سے شہدا کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جانے کامنظر خوش کن تھا۔ پروردگار اس ’’رام لیلا‘‘ میں ملٹری پر ڈیموکریسی کی سپر میسی کو دوام بخشے… آمین! (ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں