"TSC" (space) message & send to 7575

انشا اللہ

پاکستان میں منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی پر بھی لٹکایاگیااورجلاوطن بھی کیاگیا لیکن جرنیلوں کا ’’وقت احتساب‘‘آیا توتاویلوں کاسہارالیاگیا کہ یہ وقت اس کام کے لیے مناسب نہیں،خواہ مخواہ پنڈورا باکس کھل جائے گا۔پنڈورا باکس ہوتاکیا ہے ؟قدیم یونان میں تصور پایاجاتاتھاکہ جنت سے اترے صندوق میں سے انسانوں کے لیے خوشیاں برآمد ہوتی ہیں مگر انسانوں کے برے اعمال کے باعث صندوق میں دنیا بھرکی مصیبتیں اکٹھی ہوگئی ہیں،اس لیے سوچاجانے لگا کہ پنڈوراباکس کے بندرہنے میں ہی بھلائی ہے۔ پیارے وطن پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں منتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے،عوام کے منتخب نمائندوں کو آئین اورقانون سے ماوراپھانسی پرچڑھانے اورجلاوطن کرنے کے بدترین اقدامات کو ’پنڈورا باکس‘ کبھی نہیں سمجھا گیا۔اس کے برعکس ڈکٹیٹروںکو قانون کے کٹہرے میں لانے کے ’نیک کام ‘کو پنڈوراباکس قراردیاجاتارہا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس قومی سیاست میں اچھی خاصی تندی لے آئی ہے۔عام تاثر یہ تھاکہ چودھری صاحب سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے ہی بات کریں گے لیکن انہوں نے جنرل مشرف کے حوالے سے آرٹیکل 6پر عمل در آمد کرنے کا اعلان کرکے پاکستانی سیاست میں تہلکہ مچادیا ہے۔باخبر حلقوں کا کہناہے کہ اگرنوازشریف حکومت جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت قدم نہ اٹھاتی تو بلوچستان سمیت ملک کے دوسرے حصوں میںقانون شکنوں پر ہاتھ ڈالنا گمبھیر مسئلہ بن جاتا ۔ نواز حکومت نے اس اقدام سے اپنے لیے بہت سے سنگین مسائل پیدا کرلیے ہیںلیکن اس کے لیے یہ کرنا ضروری ہوگیاتھا۔ تغیرات کے وقوع پذیر ہونے اورگلوں کو بالآخر کانٹوں پر ثبات نصیب ہونے کے بارے میں ساغر صدیقی نے کہاتھا : تغیرات سے افزوں ہے ارتقا کا مزاج ملا ہے گُل کو چمن میں ثبات کانٹوں پر جن مخصوص نظریات ،سوچوں اورڈاکٹرائن نے پیارے وطن کو اس مقام تک پہنچایا، نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے یہ کہانی سمجھ میں آئی۔ یہ’وقوعہ‘ یوںہواکہ تین برس قبل مجھے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل ہونا پڑاجہاں ایک چھوٹی سرجری کے لیے مجھے انیستھیزیا(Anesthesia)دیا گیا۔آپریشن کے بعدانتہائی نگہداشت کے وارڈمیں،مَیں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا مگر وہاں بھی ’’مذاق رات‘‘ جاری تھے۔بعد ازاں وارڈ میں منتقل کیاگیاتو وہاں میرے تیمار داراداکار خالد عباس ڈار تھے جو میرے بزرگ بھی ہیں۔۔میرے سراہنے مسٹر تیماردار یعنی ڈار صاحب اورایک ریٹائرڈ فوجی افسر کے درمیان ٹاک شوچھڑا ہوا تھا۔میں نے طویل دورانیے کاوہ ٹاک شو بقائمی’’ بے ہوش وحواس‘‘ سنا جس کا لب لباب یہ ریٹائرڈ فوجی نے یوںآرڈر کیا۔۔۔۔۔۔سیاستدان چونکہ ان پڑھ،نا اہل اورکرپٹ ہیں،ان میں بیشترعامیانہ فہم وفراست اورغیر تربیت یافتہ بھی ہیں ،لہٰذا انہیں حکومت سونپنا ایسے ہی ہے جیسے آپ مرسڈیزکسی ٹرک ڈرائیور کے سپرد کردیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ’’یہ غازی تیرے ُپراسرار بندے‘‘ملک کو مرسڈیز سمجھتے ہیں! انہی دنوں میرے بڑے بھائی اور عزیز دوست اداکار سہیل احمد المعروف عزیز ی مجھے لاہور کے پوش علاقے میں اپنے ساتھ ایک دعوت میں لے گئے۔سہیل احمد صاحب ایک ہمدرد انسان ہیں،ان کے ذہن میں یہ تھاکہ میں نے چونکہ حال ہی میں ایک عدد آپریشن جھیلا ہے اس لیے مجھے اپنے روزمرہ کی صحافت سے چند دن’’پرہیز‘‘اختیار کرنا چاہیے،لیکن وہ دعوت میری جمہوری طبع نازک کے لیے ’’کورکانفرنس ‘‘ ثابت ہوئی۔اس محفل میں اتفاق سے چند ریٹائرڈ فوجی افسران موجود تھے جن کی گفتگو کا لب لباب یہ تھاکہ ملک کودرپیش بحرانوں اوربرے حالات کی ذمہ دار ’پولیٹیکل لیڈر شپ‘ ہے۔ ایک ریٹائرڈ صاحب نے وزیر اعظم کا نام لے کر کہا:پی ایم صاحب کو تو پینٹ کوٹ پہننا بھی نہیںآتا،یہ ملک کیاچلائیںگے ؟اس کے بعد مسٹر ریٹائرڈ نے کہاکہ پی ایم اکثر نیلے پینٹ کوٹ کے ساتھ پیلے رنگ کی جرابیں پہن لیتے ہیں ۔اس ڈیزائن کی جمہوری میچنگ اورکمبی نیشن کا سن کر وہاں موجود سبھی لوگ قہقہے لگانے لگے ۔ان ریٹائرڈ صاحبان کاکہنا تھاکہ پاکستان کی سیاست اورجمہوریت عملی طور پرمحض ایک فراڈ کانام ہے۔اس جمہوریت کو اخباری کالموں ،ادارتی صفحات اورٹی وی چینلز کے ٹاک شو ز میں گلوری فائی تو کیاجاتاہے مگر حقیقت میں جمہوریت سے عوام کا ککھ(رتی برابر)بھلانہیںہوتا۔ ریٹائرڈ صاحبان کایہ بھی کہناتھاکہ جاگیرداراورصنعت کار کروڑوں روپیہ انوسٹ کرکے قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں اس لیے نہیں پہنچتے کہ وہ غریب عوام کا بھلا کریں گے؛بلکہ وہ سیاست کوایک منافع بخش بزنس سمجھتے ہیں۔ریٹائرڈ صاحبان نے اس کے بعد پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروںکے نام لے کر ان کے اثاثوں کی تفصیل بتانا شروع کردی ۔اس ’’ اولڈایج بینیفٹ ایجنسی‘‘ کے مطابق ہمارے تمام لیڈروں کی دولت اورجائیدادیں بیرونی ممالک میں ہیں۔ان کی نظر میں مختلف سیاسی، جمہوری اورمنتخب رہنمائوں کی سیاسی جدوجہد اورقربانیاں کچھ معنی نہیںرکھتیں ۔ان کا کہناتھاکہ دنیامیں لاکھوں اورکروڑوں لوگ اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے انتھک محنت کرتے ہیں،معاشی ترقی کے لیے ہر جائزوناجائز کام بھی کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات ان کی جان بھی چلی جاتی ہے ،تو کیاایسے لوگوں کو ہمیں عظیم رہنما اورشہید کا درجہ دے دینا چاہیے؟ ہمارے ہاں منتخب،جمہوری،آئینی اور عسکری قیادت کے مابین اختیارایک مسئلہ رہاہے۔گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان قائد اعظم کے حکم کے مقابلے میں جنرل گریسی کے حکم کی تعمیل کی گئی تھی ۔تقسیم کے بعد انگریز فوج کے جنرل گریسی کو پاکستانی افواج کا چیف آف دی جنرل سٹاف اورڈپٹی کمانڈر ان چیف بنایاگیاتھا۔جنرل گریسی نے گورنر جنرل کے طور پر قائداعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے فوج کوکشمیرنہ بھیجااوراس حکم عدولی میں ایوب خان نے جنرل گریسی کا ساتھ دیا۔ایوب خان اس وقت بریگیڈئر تھے ۔پاکستان میں لگائی جانے والے مارشل لائوں کے ’’بانی ‘‘ایوب خان ہی تھے۔انہوں نے اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میںلکھا ہے کہ انہیں پاکستان میں مارشل لاء لگانے کا خیال امریکہ کے ایک سیون سٹارہوٹل میں آیاتھا۔اپنی سرگذشت میں جنرل صاحب نے اس خنک اوررنگین رات کانقشہ کھینچا ہے جب انہوں نے سوچا اور ہمارے مقدر کی مانگ میں فوجی انقلاب کا’سندور‘بھر دیا۔ بعد میں آنے والوں پیشوائوں،جن میں جنرل آغا محمدیحییٰ خان ،جنرل محمد ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف شامل رہے، نے اپنے پیش رو کی قائم کردہ روایات کو ہی اپنایا۔کہاجاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، فیلڈ مارشل ایوب خان کی پیداوار تھے یعنی ایوب خان بھٹو کو سیاست میں لائے تھے۔اسی طرح میاں نوازشریف کی پرورش وپرداخت بھی جرنیلوں کے کھاتے میںڈالی جاتی ہے۔ اس ضمن میں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ ہمارے ہاں چونکہ لیڈر شپ گھڑنے کا اختیار صرف عسکری ٹکسالوں کوہی تھا اس لیے پتھر کے صنم وہیں گھڑے گئے، بت خانوں میں بھگوان تراشنے کی کہانیاں بعدمیں رقم ہوئیں۔اس حقیقت کی تمثیل یوں بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ’’ موسیٰ فرعون کے محل میں ہی پیدا ہوتاہے‘‘۔ اس وقت پاکستان کی مین سٹریم پولیٹکل لیڈر شپ کی 90فیصد شخصیات جنرل محمد ضیاء الحق کی متعار ف کرائی ہوئی ہیں۔اس لیڈر شپ میں خود میاں برادران ،چودھری برادران اوردوسرے کئی برادران شامل ہیں۔ ایم کیوایم بھی جنرل ضیا کے دور میں پھلی پھولی۔ شاید تاریخ ہمیںاس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہمیں ہرقسم کا پنڈوراباکس کھول دینا چاہیے ۔جرنیلوں کو یقین ہے کہ ہماری لیڈر شپ نااہل اورکرپٹ ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ 90فیصد لیڈر شپ انہی کی مینوفیکچرڈ ہے۔آرڈر پر مال تیار کرنے کے مصداق لیڈر شپ گھڑنے کی ٹکسالیں بند ہونی چاہئیںاورعوام کو اس کے ووٹ کا اصل حق فراہم کرنا چاہیے۔اس طرح ایک نہ ایک دن قوم کو حقیقی لیڈر شپ بھی نصیب ہوجائے گی۔۔۔۔انشا اللہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں