"TSC" (space) message & send to 7575

بلاّ، ڈکٹیٹر اور توہینِ موسیقی

ان دنوں سیاست کے بالی وڈ میں جگل بندی جاری ہے کہ ''اصل بلاّکون ہے؟‘‘۔ آصف علی زرداری نے یہ نہیں بتایاکہ وہ بلاّ کسے کہہ رہے ہیں لیکن ہم سب پاکستانی جانتے ہیں کہ بلاّکون ہے؟ اشارے کنایے میں بات کرنے سے بہتر ہے کہ بات دوٹوک انداز میں کی جائے ۔آصف علی زرداری نے سابق صدر اورآرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ''بلاّ‘‘ کہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ''بلاّ قابو آگیا ہے، اب اسے بچ کر نہیں جانا چاہیے ،اگر نواز حکومت بلے ّکو قانون کے مطابق سزادے گی تو ہم ساتھ دیں گے‘‘۔آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو بلاّ کیوں کہا؟کسی اورسے تشبیہہ کیوں نہیں دی ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاّ اپنی جبلت کے مطابق رات کو شکار کرتا ہے۔وہ رات کی تاریکی میں دیواریں پھلانگ کر دودھ پی جاتا ہے اور صبح جب گھروالے اٹھتے ہیںتو برتن خالی ہوتا ہے۔آصف علی زرداری نے پرویز مشرف اوران کے پیش رووں کو استعاراتی طور پر بلاّ کہا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل آغا محمد یحییٰ خان ،جنرل محمد ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف سب نے آئین اورقانون کی دیواریں پھلانگ کر اس ملک پر اپنا قبضہ جمایا تھا ،اس لیے جب آصف علی زرداری نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کو بلاّ کہاتو بات سب کو سمجھ آگئی کہ وہ کیاکہہ رہے ہیں؟
حسن اتفاق سے میں Cats (بلّوں اوربلّیوں) کے متعلق جانتا ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے گھر پر بھی گزشتہ چار سالوں سے تین عدد بلّیوں کاقبضہ ہے ۔ان میں دوبلّیاں اورایک بلاہے ۔بلّیوں کے نام ایپل اورنیسی ہیں جبکہ بلّا رابرٹ ڈی نیرو ہے۔آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رابرٹ ڈی نیرو ہالی وڈ کا سینئرسٹار ہے ۔ جبکہ اپنے والا سٹار (بلاّ) ہالی وڈ میں نہیں میرے گھر میں ہی شوٹنگ میں مصروف رہتا ہے۔ Catsکی کئی ایک نسلیں ہیں۔یہ جنگلوں سے لے کر گلی محلوں تک میں رہتی ہیں اورگھروں میں بھی رکھی جاتی ہیں۔گھر کے بلّے اوربلیاں یوں تو فطری ماحول سے محروم رہتے ہیں مگر پھر بھی اپنی خصوصیات برقرار رکھتے ہیں۔گھروں میں رہنے والے پالتو بلّوں کی طبیعت میں شدت پسندی کم ہوجاتی،تاہم آزاد اور آوارہ بلّے اپنی فطری طبع کے ساتھ جیتے ہیں ۔
آوارہ بلاّاپنی خصلت کے مطابق اپنا ایک علاقہ مقرر کرتا ہے جسے وہ اپنی ریاست سمجھتا ہے ۔ اس کے علاقے میں کسی دوسرے بلّے کو گھسنے کی اجاز ت نہیںہوتی۔اگر کوئی بلّا بھولے سے بھی اس کے علاقے میںگھس آئے تو یہ اس سے ایسے ہی نبٹتا ہے جیسے گھس بیٹھیوں سے نبٹا جاتاہے۔یہ اپنے علاقے میں اپنی بالادستی قائم رکھتا ہے ۔بلاّفطری طور پر بڑا مغرور ہوتاہے ۔فیہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔عام طور پر پالتو جانورگھر کے مالک کو اپنا کفیل اورمالک خیال کرتا ہے مگر پالتو بلّا اپنے مالک کو بھی اپنا سٹاف(نوکر) جبکہ خود کو سٹاف کا چیف سمجھتا ہے۔جیسا کہ بیان کیاگیاہے کہ آزاد بلّے اپنی فطری منشا کے مطابق جیتے ہیںاورپالتو بلّے قدرے غیر فطری زندگی گزارتے ہیں۔پالتو بلیّ جنہیں نیوٹرل (نسل بڑھانے کی صلاحیت سے محروم) کروادیا جاتا ہے وہ ایک شانت زندگی گزارتے ہیںجبکہ آزاد بلّے فطری قوتوں سے مغلوب ہوکر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔آزاد بلّے اپنے ساتھی کی تلاش میں میلوں اِدھر ُادھر بھٹکتے ہیں۔یہ بعض اوقات ٹریفک سے بھری سڑکوں پر نکل آتے ہیںجہاں کوئی تیز رفتار گاڑی ان کوکچل بھی دیتی ہے۔آزاد بلّے اپنے ساتھی (بلّی ) کی تلاش میں جب اِدھر ُادھر گھوم رہے ہوتے ہیںتویہ بھی بھول جاتے ہیںکہ وہ کہاں سے چلے تھے اوران کی منزل کہاں ہے ؟ایسے میں ان کی زندگی کو ٹریفک سے شدید خطرے کے علاوہ دوسرے بّلوں سے بھی خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ شدت ِجذبات میں ''لائن آف کنٹرول ‘‘عبور کرلیتے ہیں۔ 
ذرا غور کریں تو لگتاہے کہ بلّے اورڈکٹیٹر میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔بلاّدیواروں کو پھلانگتاہے اورڈکٹیٹر آئین اورقانون کی چار دیواری میں نقب لگاتاہے۔اس قدرِ مشترک کے باعث آصف علی زرداری نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کو بلّا قرار دیا ہے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ بلاقابوآگیا ہے ،اب بچ کے نہیں جانا چاہیے لیکن نوازشریف سے زیادہ نوازشریف کے وفاداروںنے انہیں مشورہ دیا ہے کہ بلّے کو کچھ نہ کہیں بلکہ اسے پتلی گلی سے نکل جانے دیں۔ان کا کہنا ہے کہ آصف زرداری سیاست کررہے ہیں اورنواز حکومت کو پھنسانا چاہتے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرنے کا اعزاز پیپلز پارٹی کے بجائے نون لیگ کے پاس ہے۔ہم نے دیکھا ماضی قریب میں جب ملک پر پی پی پی کی حکومت تھی تو مختلف ریاستی اداروں نے اسے ''ہینڈ ز اپ ‘‘ کرارکھاتھا۔میموگیٹ سیکنڈل اورپی پی پی کے منتخب وزیر اعظم کا توہین عدالت کیس میں سزاپاکر اپنے عہدے 
سے ہٹائے جانے کے فیصلے سے یہ راز افشا ہواتھا کہ کون اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اورکون اس کا Buddy( جگری دوست ) ہے۔شیخ رشید نے آصف علی زرداری کے بیان اورمیاں برادران کے حکومتی فیصلے پر اپنا تیزابی تبصرہ کیاہے۔شیخ رشید نے کہا ہے کہ بلّا تودودھ پیتا ہے یہ خون پیتے ہیں۔شیخ رشید نے ''دنیانیوز‘‘ کے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے پروگرام ''ٹاپ سٹوری ‘‘ میں کہاکہ میاں برادران کے منہ سے جنرل مشرف کے لیے ڈکٹیٹر اورآرٹیکل 6کا شوروغوغا عجیب واقعہ لگتا ہے۔کس کو نہیں پتہ کہ ان کی سیاست میں اینٹری کیسے ہوئی تھی؟اظہر سہیل مرحوم نے جمہوری الیگزینڈر یہ کا یہ عظیم روٹ یوں بیان کیاتھاکہ جنرل غلام جیلانی نے انہیں تخلیق کیا ٗ جنرل اختر عبدالرحمن نے آگے بڑھایا ٗ جنرل حمید گل نے انہیں راستہ دکھایا ٗ جنرل اسد درانی نے اقتدار تک پہنچایااورجنرل جاوید ناصر ان کے مشیر اقتدار ہوئے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں وہ جمہوری ٹارزن نصیب ہوئے جو فوجی جم خانوں کے پہلوان تھے۔شیخ رشید سے لے کر میاں برادران اوربھٹو صاحب سے لے کر چودھری برادران تک سب فوجی برینڈڈ لیڈر ہیں۔بھٹو صاحب کو فیلڈ مارشل ایوب خان اورمیاں برادران کو جنرل ضیاالحق سے منسوب کیاجاتاہے۔ تاریخ ِانسانی کا مطالعہ کریں تو حضرت موسیٰ بھی فرعون کے محل میں پلے بڑھے تھے مگر بعدا زاں انہوں نے خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو انجام تک پہنچایا۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں آغاز سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے سازشوں سے جمہوریت کو اپنی باندی اورغلام بنا لیا اور پھر ا س کی کوکھ سے فارمی قسم کی لیڈر شپ پیدا ہوئی ۔ فارمی لیڈر شپ کو آئی جے آئی کے '' ٹیکے اورپولیو کے قطرے ‘‘پلائے گئے ۔ اس سے قبل بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی 90فیصد لیڈر شپ فوجی نرسریوں اور ٹکسال کی پیداوار ہے ۔شیخ رشید صاحب سے معذرت کے ساتھ یہاں چونکہ فوجی ٹکسال ہی لیڈر شپ پیدا کررہی تھی ، اس لیے ہر قسم کے محمود وایاز وہیں سے ''معرض ِوجود‘‘ میں آئے۔
آخر میں عرض یہ کرنا ہے کہ اگر ہم نے دنیا میں ایک عزت دار قوم کہلانا ہے تو ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔پاکستان کی افواج آئینِ پاکستان کے تحفط کی ضامن ہیں۔انہیں آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مہذب قوموں کی طرح آئین اورقانون کی بالادستی قائم کریں ۔عدالت آئین اورقانون کے مطابق جنرل ریٹائرڈ مشرف کا ٹرائل کررہی ہے ۔یہ عمل ہمارے لئے اطمینان کا باعث ہونا چاہیے۔فوجی ٹکسالیں بند ہونی چاہئیں تاکہ عوام کو براہ راست اپنے نمائندے منتخب کرنے کے مواقع میسر آسکیں۔
وضاحت...مورخہ 28دسمبر کو شائع ہونے والے میرے کالم''اللہ وسائی سے ملکہ ترنم نورجہاں تک‘‘ میں بیان کیاگیا تھاکہ موسیقار ماسٹر عبداللہ نے پنجابی فلم''ملنگی‘‘ کے لئے پہلی بار نورجہاں سے جو پنجابی گیت گوایاتھا اس کے بول تھے ''میں چھنکائیاں ونگاں‘‘ جوکہ غلط ہے۔ گجرانوالہ سے سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ اوربلجیم سے کامریڈ پال نے لکھا ہے کہ اس گیت کے بول تھے ''ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں ‘‘ ۔یہ گیت فردوس بیگم پر فلمبند کیاگیاتھا جو درست انفارمیشن ہے ۔ملکہ ترنم نورجہاں اوران کے پرستاروںسے اس''توہین ِموسیقی ‘‘ پر معذرت خواہ ہوں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں