"TSC" (space) message & send to 7575

چھٹی

کبھی کبھی لگتا ہے کہ بدقسمتی کے کیری پیکروں نے ہمارے برے نصیبوں پر''سٹے‘‘ (حکم امتناعی) حاصل کررکھا ہے جس کی وجہ سے ہمارا مقدر نہیں بدلتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تیسری دنیاخصوصاًََ پاکستان میں المیہ گیت گانے والے فنکاروں کو سٹار اورمیگاسٹار سمجھاگیا ہے ۔ پاکستان میں خواب دکھانے والے انقلابی لیڈروں اوردکھی گیت گانے والے گلوکاروں کو پسند کیاجاتارہا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے ہوں یا عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے میوزک کنسرٹس،ان میں اس ملک کے ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔ پاکستان میں ٹریجڈی کوئین، دکھی ورلڈ کی ہول سیل ریکارڈ ہولڈر اور ہاٹ فیورٹ سمجھی جانے والی نصیبو لال نے ان گنت ٹریجک سونگز گائے ، لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں ، پاکستان اپنے آغاز سے ہی ٹریجڈی گیتوں کی مارکیٹ رہا ہے۔ نصیبو لال سے لگ بھگ نصف صدی پہلے بڑے ظریف صاحب نے فلم ''چھومنتر‘‘میں ہماری قوم کے برے نصیبوں کا اعلان یوں کیاتھا ؎
برے نصیب میرے، ویری ہویا پیار میرا
نظر ملاکے کوئی لے گیا، قرار میرا
میاں محمد نوازشریف صاحب ہیٹرک کے بعد ڈاکٹریٹ بھی کرگئے مگر پاکستانی عوام کے ُبرے نصیب جوں کے توں ہیں۔ 
کسی شریر اینکرپرسن نے شیخ رشید سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا کہ وزیر اعظم صاحب کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی اوراب وہ ڈاکٹرمیاں محمدنوازشریف بن گئے ہیں۔شیخ رشید نے الٹا اینکر پرسن سے سوال کردیا کہ کیا میاں صاحب کو غریب عوام کو تنگ کرنے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے؟ شیخ رشید کی سچائی اورمیاں صاحب کی جگ ہنسائی کو انگور کھٹے کہنے والے بھی بہتیرے ہیں جو شیخ صاحب کا ماضی یاد دلاتے ہوئے وہ منظر بھی بیان کرتے ہیں جب اسی اسمبلی میں شیخ رشید ، میاں نوازشریف کے ہم نوا ہوا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شیخ رشید'' میاں سے زیادہ میاں کے وفادار‘‘ تھے اورکمپنی کی مشہوری کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو پرآوازے کسا کرتے تھے۔ لیکن معمر قذافی کا قول ہے کہ ماضی کو بھول جائو آج کی بات کرو ۔ یوں بھی پاکستان کی سیاست کے بنجردریائوں پر قائم کئے گئے پلوں پر سے مفادات کی دوطرفہ ٹریفک کے بہائو نے نظریاتی سیاست کا نام ونشان مٹادیاہے۔پرانے ترقی پسند اب تاجروں اورصنعت کاروں کی لمیٹڈ اورکارپوریٹس پارٹیوں میں تنخواہ دار دانشور تعینات ہیں۔
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی مسلسل عدم حاضری کے باعث ان کی نشست خالی قراردینے کی تحریک جمع کرائی گئی ۔ یہ تحریک پیپلز پارٹی کے رکن عمران ظفر لغاری نے رول 44کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جس میں کہاگیا کہ آئین کا تقاضا ہے کہ ہر رکن قومی اسمبلی میں اپنی حاضری کویقینی بنائے لیکن قائد ایوان کی نشست پر کسی شخص نے 4ماہ کے دوران حاضری نہیں دی ، لہٰذا اس نشست کو خالی قراردیاجائے ۔ یوں تو یہ تحریک پیپلز پارٹی کے عمران ظفر لغاری کی طرف سے پیش کی گئی مگر شیخ رشید بھی اس کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئے جس پر قومی اسمبلی کے سپیکر ایازصادق نے ان سے کہاکہ جن کاآپ ذکرکررہے ہیں ان کی طرف سے چالیس روزکی چھٹی کی درخواست موصول ہوئی تھی جسے منظور کرلیاگیا تھا۔ سپیکر صاحب نے شیخ رشیدکو میاں محمد نوازشریف کی طرف سے رجسٹرحاضری میں چھٹی کی درخواست دکھادی ۔میاں صاحب کی چھٹی کی درخواست کے بارے میں شیخ رشید کا کہنا تھاکہ سپیکر صاحب نے مجھے وزیر اعظم کی چھٹی کی درخواست دکھاتو دی ہے، لیکن اسے دیکھتے ہوئے صاف لگ رہا تھا کہ درخواست کے نیچے میاں صاحب کے دستخط تازہ تھے۔ 
نون لیگ کی آٹھ ماہ کی اس حکومت میں قومی اسمبلی میں میاں صاحب کی آمد ریکارڈ کاحصہ ہے۔ میاں نوازشریف یکم جون 2013ء کو 14سال بعد قومی اسمبلی میں تشریف لائے، اس دن انہوں نے رکن اسمبلی کا حلف اٹھایا ۔ دوسری مرتبہ 3جون کو تشریف لائے جب سپیکر اورڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں لایاگیا۔5جون 2013ء کے دن ان کی آمد لازمی تھی کیونکہ اس دن لیڈر آف دی ہائوس کا انتخاب ہوا تھا۔12جون کو پہلاوفاقی بجٹ پیش کیاگیا،اس روز بھی غیر حاضری نہیں کی جاسکتی تھی۔ 29جولائی کو بھی میاں صاحب نے ایوان کو رونق بخشی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دن صدر پاکستان کا انتخاب ہونا تھا جس میں ان کی شمولیت باعث مسرت وافتخار سمجھی جانا تھی۔
میاں برادران کی سیاست سے اختلا ف کرنے والے احباب کاکہنا ہے کہ چھوٹے میاں پنجاب اسمبلی اوربڑے میاں قومی اسمبلی سے غیر حاضر ہوتے ہیں، میاں برادران اپنی اپنی اسمبلی میں نہیں آتے ، ان کے رجسٹر حاضری نجانے کہاں پڑے ہیں؟ماضی کے عوامی اداکار اقبال حسن کی ایک فلم ''غیر حاضر‘‘ فیل ہوگئی تو وہ بہت پریشان ہوئے ۔ منورظریف نے اقبال حسن سے پوچھا کہ پریشان کیوں ہو؟اقبال حسن نے بتایا میری فلم ''غیر حاضر‘‘ فیل ہوگئی ہے ۔ منورظریف نے کہا۔۔۔جو غیر حاضر رہے گا فیل تو ہوگا ، لیکن یہاں کوئی فلمی سچوایشن نہیں ہے۔
میاں صاحب انرجی کرائسس کے حل کا تھر کول منصوبہ شروع کرنے کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرنے جارہے ہیں۔طالبان سے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ امن کا حل ایک خواب دکھائی دیتاہے لیکن بعض باخبرذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔گزشتہ روز پہاڑوں سے اتر کر زندہ دلوں کے شہر تشریف لانے والے ایک ایسے کہنہ مشق سے ملاقات ہوئی جسے طالبان اورالقاعدہ کے ماسٹر مائنڈز تک رسائی حاصل رہی ہے ۔اس باخبر تجزیہ نگار کا کہنا تھاکہ طالبان کی اکثریت اپنے مقدمات ختم کراکے سیاسی ، سماجی اور معاشی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جان چکے ہیںکہ ان کی افرادی اورمخصوص مذہبی ونظریاتی قوت کے باعث پاکستان کے حکمران ان کے نمائندہ سمجھے جانے والے مذہبی رہنمائوں کے ہر قسم کے لاڈ برداشت کرتے ہیں۔ میں نے سوال کیاکہ طالبان تو ہمارے اس جمہوری ڈھانچے کو تسلیم ہی نہیں کرتے جس کے تحت انتخابات کرائے جاتے ہیں، آئین اورقانون وجود میںآتا ہے اورپھر ایک سیاسی اورمعاشرتی نظام وجود میں آتا ہے؟کہنہ مشق کا جواب یہ تھا کہ کیاآپ کے اس جمہوری اورسیاسی نظام کو جنرل ریٹائرڈ مشرف اور اس مائنڈسیٹ کے دیگر اہل وطن 
تسلیم کرتے ہیں؟فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ ،جنرل ضیااورجنرل مشرف نے بھی آئین اورقانون کی دھجیاں بکھیری تھیں۔ انتہا پسندانہ سوچ کا ''بم ‘‘ جنرل ضیااورجنرل مشرف سمیت بعض سویلین حکمرانوں کے دور میں مینوفیکچر کیاگیا ، لہٰذا اب اسے ''ڈی فیوژ‘‘ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وطن عزیز میں آئین اورقانون کی بالادستی قائم کی جائے جس کے بعد آئین سے انحراف کرنے کے عمل کو بھی گناہ کے مترادف سمجھا جائے۔ بعض خوش فہم جنرل ریٹائرڈ مشرف کے فیئر ٹرائل کو اس سفر کی ابتدا قراردے رہے ہیں، اگر قوم نے یہ مرحلہ آئین اورقانون پر عمل پیرا رہتے ہوئے بخیر وخوبی طے کرلیاتو ہماری منزل کا'' قطب نما‘‘اوربھی واضح ہوجائے گا۔ مشرف کا فیئر ٹرائل ایک ہاری ہوئی قوم کو حوصلہ اورآگے بڑھنے کی سمت عطا کرے گا اور طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھے گا۔
آخر میںہمیں یہی کہنا ہے کہ کسی ڈکٹیٹر کی طرف سے آئین شکنی ہویا کسی جمہوری رہنما کی طرف سے اسمبلی سے غیر حاضری ، ہم کسی رویے کو بھی آئین کی پاسداری کی سند نہیں دے سکتے۔ یہ درست ہے کہ میاںصاحب بطور وزیر اعظم قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، لیکن انہیں اسمبلی میں حاضر ہوناچاہیے ، چھٹی بھی ان کا استحقاق ہے لیکن اس ایوان میں بھی جلوہ گر ہونا چاہیے جسے سجانے کے لیے جمہورنے ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ میاں صاحب کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کا د اخلہ کسی ایسی ویسی یونیورسٹی میں نہیں ہوگیا جہاں حاضری تو درکنار سارے کا سارا سبق یاد کرنے پر بھی چھٹی نہیں ملاکرتی:
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں