"TSC" (space) message & send to 7575

اپسرائوںکا شہر جموں (2)

میرے دادا اللہ رکھا میر جموں پولیس میں آفس سپرنٹنڈنٹ ہوا کرتے تھے لیکن انہوں نے آزادی سے کچھ عرصہ قبل اپنی مرضی سے ڈوگرہ پولیس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ڈوگرہ پولیس سے علیحدگی کی وجہ بھی جدوجہد آزادی ہی تھی۔ میرے دادا کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس سے بے حد متاثر تھے اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ریاست کی آزادی کے لئے جدوجہد میں مصروف تھے۔ چونکہ ایک عرصہ تک ڈوگرہ پولیس سے وابستہ رہنے کے باعث محکمہ کے سرکردہ افراد سے ان کے دوستانہ مراسم تھے اس لیے ان پر ہندو اور سکھ بلوائیوں کا گھنائونا منصوبہ آشکار ہو گیا تھا۔ میری دادی، والد اور دوسرے رشتہ دار اپنی داستان غم سناتے ہوئے بتایا کرتے کہ ہمارے خاندان کے بعض افراد شہید ہو گئے تھے اور جو خیریت سے سیالکوٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے‘ اس کی وجہ دادا کی ڈوگرہ پولیس میں نوکری ہی تھی۔ ہمارے بزرگوں کو جموں سے بخیریت سیالکوٹ پہنچانے میں دادا کے بعض سکھ اور اکا دکا ہندو بھی مددگار ثابت ہوئے۔
میرے پھوپھا عبدالقیوم بٹ کراچی ایئر فورس سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 76 سال ہے۔ تقسیم کے وقت وہ صرف 9 سال کے تھے لیکن اپنی غیرمعمولی یادداشت کی وجہ سے ہجرت کا پوار واقعہ ان کے حافظے میں محفوظ ہے۔ وہ ہجرت کا واقعہ یوں سناتے ہیں جیسے کوئی فلم چل رہی ہو۔ ''سکھوں اور ہندو بلوائیوں نے مہاجر وں کی 11 بسوں کو جموں کے باہر ایک سنسان مقام پر روک لیا۔ سینکڑوں سکھوں اور ہندوئوں نے تیز دھار تلواریں، کلہاڑیاں، برچھیاں اور گنڈاسے تھام رکھے تھے جن پر پہلے سے خون اور انسانی جسموں کے چیتھڑے چمٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایک بندے کو بس کے دروازے سے باہر لاتے اور تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیتے۔ ماں نے میری دو جوان بہنوں کے گلے پر چھری پھیر کر انہیں اس خیال سے ذبح کر دیا کہ کہیں وہ زندہ سکھوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ میری دو بہنیں وہیں تڑپ رہی تھیں کہ ماں نے وہی چھری میری گردن پر بھی چلا دی۔ میرا گلا کاٹنے کے بعد ماں نے اپنا پیٹ بھی چاک کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میری دونوں بہنوں کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا مگر میری ماں کا جسم ابھی تڑپ رہا تھا۔ وہ اس وقت تک زندہ تھی۔ ایک سکھ نے میری ماں اور بہنوں کی لاشوں کو ٹھڈے مارنے کے ساتھ غلیظ گالیاں بکیں اور مجھے پائوں سے گھسیٹ کر بس سے باہر پھینک دیا۔ جموں سے بسوںکا یہ قافلہ جمعرات کے دن ساڑھے دس بجے روانہ ہوا اور تھوڑی دیر بعد ہی بلوائیوںکے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ قتل عام صبح سے لے کر شام تک جاری رہا۔ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں خون میں لت پت لاشوں کے اوپر پڑا تھا۔ مردہ اور نیم مردہ جسموں کی نیم حرارت اور رگوں سے زندگی کی ٹوٹتی ڈور، موت کا وہ خوفناک لمس۔ میں اپنی ساری زندگی کوشش کرتا رہا کہ اسے بھول جائوں لیکن نہ بھلا سکا۔ ایک بلوائی نے گالی دیتے ہوئے کہا: ویسے تو یہ سب مر چکے ہیں لیکن اب ان کا قیمہ کرتے ہیں، بلوائی بسوں کو لاشوں پر سے یوںگزار رہے تھے جیسے سڑک پر بجری ڈالنے کے بعد روڈ رولر گزارا جاتا ہے۔ انہوں نے بسوں کو مردہ اور نیم مردہ جسموں پر سے گزارنا شروع کیا تو لاشوں کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آتی رہیں۔ میری ماں شاید میرے گلے پر صحیح طرح سے چھری نہ چلا سکی تھی اس لئے میری جان نہ نکل سکی۔ میں خون میں لت پت لاشوں میں لاش بن کر پڑا رہا۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ جونہی وہ بس لاشوں کے اوپر سے گزارتے‘ میں پہلو بدل کر بس کے درمیان میں ہو جاتا۔ میں دو دن تک وہیں لاشوں میں پڑا رہا۔ دو دن بعد لال ٹوپیوں والے رضاکاروں نے لاشوں کو یوں ٹرکوں میں لادا جیسے کوڑا کرکٹ لاد رہے ہوں۔ لال ٹوپی والے رضاکار مجھے مہاجر کیمپ چھوڑ گئے جہاں میں سروائیو کر گیا‘‘۔
ہمارے عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرح لاکھوں مسلمانوں کے موثر مزاحمت کے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح قتل ہو جانے کی بڑی وجہ اس وقت کی پنجاب مسلم لیگ کی جاگیردارانہ قیادت کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ کے جاگیردار لیڈروں کو ہندوئوں اور سکھوں کے شیطانی منصوبے کا علم ہو چکا تھا لیکن انہوں نے نہ تو مسلمانوں کو خبردار کیا اور نہ ہی منظم۔ اس وقت اکالی پارٹی کی قیادت ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کی قیادت کے برعکس دونوں نے گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے بے شمار تنخواہ دار کارکنوں سے سکھوں کی حفاظت کا کام لیا اور جتھوں کی شکل میں مسلمان قافلوں پر حملے بھی کرتے رہے۔
تاریخ کے اس فلیش بیک پر نظر ڈالیں تو پنجابی مسلم لیگ اپنا فرض ادا کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ سیاسی اور جماعتی سطح پر اپنے فرائض ادا نہ کئے گئے؛ البتہ 22 اگست کے بعد مغربی پنجاب میں بھی بیگناہ ہندوئوں اور سکھوںکو قتل کرانے کی کارروائیاں کی گئیں۔ لیکن جس طرح مشرقی پنجاب میں شریف النفس ہندوئوں اور سکھوں نے بے گناہ مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کی اسی طرح مغربی پنجاب میں بھی مسلمانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر سکھوں اور ہندوئوں کو محفوظ رکھا۔
تقسیم کے وقت دونوں اطراف میں 85 لاکھ سے زائد انسانوں نے اپنا گھربار چھوڑا۔ عورتوں کی عصمتیں لٹیں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوںکا قتل عام ہوا۔ معروف صحافی زاہد چوہدری اپنی تصنیف ''مسئلہ کشمیر کا آغاز‘‘ کے صفحہ 51 پر لکھتے ہیں: ''نوزائیدہ پاکستان میں ہی بعض سیاسی قائدین، ان کے کارندے اور خویش و اقارب اور کئی سرکاری افسر غیر مسلموں کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں لوٹنے میں مصروف تھے اور سرحدی فوج کا ایک اعلیٰ افسر ایک فرعون مزاج انسپکٹر جنرل پولیس کے ڈرائنگ روم کے جھولے میں لیٹ کر وہسکی پیتا رہتا تھا۔ جب مشرقی پنجاب کے محصور مسلمانوںکے رشتے دار آہ زاری کرتے ہوئے اس کے پاس جاتے تھے تو یہ ان کو دھتکارتا اور کہتا تھا کہ جائو! پاکستان بنایا ہے تو اس کے لئے قربانی دو۔ میں تمہاری کوئی مدد نہیںکر سکتا۔ اس کے برعکس پاکستانی فوج کے چھوٹے افسروں اور جوانوں نے مہاجرین کو سنبھالنے اور ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پاکستانی فوج کو ان کے مظلوم مہاجر بہن بھائیوں نے جہاں بھی پکارا یہ فوراً پہنچے۔ اس ضمن میں بلوچ رجمنٹ نے 
بڑی شہرت حاصل کی۔ مشکلات میں گھرے محصور مہاجرین ہاتھ اٹھا کر بلوچ رجمنٹ کے جوانوںکو دعائیں دیتے تھے‘‘۔
ہمارے بزرگ سچیت گڑھ بارڈر سے سیالکوٹ داخل ہوئے‘ جہاں چند ماہ مہاجر کیمپ میں رہنے کے بعد گجرانوالہ منتقل ہو گئے۔ گجرانوالہ میں بھی ہمارے گھر کے ماتھے پر ''آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کا بورڈ آویزاں رہا۔ دادا آزادی کے لگ بھگ 27 سال بعد انتقا ل کر گئے لیکن اپنا جموں دوبارہ نہ دیکھ سکے۔ دادا کے بعد والد بھی اپنی تمام عمر جموں واپس جانے کی خواہش دل میں پالتے رہے لیکن گجرانوالہ میں ہی آسودۂ خاک ہو گئے۔ میرے دادا جموں واپس جا کر دوبارہ وہیں آباد ہونا چاہتے تھے۔ جس شہر میں ان کے ساتھ اتنا کچھ ہوا‘ دادا وہاں دوبارہ کیوں جانا چاہتے تھے؟ یہ سوال میں اپنے دادا سے نہ کر سکا لیکن والد صاحب سے پوچھا تھا۔والد صاحب نے مجھ سے کہا: ''جموں میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے تمہارے لئے تمہارا گجرانوالہ‘‘۔ جموں اور گجرانوالہ اپنے باسیوں سے زیادتی نہیں کرتے البتہ اس میں بسنے والے کبھی کبھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ لیکن ان شہروں میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو محبت اور پیار کرنے کے ساتھ ساتھ پناہ بھی دیتے ہیں۔ یہ مسلمان، ہندو اور سکھ بھی ہوتے ہیں۔ جموں سے میری نسبت میرے دادا، والد اور دیگر رشتہ داروں کے حوالے سے ہے۔ میں اپنے دادا کی طرح واپس جموں جا کر آباد نہیںہونا چاہتا‘ میرا وطن پاکستان ہے لیکن میں اپنے والد کی طرح ''اپسرائوں کا شہر جموں‘‘ دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ شہر‘ جہاں میری دادی ننگے پائوں کھیلتی رہی، جہاں کا موتیا اور گلاب ہاتھ برابر ہوتا ہے، جہاں کی نمکین چائے کا رنگ گلابی ہوتا ہے اور جہاں جن، پریاں اور اپسرائیں انسانوںکے سامنے آ جاتی ہیں۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں