"TSC" (space) message & send to 7575

جالب کیا چاہتے تھے؟

یہ 90ء کی دہائی کا آغاز تھا۔ رائل پارک میں ''احبابِ حبیب جالب‘‘ کا دفتر تھا جو نام ہی سے ظاہر ہے کہ حبیب جالب کے کرم فرمائوں کا تھا۔ اس دفتر کے روح و رواں عزیز میمن ہوا کرتے تھے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ ان کے بھائی کو کراچی سے ایم این اے کا ٹکٹ ملا لیکن وہ الیکشن ہار گئے تھے۔ ''احباب حبیب جالب‘‘ آہستہ آہستہ ایک ادارے کے شکل اختیار کر گیا‘ جس کے تحت فلم سازی کے فرائض ہمارے دوست اور شاعر سلیم احمد سلیم انجام دیتے تھے۔ اسی ادارے کے زیر انتظام ایک فلم بنائی گئی جس کا نام ''کالے چور‘‘ تھا۔ یہ ایک ملٹی سٹارز فلم تھی جس میں اس وقت کے سبھی نامور آرٹسٹ کاسٹ کیے گئے تھے؛ البتہ سلطان راہی اور اداکارہ نیلی کو مرکزیت حاصل تھی۔ فلم کا مرکزی خیال یہ تھاکہ اس ملک کی عدالتیں تو صرف آٹھ گھنٹے انصاف مہیا کرتی ہیں جبکہ ظالم 24 گھنٹے ظلم ڈھاتے ہیں۔ یوں تو ہمارے ہاں پنجابی فلموں نے جاگیردارانہ اور جبرواستبداد کے فرسودہ نظام کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی لیکن ایسی فلمیں کم ہی بنیں جن میں عدالتی نظام اور قوانین کی کمزوریوں کو موضوع بنا کر معاشرتی اور سیاسی نظام پر اس قدرگہری چوٹ کی گئی ہو۔ ''کالے چور‘‘ کے مصنف تو ناصر ادیب تھے مگر حبیب جالب کی نسبت سے ان کے احباب کی فلم جو کمرشل پراڈکٹ ہوتی ہے، اس پر بھی ان کا رنگ نمایاں تھا۔ 
حبیب جالب کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ کوئی دیومالائی کردار تھے۔ انہیں اپنے نظریے سے عشق تھا۔ انہیں علم تھا کہ ان کے نعرۂ مستانہ کا حقیقی ر وپ دھارنا کسی معجزے سے کم نہیں‘ اس کے باوجود وہ زندگی بھر اصلی جمہوریت کے لیے لڑتے رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں آمروں کے خلاف بغاوت کا علم بلند رکھا اور جہاں دیکھا کہ منتخب اور جمہوریت کے علمبرداروں کے رویے غیرجمہوری ہیں‘ انہیں بلاجھجک ٹوکا:
ناخدا تو ہمیں ڈبو دیتا
خیر گزری کہ وہ خدا نہ ہوا
ان کی شاعری اور زبان و بیان کے حوالے سے جون ایلیا بھی کہا کرتے تھے کہ ''جالب وہ شاعر ہے جس کے کلام میں زبان اور بیان کی غلطی نہیں ہوتی‘‘۔ کسی پنجابی شاعر کے لیے جون ایلیا جیسے اہل زبان اردودان کی طرف سے اس قدر پذیرائی کو ایسے ہی سمجھنا چاہیے کہ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد‘ بلاول بھٹو زرداری کی تعریف کریں۔ جالب کی زندگی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ جوکہتے تھے وہ لکھتے تھے اور جو لکھتے تھے وہی کرتے تھے، وگرنہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ انقلابی شعرا کا قلم تو انقلاب اُگل رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ اپنے لفظوں کی زیر زبر کو بھی فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ انقلاب کے ان ہول سیل ڈیلروں کو لفظوں کا سوداگر ہی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن حبیب جالب کی زندگی ہر قسم کی ''بورژوائی نعمت‘‘ سے مبرّا رہی۔ 
طاہر اصغر کی لکھی ''جالب بیتی‘‘ کا مطالعہ کریں تو یوں لگتا ہے جیسے قاری کسی سپر نیچرل ہیرو کی ُپرخطر زندگی پر مبنی کوئی سینما سکوپ فلم دیکھ رہا ہے‘ جس میں ان کی زندگی کا سچا اور کٹھن سفر واضح دکھائی دیتا ہے۔ اس کتا ب میں جالب کی پیدائش سے لے کر موت تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ جنرل ایوب خان اور زیڈ اے بھٹو میں اختلافات ہوئے تو جنرل ایوب نے بھٹو صاحب پر دبائو ڈالا کہ وہ بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے چلے جائیں۔ دوسرے لفظوں میں بھٹو صاحب کو ملک بدر کیا جا رہا تھا۔ جالب نے اس ماحول میں یہ نظم لکھ دی ــ ''دست خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا... آواز دے رہا ہے وطن، چھوڑ کے نہ جا‘‘۔ یہ نظم ایک موقر روزنامے میں شائع ہوئی۔ لیکن اس زمانے کا یہ اخبار‘ جس کی قیمت صرف 10پیسے تھی‘ 5روپے میں فروخت ہوا۔ بھٹو صاحب لاہور آتے تو فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے، ان کے ایک ساتھی امان اللہ خان نے جالب کو ٹیلی فون کیا کہ بھٹو صاحب آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ جالب، بھٹو سے ملنے ہوٹل نہ گئے جس پر بھٹو خود چل کر پاک ٹی ہائوس چلے گئے۔ جالب بیان کرتے ہیں: ''بھٹو بہت پڑھا لکھا اور ذہین آدمی تھا۔ نوجوان ادیب ان سے گھل مل کر بات چیت کرتے رہے اور وہ بڑے سلجھے ہوئے انداز میں ان سے گفتگو کرتے رہے۔ بھٹو صاحب نے مجھ سے کہا: ''اچھا تو دوستی ہوئی، اب اگر میں آپ کو بلائوں تو میرے پاس آئیں گے؟ میں نے جواب دیا: ''جی ہاں‘‘۔ بھٹو صاحب نے فرمائش کی کہ اچھا اب وہ نظم تو سنائو جو تم نے میرے لیے لکھی ہے۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ یہ آپ کی خوشامد ہو جائے گی جو میری فطرت کے خلاف ہے۔ بھٹو مسکرائے اور کہا: 'اچھا ٹھیک ہے‘ اور چلے گئے‘‘۔ 
جالب کٹر ایماندار انسان تھے‘ انہیں روپے پیسے سے کوئی رغبت نہ تھی۔ ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ ان کے ''سم کارڈ‘‘ میں روپے پیسے والی آپشن ہی نہیں تھی‘ یعنی روپے پیسے کے حوالے سے جالب نے ''نروان‘‘ لے رکھا تھا۔ جالب کی زندگی معاشی طور پر مشکلات کا شکار رہی، وہ اپنے دوستوں سے ادھار تو لیتے اور انہیں لوٹاتے بھی رہے لیکن بڑے بڑے سیاسی چودھریوں کے بھیجے ہوئے لفافے ٹھکرا دیتے۔ جالب صاحب شاعروں کے ''رابن ہڈ‘‘ تھے۔ وہ جس مشاعرے میں جلوہ گر ہوتے‘ اسے لوٹ لیتے۔ 1988ء میں جب میں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تو انہیں لاہور میں اکثر مشاعرے لوٹتے دیکھا۔ ان کی مترنم آواز نے انہیں اپنے ساتھی شاعروں میں ممتاز بنا دیا تھا۔ یہ ترنم ہی تھا جس سے وہ اپنی شاعری کو اور بھی بامعنی بنا دیتے تھے۔ لاہور کی مال روڈ پر ایک تقریب میں‘ مَیں نے انہیں ان کی مشہور زمانہ نظمیں ''دستور‘‘ اور ''ریفرنڈم‘‘ پڑھتے دیکھا اور سنا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب جالب نے مذکورہ نظم کے یہ آخری مصرعے پڑھے کہ ''دن 19دسمبر کا، بے معنی بے ہنگم تھا، یا وعدہ تھا حاکم کا، یا اخباری کالم تھا‘‘ تو وہ مشاعرے کے ''مین آف دی میچ‘‘ قرار پائے تھے۔ جالب صاحب نے اپنی ان نظموں سے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لائوں کے سروں میں خاک ڈالی تھی۔ 
جالب صاحب کا پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ساتھ بھی رشتہ رہا لیکن وہ فلمی کم اور انقلابی زیادہ تھے۔ انہیں موسیقی کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ تھی۔ اس کی وجہ غالباًََ یہ رہی کہ استاد اللہ رکھا خاں جیسے طبلہ نواز اور ملکہ ترنم نور جہاںجیسی ہستیوں سے ان کی سنگتیں رہیں۔ جالب صاحب کے دوستوں میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن اور سلامت علی خاں بھی شامل رہے۔ سلامت علی خاں کے متعلق جالب کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ''کون سے کوڑ کام میں پڑ گئے ہو‘‘۔ مہدی حسن کے بارے میں جالب صاحب بتایا کرتے تھے کہ مہدی حسن ابھی گوشہ گمنامی میں تھے اور احمد رشدی کا ایک گیت مقبول ہو گیا۔ میں اور مہدی حسن ایک حمام پر اکٹھے ہوتے تھے‘ جہاں وہ زمانہ کی ناقدری کا گلہ کرتے اور میں انہیں تسلی دیا کرتا کہ ''تمہاری باری بھی آئے گی‘‘۔ مہدی حسن کو ریاض شاہد کی فلم سے بریک تھرو ملا اور اس کے بعد انہوں نے فیض صاحب کی غزل ''گلوں میں رنگ بھرے‘‘ گائی تو ملک گیر شہرت حاصل کی۔ جالب صاحب پاکستان میں فنکاروں کو ان کا جائز مقام دلانے کے بھی خواہش مند تھے۔ انہیں دکھ تھا کہ استاد بڑے غلام علی خاں جیسا عظیم گویّا ناقدریِ فن کے باعث بھارت منتقل ہوگیا تھا۔ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے ناقدری کے باعث پاکستان تو نہ چھوڑا لیکن موسیقی سے کنارا کر لیا۔
نامور غزل گائیک غلام علی کے بارے میں جالب بیان کرتے ہیںکہ اتنا بڑا ٹیلنٹ انہوں نے اپنے دوست شاعر شاد امرتسری کے ساتھ دریافت کیا تھا جو ریڈیو لاہور کے اے آر ڈی بھی تھے۔ جالب اور شاد امرتسری دونوں اکٹھے ٹیلنٹ ہنٹ سکیم کے تحت ''اس بازار میں‘‘ گانا سننے جایا کرتے تھے جہاں ایک رات پیسے ختم ہونے پر زنانہ گانے کے بجائے انہیں مردانہ موسیقی سننا پڑی تو غزل گائیک غلام علی دریافت ہو گئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں