"TSC" (space) message & send to 7575

بلّے اور مور کی کہانی

صدر پاکستان ممنون حسین کا وہ بیان قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ''ڈیڑھ ارب ڈالر کسی سمگلر سے نہیں دوست ملک سے لئے ہیں‘‘۔جناب صدر کے بیان میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم کے علاوہ ''سمگلر ‘‘ اور''دوست‘‘ دونوں الفاظ اہم ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے کسی سمگلر سے براہ راست ملنے کا اتفاق نہیں ہوا؛ البتہ چند سال قبل گلوکار وارث بیگ کے ہمراہ ایک رات ایک ایسی محفل میں چلا گیا تھا‘ جہاں ڈانس پارٹی کا اہتمام تھا۔ طبعاً مجھے ڈانس پارٹیاں سجانا اوردیکھنا دونوں ہی پسند نہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ٹیپ ریکارڈر پر کسی مجبور کے ناچ کو فن قرارنہیں دے سکتا۔دوئم یہ کہ اس ملک کے نودولتیوں کا ذوقِ سلیم اس قدربلند نہیں ہوا کہ انہیں کتھک اورکتھاکلی جیسے کلاسیکی رقص کی تمیز ہو۔ میرے خیال میں رت جگا کرنے اورمختلف لوگوں سے ملنے جلنے سے سیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ اسی خیال سے وارث بیگ کے ساتھ اس محفل کا حصہ بنا تھا۔ اس رنگین محفل میں ایک ''ریٹائرڈ‘‘ سمگلر سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں۔مذکورہ سابق سمگلر کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاتھاکہ موصوف سمگلر ضرورتھے مگر محب وطن تھے،پاکستانی قوم پرا ن کا ایک احسان یہ گنوایا جاتا ہے کہ اٹیم بم بنانے کے لیے یورینیم انہوں نے اسمگل کی تھی ۔
ایک طویل عرصہ تک اس زعم میں مبتلا رہے ہیںکہ ہم ایٹمی قوت اورناقابل تسخیر قوم ہیں،لیکن دشمن نے جنگ کا انداز بدل دیاجس کے نتیجے میں ایٹمی قوت ہونا ہمیں خطرات سے بچانہیں پایا۔دہشت گردی کی جنگ میں 55ہزار پاکستانی شہید ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کو 70سے 80ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ نقصان کی اتنی بڑی کھائی کو ڈیڑھ ارب ڈالر سے کیسے بھرا جاسکتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ عالمی سیاست میں ریاستوں اور ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں‘ دوستیاں اوریاریاں نہیں ،نون لیگ کے رہنمائوں کی طرف سے سعودی عرب کی ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کو میاں نوازشریف کی حکومت کے لئے تحفہ قرار دیا جانابھلے پکوڑیوں اورگول گپوں کی سیاست لگتی ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہاہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کو ملنے والاڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ 'گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈز‘ میں درج کیاجانا چاہیے کیونکہ تاریخ میں اتنی بڑی مالیت کا تحفہ کسی ملک کو نہیں دیا گیا۔شاہ جی نے مزید فرمایاکہ وزیرداخلہ چوہدری نثار سانحہ کچہری کو غلط رنگ دینے کے بعد اپنے بارے میں فیصلہ کریں ،جج کی شہادت کی ذمہ داری گارڈ پر ڈال کر کس کی خدمت کی گئی ؟انہوں نے کہاکہ وزیر اطلاعات قبلہ پرویزرشید جتنی چاہیں خوشخبریاں سنائیں لیکن حقائق عوام کو بتائیں کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے تکلف کے عوض دوست سے کیاڈیل کی گئی ہے،فراز کا شعر سن لیجئے کہ ؎
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز 
دوست ہوتانہیں ہر ہاتھ ملانے والا
سید خورشید شاہ نے جہاں ڈیڑھ ارب ڈالر والی چٹکی کاٹی ہے‘ وہاں انہیں تھر کی بھوک کی بات بھی کرنی چاہیے جہاںہر روز معصوم بچے غذائی قلت اورعلاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے باعث مررہے ہیں۔بھوکے پیاسے لوگ تھر کے صحرامیں مرتے رہے اوران کے حصے کا اناج گودام میں کیڑے مکوڑے کھاتے رہے۔ میرے خیال میں سید قائم علی شاہ کی حکومت اس بدانتظامی کے باعث قائم نہیںرہنی چاہیے۔قائم علی شاہ ماشااللہ 83برس کے ہیں۔ اتنی عمر میں اقتدار کی خواہش رکھنا ایک طرح سے ہماری حکمران الیٹ کی ''نفسیاتی ای سی جی رپورٹ‘‘کا سامنے آجانا ہے۔ یعنی حکمران طبقہ عام مسلمانوں کی طرح عمر کے آخری حصہ میں نیکوکار بن جانے پر یقین نہیں رکھتا ۔اس کے نزدیک شاید مرنے کے بعد سزا اورجزا کا تصور بھی بے معنی ہے۔ اسی لئے تو وہ اپنی آخری سانس تک اختیار اوراقتدار کے سنگھاسن کے ساتھ لپٹا رہنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف عوام میں رواج کے مطابق ستر برس کی عمر تک پہنچنے کے بعد لوگ اپنے آپ کو ریٹائرڈ سمجھنے لگتے ہیں۔عمرہ ،حج اوردوسری عبادات سمیت روزمرہ کی مصروفیات ،گھر کے کام کاج اوربچوں کے ساتھ میل جول کوہی اپنی دنیا سمجھتے ہیں مگر حکمران طبقہ کے نزدیک، ریٹائرمنٹ ،سفر آخرت ،سزا جزا اور بڑھاپا کوئی معنی نہیںرکھتا بلکہ ان کے نزدیک مرا ہواہاتھی سوالاکھ کاہوجاتاہے۔
ہاتھی سے یاد آیاکہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کے پالتو مور کو جنگلی بلاکھاگیا‘ جس کے باعث لگ بھگ 22 اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری ہو گیا۔ حیرت ہے کہ بلاّآکر کام دکھاگیا۔ ''بلے‘‘ کے بارے میں تو اطلاعات ہیںکہ وہ ''طبی حفاظت ‘‘ میںہے جہاں اس کا کاغذی علاج معالجہ کیاجارہاہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیابیمار بلا وزیر اعظم کے مور پر حملہ کرکے اسے ہڑپ کرسکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ بیمار بلاایک صحت مند مور کو ہڑپ کرجائے؟ یوں لگتا ہے کہ بلا،بیمار نہیں صحت مند ہے‘ اس نے ناسازی طبع کا صرف ڈرامہ رچا یاہوا ہے،وہ جب چاہتا ہے اپنی حفاظتی کچھار سے نکل کر شکار کرتا ہے اورپھر واپس وہیں گھس جاتاہے۔سابق صدر آصف زرداری نے ایک سابق آمر کو استعاراتی زبان میں بلا کہا تھا۔ زرداری صاحب نے کہاتھاکہ ''بلاقابو آگیا ہے‘ اسے بھاگنے نہ دینا‘‘ سوال یہ ہے کہ کیاواقعی بلاقابو آگیا ہے؟ اور کیاجمہوریت اور آئین پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس بار بلے کو سزا دی جائے گی؟یہ سوال اپنی جگہ جو اب کا منتظر ہے۔
ہمارے اقتدار کی فلم میں بلے اورمور جیسے کردار پائے جاتے ہیںجبکہ فلموں میں بلے کی جگہ سانپ کومرکزیت حاصل رہی ہے۔ مور خوبصورتی کی علامت ہے اورسانپ خطرے کا استعارہ سمجھا گیا ہے۔پاکستانی فلموں میں سانپوں کی رانی ،اداکارہ رانی ہواکرتی تھی جبکہ بھارتی فلموں میں وجنتی مالا، وحیدہ رحمان، مینا کماری سمیت سری دیوی کو مور سپیشلسٹ سمجھا گیا ہے۔ سری دیوی پر فلمایاگیا گانا جسے لتا نے گایا تھاکچھ یوں تھاکہ ''مورنی باگاں میں بولے آدھی رات کو‘‘۔ سری دیوی پر فلمایا ایک اور گیت بھی مقبول ہواتھا۔ سری دیوی کے اس ریکارڈ کو بھی یوتھ فیسٹیول کا حصہ بناناچاہیے۔ شہرہ آفاق گیت کی استھائی ملاحظہ ہو:
مورنی نے سیکھا، ہم سے ہی سیکھا
ٹھم، ٹھم ٹھمکنا، ٹھم، ٹھم ٹھمکنا 
بلے کا کردارعام طور پر فلموں میں شامل نہیں ہوتا لیکن اس کے ''کریکٹر‘‘ کی خصوصیات سانپ میں دکھائی جاتی ہیں۔ پاکستانی فلموں میں تو سانپ کو خطرے کی علامت بنا کر پیش کیاجاتا ہے لیکن بھارتی فلموں میں سانپ کا کریکٹر دوہرے معیار کا حامل رہتا ہے۔ہندو عقائد کے مطابق سانپ سوسال کی عمر گزارنے کے بعد انسان بن جاتا ہے۔یہ تصوراتی آپشن دوطرفہ ہونی چاہیے یعنی بعض انسانوں کو یہ سہولت بھی میسر ہو نی چاہیے کہ وہ سوسال کے بعد انسان سے سانپ بن جائیں۔ ویسے یہ انسان ہوتے ہوئے بھی سانپوں والے کارہائے نمایاں سرانجام د ے رہے ہیں۔ اسحق ڈار صاحب ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے سے ڈالر کو نیچا اورروپے کو اونچا دکھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اس بابت معاشی ماہرین خبر دیتے ہیںکہ ڈالر ،ین اوریورو کے سامنے بھی سستا پڑا ہے‘ لہٰذا اسے صرف پاکستانی روپے کی فتح قرار دینا درست نہیںہے۔
جمہوریت اورمیاں نوازشریف کے خیر خواہ انہیں مشورہ دے رہے ہیںکہ وہ عدالت کے صبر کا پیمانہ اس حد تک لبریز نہ کریں کہ گم شدہ افراد کیس میں یوسف رضاگیلانی کی طرح کا معاملہ ہو جائے۔ دوئم یہ کہ چوہدری شجاعت حسین ،بلوچی بھائیوں اورلال مسجد والوں سے مذاکرات کرتے رہے اور جنرل مشرف نے ایکشن کردیاتھا۔
عدالت نے اداکارہ میرا کو 25مارچ جبکہ جنرل مشرف کو 31مارچ کو طلب کیاہے۔میر ا کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم ہیں جبکہ جنرل مشرف آرمی ہسپتال میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔میرا کے خلاف اخلاقی روایت شکنی جبکہ جنرل مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمات دائر ہیں۔میرا کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں وطن واپس نہیںآئے گی اورجنرل مشرف کے وکلا کا دعویٰ ہے کہ انہیں سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس سوال کا جواب ادھورا چھوڑے دیتے ہیںکہ بلے اورموروں کی کہانی میں آگے کیا ہوگا؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں