"TSC" (space) message & send to 7575

حکومت اورعطار کے لونڈے

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر سستا کرکے شیخ رشیدکوسیاسی سیزن کے 'ٹی ٹوئنٹی‘ میں ہرا دیا ہے۔اب شیخ صاحب سے ان کے محلے والے پوچھ رہے ہیںکہ استعفیٰ کب دیں گے؟شیخ صاحب جو ایک عرصے سے ٹاک شوز کے بگ بی (امیتابھ بچن) سمجھے جاتے ہیں ، ایک ٹاک شو میںفرمارہے تھے کہ نوازشریف کی میڈیا الیون ان سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں۔ اس پرا پیگنڈا کا لوگوں پر اتنا اثر ہوا ہے کہ خود ان کے گلی محلے کے لوگ‘ جن میں ریڑھی بان سے لے کر ان کا ذاتی حجام تک شامل ہے، سب پوچھ رہے ہیںکہ استعفیٰ کے بارے میں کیا سو چاہے؟ شیخ صاحب کا کہنا تھاکہ اسمبلی میں نوازشریف اورنون لیگ کی اکثریت ہے مگر وہ اکیلے اسمبلی میں حکومت کو چبھتے ہیں، یعنی ''میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میںکانٹے کی طرح‘‘ والامعاملہ ہے۔ شیخ صاحب نے فرمایاکہ اسحاق ڈار اورحکومت پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کردے تو استعفیٰ رہاایک طرف ، وہ سیاست ہی چھوڑ دیں گے۔
شیخ صاحب ا چھی خاصی'' خبر رساں ایجنسی‘‘ ہیں اس لیے جب بولتے ہیں‘ میں انہیں غور سے سنتاہوں۔ مذکورہ ٹاک شو میں انہوں نے دواہم خبریں بریک کیں۔اول: ایم کیوایم سندھ حکومت میں شامل ہونے جارہی ہے اور متحدہ کے متوقع وزراء کی فہرست منظر عام پر آچکی ہے ۔ دوم: جنرل پرویز مشرف کے کیس کا سیاسی فیصلہ ہوچکا ہے، انہیں ملک سے جانے کا محفوظ راستہ فراہم کردیا جائے گا۔ مرزا غالب نے کہاتھا ؎ 
ادائیِ خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا 
صلائے عام ہے‘ یارانِ نکتہ داں کے لیے
شیخ رشید نکتہ سرا ئی فرما رہے ہیںکہ فوج اپنے سابق آرمی چیف پر غداری کا مقدمہ نہیں چلنے دے گی۔ دوسری طرف وہ جمہوریت کے چیمپئن حکمرانوں کو پیغام دے رہے ہیںکہ ایک 72سالہ ریٹائرڈ جنرل سے کسی کو کیاخطرہ ہوسکتا ہے، سزا دینے سے حکومت اورعوام کو کیافائدہ حاصل ہوگا، اگر سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو حکومت اوراداروں میں تصادم ہونے کا اندیشہ ہے جس سے پوری قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔شیخ صاحب کی باتیں دھیان سے سنی جائیں تو دھمکی کے ساتھ منت ترلا بھی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں ، 72سالہ ریٹائرڈ عسکری باواکسی کو کیانقصان پہنچائے گا، لہٰذا ہتھ ہولارکھیں ۔ ترلامنت کرنے کے فوراً بعد دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اگر حکومت نے جنرل صاحب کو ملک سے نکل جانے کا محفوظ راستہ فراہم نہ کیاتواداروں میں تصادم ہوسکتا ہے۔ شیخ رشید نے زنانہ لڑائی میں استعمال کی جانے والی بعض پنجابی اصطلاحیں بھی استعمال کیں‘ ایک کا ترجمہ کچھ یوں کیاجاسکتا ہے:''دلہن توگھر بسانا چاہتی ہے ، محلے اور اڑوس پڑوس والے اس کا گھر بستانہیں دیکھنا چاہتے‘‘ ۔ شیخ رشید نے الزام لگایاکہ بعض ریٹائرڈ صاحبان شرارت کررہے ہیں جس سے قوم کا بہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔ ''اناالحق‘‘ کا یہ کیسانعرہ ہے کہ ایک ریٹائرڈ جنرل کو عدالت کا سامنا کرنے پرحکومت اورریاستی اداروں میں تصادم ہوجائے۔اس عظیم الشان مزاحمت پر صرف اتناہی کہاجاسکتا ہے کہ ''سبحان اللہ ‘کیا کہنے‘‘۔
اس ملک کی عدالتوں نے منتخب وزرائے اعظم کو ان کے عہدے سے برخاست کیااورسزائے موت بھی دی ۔جب منتخب وزرائے اعظم عدالتوں کا سامنا کرتے رہے اور ماضی قریب تک بھی کرتے رہے ہیں تو ریٹائرڈ جرنیل ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ شیخ رشیدکے علاوہ بھی کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کا مقبول راگ بھیروی الاپ رہے ہیں ، بھیروی کوکلاسیکی موسیقی کی اصطلاح میں سدا سہاگن کہا جاتا ہے۔ بھیروی ایک ایسا راگ ہے جو دن کے چوبیس گھنٹے اورسال کے پورے 365 دن گایا جاسکتا ہے ، وگرنہ ہرراگ اورراگنی کے گانے کا ایک مخصوص وقت طے ہے۔ یہ لوگ ایک بار پھر بھیروی کی استھائی ہی الاپ رہے ہیں جس کے بول وہی پرانے ہیں۔۔۔ ''محب وطن جرنیلو‘ قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ وطن عزیز کی 66سالہ تاریخ میں جرنیلوں نے 35سال براہ راست جبکہ 31سال بالواسطہ حکومت فرمائی ہے۔ فوج کو بلانے والے عظیم انقلابی فارمولے میں سے تو اب پرانے نلکوں کی طرح سے ریت آنی شروع ہوگئی ہے ، لیکن رات دیر گئے راگ رنگ پروگرام والے دانشور پھر سے کہہ رہے ہیںکہ 
میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنیل نی، جرنیل نی! 
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے صفحہ 1173پر لکھا ہے کہ ''جنرل یحییٰ خان اوران کے فوجی معاونین ایک دوسرے کے ساتھ باہمی سازشوں اور ساز باز میں مصروف اورملوث تھے تاکہ جنرل یحییٰ خان کو منصب اور اقتدار پر براجمان رکھ کر ان کے سائے میں اپنے اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کرسکیں خواہ اس مقصد کے لیے غیر قانونی طریقے ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑیں۔ جن افسران کی بھرپور تائید وحمایت جنرل یحییٰ خان کو حاصل تھی ان میں جنرل حمید ، لیفٹیننٹ جنرل گل حسن ، لیفٹیننٹ جنرل پیرزادہ ،میجر جنرل عمر اورمیجر جنرل مٹھاکے نام زیادہ نمایاں ہیں‘‘۔ حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو منظر عام پر لائے ، ہوسکے تو اسے تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیاجائے تاکہ آج کی نوجوان نسل کو پتہ چل سکے کہ ہم ہرگز ہرگز 'معتقد ِمیر‘ واقع نہیں ہوئے ؎
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں 
جنرل یحییٰ خان سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان بھی قوم کو بچانے آئے تھے۔ جنرل یحییٰ خان اورمشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد قوم کوبچانے کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے تھامگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے سینئرز کی طرح 19سال تک قوم کو تیسری اورچوتھی بار ''بچائے رکھا‘‘۔ پاکستانی تاریخ کی سٹوری اورسکرین پلے ایک شرمناک ہارر فلم ہے جس سے جڑے کرداربھی گھنائونے ہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے قومی سلامتی اور پاکستان بچائو کے نام سے کئی بار زبردستی کی، فیلڈ مارشل ایوب خان کا صنعتی انقلاب ، یحییٰ خان کا نظریہ پاکستان، جنرل ضیاء الحق کا شفاف انتخاب اورنفاذشریعت کا گیارہ سال طویل پروگرام، جنرل پرویز مشرف کی روشن خیالی اورسب سے پہلے پاکستان والا ناٹک ، سب کا سب ٹکا تھیٹر اور گھٹیانوٹنکی ثابت ہوئے ہیں ، لہذا اب اچھے بچوں کی طرح انگلی منہ پر رکھ لینی چاہیے۔۔۔۔۔۔بس ! 
پاکستان کی موجودہ 90فیصد سیاسی ایلیٹ کا سیاسی یوم پیدائش ضیائی کیلنڈر پر دیکھا جاسکتاہے۔ ہمارے بعض باباہائے جمہوریت کا جنم فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہوا ، باقی جمہوری چمپیئنز کی پرورش وپرداخت جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ہوئی ۔ ہمارے ہاں بھی بالی وڈ فلموں کے ٹوٹے دکھائے جانے والے ٹی وی پروگرام ''کیاسین ہے ؟‘‘ والی صورت حال ہے۔ پاکستان میں ''ملک بچائو‘‘ ڈرامے کا ہر کریکٹر ایک ہی ٹیکسال میں گھڑا گیا ہے، من چاہے پتھرکے صنم تراشے گئے مگر جب وہ بت خانوں میں بھگوان بن گئے تو ایک بار پھر''قدم بڑھائو‘‘ والے نعرے لگائے جارہے ہیں۔امید ہے اب اس ٹیکسال والوں نے اپنے علاوہ دیگر اہالیان پاکستان کو بھی محب وطن سمجھنا شروع کردیا ہوگا ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جمہوری حکمرانوں کے حاضر سٹاک میں کم وبیش سبھی چمپیئنز قومی سلامتی مارکہ ہیں ، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ انہی سے گلشن کا کاروبار چلایاجائے۔
جیساکہ شیخ رشید نے فرمایاہے کہ جنرل مشرف کو باعزت اور محفوظ راستہ فراہم کیاجارہاہے، لہٰذا امید ہے اب ''قدم ‘‘ نہیں بڑھائے جائیں گے۔ یہ بھی کہاگیاہے کہ جس دن سے طالبان سے مذاکرات کاآغاز ہوا جنرل مشرف کی ''باعزت سیاسی رہائی‘‘ ہوچکی۔ ہلکی پھلکی موسیقی فیم وزیر اطلاعات پرویز رشید نے فرمایا ہے کہ طالبان نے ذمہ داری اٹھائی ہے کہ احرارالہند نامی تنظیم کی تلاش کریں گے۔ چلیں اچھاہوا حکومت کی یہ ٹینشن بھی ختم ہوئی ، طالبان اب دیگر دہشت گردوں کی مانیٹرنگ خود ہی کریں گے۔ حکومت نے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری طالبان کوہی تفویض کردی ہے۔اس طرح دہشت گردی کی دیرینہ بیماری پر قابو پایاجاسکے گاکہ نہیں لیکن میرتقی میر کے نسخہ صحت سے انحراف ضرور ہوگاکہ ''اسی عطا ر کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں