"TSC" (space) message & send to 7575

مے نوشی

امریکی صدر اوباما کی سکیورٹی پر مامور 007 ٹائپ سیکرٹ سروس کے ایجنٹ جیمز بانڈ کے بجائے جیمز 'بھانڈ‘ نکلے۔ وقوعہ یہ ہوا کہ ہیگ کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ آنے والے تین ایجنٹوں کو شراب نوشی پر ملک واپس بھیج دیا گیا۔ طبی معائنے سے ثابت ہو گیا کہ تینوں ایجنٹ چڑھائے ہوئے تھے۔ امریکی قوانین کے مطابق شراب پینے پر پابندی نہیں لیکن صدر کی سکیورٹی پر مامور سیکرٹ سروس کے ایجنٹ شراب نہیں پی سکتے۔ امریکہ بنیادی انسانی حقوق کا چمپیئن ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں صدر اور عام انسان کے حقوق برابر ہیں، لہٰذا اس بابت وضاحت ضرور کی جانی چاہیے کہ سکیورٹی پر مامور ایجنٹوں اور صدر دونوں میں سے ایک وقت میں کون شراب پی سکتا ہے؟
عینی شاہدین کے مطابق یہ واقعہ ایمسٹرڈیم کے ہوٹل میں پیش آیا جہاں امریکی صدر قیام پذیر تھے۔ اس دوران ان کے سکیورٹی ایجنٹ شراب پینے میں مشغول رہے۔ ہوٹل کے سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں 'ٹُن‘ دیکھا تو امریکی سفارت خانے کو اطلاع دی جس نے سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر جولیا پیرسن کو آگاہ کیا جس پر صدر کی سکیورٹی کے لیے تازہ دم اور غیر شرابی اہلکار بھجوائے گئے جبکہ مے نوش سیکرٹ ایجنٹ امریکہ واپس بھیج دیے گئے۔ اندیشہ ہے کہ خفیہ ایجنٹوں‘ جو سرعام شراب پی رہے تھے‘ کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے گا۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ امریکی صدر کی سکیورٹی پر مامور اہلکار فیض صاحب کے اس فارمولے پر کاربند تھے ؎ 
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے 
اس کے بعد آئے، جو عذاب آئے
امریکہ کے بارے میں ہمارے دوست اور مشہور اینکر سعید قاضی بہت کچھ جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قاضی صاحب پانچ سال امریکہ میں روشنیوں اور رنگینیوں کے 'پینٹاگون‘ سمجھے جانے والے شہر لاس ویگاس میں مقیم رہے۔ لاس ویگاس نائٹ کلب، جوئے، کیبر ے، شراب اور کاسینوز کا شہر ہے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ قاضی صاحب جیسے سنجیدہ، متین اور نیک انسان کی' تعیناتی‘ لاس ویگاس میں ہو گئی اور وہ پانچ سال ان 'رنگین یونیورسٹیوں‘ میں اپنے فرائض اعزازی طور پر سرانجام دیتے رہے۔ میری بدقسمتی کہ میں قاضی صاحب کے زمانے میں لاس ویگاس نہ جا سکا، میں جب ویگاس پہنچا تو قاضی صاحب لاہور منتقل ہو چکے تھے‘ یعنی 'اِدھر تم اُدھر ہم‘ والا سین تھا۔ ہمارے دوست بتاتے ہیں کہ امریکہ میں ریاستی قوانین کے مطابق کسی شخص پر شراب پینے پر پابندی نہیں سوائے اس کے کہ شراب کی خاص مقدار پی کر کوئی شخص ڈرائیونگ نہیں کر سکتا۔ مراد یہ ہے کہ امریکہ میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے کسی قسم کی غیر ذمہ داری برتنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں دونوں کاموں میں غیر ذمہ داری برتی جاتی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو زندگی میں شراب کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے ریڈ سگنل پر رکے بغیر گزر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ہاں لوگ پیے بغیر بھی'ٹُن‘ ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ ڈرائیونگ کرنے سے پہلے احتیاطًَ پی لیتے ہیں تاکہ حیات کے طویل سفر میں بور نہ ہو جائیں۔ عدم نے کہا تھا ؎
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نگل گیا
ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا
سکھوں کے بارے میں مشہور ہے‘ وہ اتنی چڑھاتے ہیں کہ شام تک ہی رات کے بارہ بجا لیتے ہیں۔ بھارتی بھنگڑا کنگ دلیر سنگھ مہدی میرے جگری دوست ہیں۔ بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھنگڑا کنگ کے ساتھ ٹریول کیا لیکن انہوں نے کبھی نہیں چڑھائی۔ میں نے پوچھا: ''بھا جی! آپ سکھ ہو کر چڑھاتے کیوں نہیں؟‘‘ دلیر مہدی نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے ایک قصہ سنایا... کہتے ہیں، ایک مرتبہ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو ریاست کا بادشاہ تھا لیکن جب اس نے چڑھا لی تو سب اسے جانی لیور (بھارتی مزاحیہ اداکار) سمجھنے لگے۔ بس اس دن میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ زندگی میں کبھی شراب نہیں پیئوں گا۔ 
ہمارے ہاں پینے کے بعد اکثر لوگوں کی طبیعت بے ہودہ ہو جاتی ہے اور بعض لوگ مے نوشی کا بہانہ بنا کر اپنے اندر کی بے ہودگی کو دو آتشتہ کر لیتے ہیں۔ کچھ کم گو چڑھانے کے بعد اور بھی چپ ہو جاتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اتنی ہے جتنی ہمارے ہاں اقلیتی ارکان کی ہے۔ میر تقی میرؔ نے مے نوشوں ان کے نجی اور سماجی مسائل کے حوالے سے کہا تھا ؎ 
کیا میرؔ شراب تو نے پی ہے
بے ہودہ یہ گفتگو جو کی ہے 
بس مے سے زبان اب نہ تر کر
مستی سخن پہ ٹک نظر کر
ہے نشۂ سامعہ دوبالا
پھر حرف نہ جائے گا سنبھالا
ہم اور ہمارے مقدر پر بعض مے نوشوں کی مے نوشی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ایلیٹ قسم کی مے نوشوں کا بھی ہاتھ تھا۔ سابق آئی جی پنجاب پولیس سردار محمد چودھری مرحوم اپنی خود نوشت 'جہان ِحیرت‘ کے باب 'تباہی کے راستے پر‘ کے صفحہ 127 پر جنرل یحییٰ خان کی حکومت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ''اس وقت ایوان صدر ہر قسم کے لوگوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ صدر پرلے درجے کا شرابی اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کا سکیورٹی انچارج کرنل بھی ہم جنس پرست تھا؛ البتہ صدر کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل اسحاق نہ صرف پکے نمازی بلکہ تہجد گزار تھے۔ اس کے علاوہ وہاں دلال اور طوائفیں بھی تھیں اور بعض کو انتہائی اہم مرتبہ حاصل تھا۔ ان میں اقلیم اختر رانی، مسز کے این حسین اور لیلیٰ مظفر سرفہرست تھیں۔ علاوہ ازیں وہاں بہت سی بدنام لیکن حسین و پرکشش عورتوں کا ہجوم رہتا تھا جو سارا دن تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ناچنے کودنے میں مصروف رہتی تھیں۔ پولیس کے سپاہی ایوان صدر کو کنجر خانہ، جی ایچ کیو کو ڈنگر خانہ اور اپنی پولیس لائنوں کو لنگر خانہ کہتے تھے‘‘۔ جنرل یحییٰ خان سے پہلے جنرل ایوب خان کو ہمارا مقدر سنوارنے کا آئیڈیا امریکہ کے ایک سیون سٹار ہوٹل میں آیا تھا جہاں کے ماحول پر تو شراب کی مستی چھائی ہوئی تھی مگر ہمارے محب جنرل ایوب خان پر ''قدم بڑھائو ایوب خان ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کی دھن سوار تھی۔ جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں شراب پر تو پابندی عائد رہی لیکن ہیروئن کے نشے نے کئی نسلیں برباد کر دیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شراب پر پابندی اور سر پر گلاس رکھ کر رقص کرنے کی دونوں 'آئیٹمز‘ معروف رہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے دستی اورکھوجی صفت سیاسی رہنما جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز کے کونوں کھدروں سے بیسیوں شراب کی بوتلیں برآمد کرکے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔ قبلہ دستی صاحب نے مختلف نیوز چینلز کے رپورٹروں اور ٹاک شوز کے اینکروں کو خالی بوتلیں مہیا کرکے ان کے نیوز پیکجز اور پروگراموں کو ریٹنگ دلانے میں معاونت فراہم کی۔ اس فرض شناسی پر دستی صاحب کی ذاتی کمپنی کی مشہوری بھی ہوتی رہی۔ دستی صاحب سے کسی نے پوچھا: ''آپ نے پارلیمنٹ لاجز کے کونوں کھدروں سے شراب کی خالی بوتلیں تو برآمد کر لیں، جنرل مشرف کے زمانے میں خالی کیے جانے والے شراب کے کنٹینر اور ڈرم سامنے کیوں نہیں لائے؟‘‘ اس پر دستی صاحب نے صرف اتنا فرمایا کہ سویلین ہوں یا ڈکٹیٹر جرم کرنے والے کو سزا دینا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کا کام ہے۔ وطن عزیز میں جمشید دستی سمیت کسی کو بھی سیاستدانوں کی کردار کشی کی اجازت ہے لیکن جنرل اگر ریٹائر بھی ہو جائے تو اسے قانون کے کٹہرے تک لانا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ ہارڈ ٹاسک بن جاتا ہے۔ جمشید دستی کی نظر میں بادہ خوار بدکردار ہوتے ہوں گے لیکن میرزا غالب نے ان سے اختلاف کیا ہے ؎ 
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا 
(جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں