"TSC" (space) message & send to 7575

ٹمپرنگ اور ماسکنگ

وینا ملک پہلی بار اپنے سسرال شکردرہ پہنچی ہیں جو خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہاٹ کا ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ وہ سسرال پہنچی تو بعض نیوزچینلز نے براہ راست ' نویکلی‘ کوریج دکھائی۔ کیمرہ اور وینا ملک پرانے ساتھی ہیں ۔اس کی زندگی کی کئی اہم سرگرمیوں کوکیمرہ محفوظ کرتا رہاہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ورلڈکلاس کرکٹرکے فیشن شوٹر بھائی کے ایک متنازع شوٹ سے وینا ملک قدرے ''مشہور‘‘ ہوئی تھی ۔ یہ مشہوری اس تشہیر جیسی تھی جسے شیخ رشید'کمپنی کی مشہوری‘ کہاکرتے ہیں ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ وینا ملک بھی شیخ رشیدکے شہر راولپنڈی سے ہے۔ جب ملک میں رحمان ملک کے چرچے تھے، شیخ رشید نے کہاتھاکہ '' اس ملک میں دوہی لوگ کام کررہے ہیں، ایک رحمان ملک اوردوسری وینا ملک ‘‘۔ رحمان ملک اب گوشۂ گمنامی میںچلے گئے ہیں جبکہ وینا ملک ایک بارپھر لائم لائٹ میں ہے۔
متنازع شوٹ وینا ملک کے راولپنڈی سے لاہور آنے کے لگ بھگ تین سے چارسال بعد کیا گیا تھا۔ وینا ملک کا اصل نام زاہدہ پروین ہے اوریہ ملتان سے راولپنڈی منتقل ہوئی تھی جہاں اس کے والدایک سرکاری ادارے میں لوئر رینک کے ملازم تھے۔ ادارے کا ذکر بوجوہ نہیں کررہا تاکہ ''غدار‘‘ قرار نہ پائوں۔ وینا ملک کا یہ شوٹ سوشل میڈیا پر دیکھا گیا تو شام کے اردو اخبارات میں ایک تنازع کھڑا ہوگیا جو بعد میں پتا چلاکہ '' فرمائشی ‘‘ تھا۔ شام کے اخبارات سے یہ تنازع صبح کے کثیر الاشاعت اخبارات کا بھی موضوع بنا۔ سوال اٹھایا گیاکہ اداکارہ نے غیرمہذب فوٹو شوٹ کیوںکرایا ؟ وینا ملک نے متنازع شوٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تصویروں کی کیمرہ '' ٹمپرنگ ‘‘ کی گئی ہے۔ وینا ملک اوراداکارہ میرا کا فنی کیریئر ایک دوسرے سے مشابہہ ہے؛ تاہم دونوں کی زندگیوں میں یہ فرق ہے کہ وینا کی تصویروں کی ٹمپرنگ اورمیرا کے ویڈیوکلپس کی ''ماسکنگ‘‘ہوتی رہی۔ مراد یہ ہے کہ متنازع فوٹوشوٹ اورغیر شائستہ ویڈیوکلپس کی تیاری میں دونوںکی مرضی شامل نہیں تھی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں استاد راحت فتح علی خاں کے ساتھ برطانیہ سے واپس وطن لوٹ رہاتھا۔ لاہور تک فلائٹ کادورانیہ آٹھ گھنٹے تھا اس لیے دوران پروازاستاد راحت سے بہت سے موضوعات پر بات ہوتی رہی۔استاد راحت نے بتایاکہ ایک ''اداکارہ ‘‘ نے نصف درجن سے زائد افراد پر مشتمل ایک ''ادارہ ‘‘ قائم کیا ہے جس کا کام یہ ہے کہ وہ اس ایکٹریس کے بارے میں نت نئے لطیفے گھڑکرایس ایم ایس کرتے اورسوشل میڈیا پر چڑھاتے رہتے ہیں ۔ موبائل ٹیلی فون اورسوشل میڈیا کوکھیل اورمشغلہ سمجھ کر استعمال کرنے والے ہزاروں لاکھوں ویلے ( فارغ ) وہ لطیفے دوستوں کو بھیج کراس اداکارہ کو لاکھوںہٹس( Hits) فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ میںنے اپنی سادہ اورغیر کاروباری طبیعت کے باعث استاد راحت سے پوچھ لیاکہ ایسی ہٹس کا اس اداکارہ کوکیا فائدہ ہوتا ہے؟ استاد راحت نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، واہ میر صاحب! آپ بھی بھولے بادشاہ ہو! آپ نے غالب کا وہ شعر نہیں سنا جس میں استاد جی نے فرمایا ہے : 
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
وینا ملک کا کیریئردو ادوار پر مشتمل ہے۔۔۔۔ ایک قبل از بالی وڈ،دوسرا بعد از بالی وڈ، میں نے یہ دونوں زمانے دیکھے ہیں۔ وینا ملک سے میری پہلی ملاقات ڈریس ڈیزائنر نجیبہ عرف بی جی نے کر ائی تھی اورکہا تھاکہ ''اس لڑکی کولاہورمیں مشہورکرنا ہے‘‘۔ سو، وینا ملک کی کمپنی کی مشہوری میںاس صحافی پیشہ بندۂ عاجزکاکردار بھی شامل ہے، لیکن میرے اس کردارکو خفیہ ہرگز قرارنہیں دیا جاسکتا۔ وینا ملک نے شکردرہ میں اپنے سسرال پہنچنے کے لئے انٹرنیشنل روٹ اپنایا۔ وہ ملتان سے پنڈی ، پھر لاہور اوراس کے بعد بھارت (بالی وڈ) کا چکر کاٹ کر خیبر پختونخوا کی بہو بنی ہیں۔ وینا ملک نے شکردرہ پہنچنے کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : انہیں فخر ہے کہ وہ پورے خیبر پختونخواکی بہو ہیں۔ وینا ملک نے آن کیمرہ اپنی حب الوطنی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ اب وہ صرف اصلاحی ڈراموں اورپروگراموں میں کام کریںگی تاکہ ملک وقوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی انسانوں کی فلاح بہبودکے لئے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ 
وینا ملک راولپنڈی سے جب لاہور آئی تھی تو لالی وڈ میں اداکارہ میرا کا طوطی بول رہاتھا۔ ویناملک ذاتی طور پر میرا سے بہت متاثر تھی اوراپنے سرپرست اورگرو مختارسے کہاکرتی تھی کہ وہ اسے''میرا ‘‘ بنادے۔کیا مختارشوبزکا سانوری جادوگر ہے جس سے ویناملک نے اپنے آپ کو میرا بنانے کی فرمائش کی تھی؟مختار فنکاروں خصوصاً نوآموز خواتین کو سٹار بنانے کا ماہر جانا جاتا ہے۔ مختار شوبزکا ایک ایسا 'رینکر‘ ہے جس نے اپنے کیریئرکا آغازاداکارہ نیلی کے ہیلپرکی حیثیت سے کیاتھا اوربعدمیں اداکارہ میرا کے منیجرکے عہدے پر ترقی پا گیا۔ اداکارہ میرا جو طبعاً ایک غیر محتاط خاتون ہے،اس ''ہیرے‘‘ کی قدر نہ کرسکی۔اس کے برعکس ویناملک ایک ذہین،محنتی اورموقعہ شناس خاتون ہے جو بساط پردستیاب مہروں کا استعمال اچھی طرح سیکھ چکی ہے۔ اس نے مختارکومیرا سے توڑ لیا‘ بالکل اس طرح جیسے ' ریٹنگ کھینچو‘ اینکر پرسن کو دوسرا چینل لے اڑتا ہے ۔ ویناملک کے ہاں مختارکی حیثیت منیجر سے کہیں زیادہ تھی۔ مختار کی اس پوزیشن کو ماسٹر مائنڈ تو نہیں کہاجاسکتا کیونکہ یہ حیثیت تو خود وینا ملک کی تھی لیکن اس ہائی فائی عہدے کے لئے مختارکی حیثیت آپریشنل ہیڈ سے کم نہ تھی۔ پاکستانی میڈیا میں ہمارے بہت سے دوست احباب نے وینا ملک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں پروڈیوسر، ڈائریکٹر، قومی اخبارات کے فلمی صفحے کے انچارج صاحبان، کلچرل رپورٹرز، نیوز چینل رپورٹرز اوربہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ وینا ملک کے کیریئر میں میرے بڑے بھائی اورملک کے نامور مزاح نگار ڈاکٹر محمد یونس بٹ کا بھی اہم کردار ہے۔ وینا کی مشہوری میں ڈاکٹر صاحب کا وہی کردار ہے جو ڈریکولا کے کردار کے لئے آئرش مصنف Bram Stoker کاتھا۔
ایک طرف وینا ملک اوراس کی ذہانتوںکی''ہزار داستان ‘‘ ہے اور دوسری جانب میراکی بے وقوفیوں کی ''شاستر‘‘ ہے۔ گزشتہ دنوں جب سوشل میڈیا پر میراکا ایک ویڈیوکلپ چڑھایا گیا تو قریبی دوستوں نے میراسے ڈانٹتے ہوئے پوچھا : '' یہ کیا 
حرکت ہے ؟ ‘‘ اس پر اداکارہ نے کہا : '' یہ میں نہیںہو ں، میری ماسکنگ کی گئی ہے‘‘۔ جس طرح وینا ملک اپنی قابل اعتراض تصویروں کو ٹمپرنگ قرار دیتی رہی اسی طرح میرا نے بھی اپنی جونیئر وینا والی تکنیک اپنانا چاہی لیکن میرا سے بھول ہوگئی کہ سٹل فوٹو اورویڈیو میں فرق ہوتا ہے۔ سٹل فوٹو یا ساکت عکاسی میں ٹمپرنگ کا بہانہ چل سکتا ہے،ویڈیو میں نہیں۔ وینا اور میرا کی ٹمپرنگ اورماسکنگ والی کہانیوں کی طرح ہمارے ہاں بہت سی کہانیوں کے تانے بانے آپس میںگڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ان کہانیوں کے عنوانات کچھ یوں ہیں۔۔۔۔امن کے لئے مذاکرات، ملکی سلامتی اورقومی وقار،آزادی اظہار اورآزادیٔ صحافت، غیر ذمہ دارانہ صحافت اورمقدمات، ساحل سمندراورای سی ایل، پنکچر زدہ حکومت، وسط مدتی انتخابات اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ وغیرہ اور اس جیسے دوسرے موضوعات مارکیٹ میں زیر بحث ہیں۔کہاجارہاہے کہ حکومت والی کہانی کااینٹی کلائمکس گیارہ مئی سے شروع ہورہاہے۔ فلم کے ہیروعمران خان ہیں۔
2008ء کے عام انتخابات سے پہلے ملک پر آٹھ سال ایک فوجی صدرکا راج تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال آٹھ برسوں کوجنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا کے نام نہاد اسلامی دورکے ساتھ جمع کریں تو یہ عرصہ 35 سال کابنتا ہے۔درج بالا محبان وطن کی حکومتوں کے تسلسل اوران حالات کو یادکریں تو یوں لگتا ہے کہ پوری قوم دکھوں کے بلیک ہول میں گم ہوتی جا رہی تھی۔ لہٰذا اب ہمیں بحیثیت قوم اس اکسیری تجربے سے باز رہنا چاہیے۔ ہمارے مسائل اوردکھوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی جمہوری حکومتوں کو پنکچر زدہ کرکے ان کی ٹمپرنگ اورماسکنگ کرنے بیٹھ جاتے ہیں جس سے ہم وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیاتھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں