وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عمران خان کو احتجاج کرنے کے بجائے پرائم منسٹر ہائوس میں مہمان بننے کی دعوت دی ہے۔ میاں صاحب نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے وزیر اعظم ہائوس آئیں ہم ان کی تواضع چائے اورکافی سے کریںگے۔ یہ کیاہوا کہ جہاں جیتے وہاں الیکشن ٹھیک ہوئے، جہاں ہارے وہاں دھاندلی کا شور مچا دیا۔ اس موقع پر احتجاج کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ تو وہی ہوا کہ ''نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ ( نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے) بہاولپور میں اس موقع پر وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی موجود تھے۔ میاں صاحب نے لوگوں سے پوچھاکہ اس وقت احتجاج کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟کیا احتجاج کرنے والے ملک میں ترقی کے خلاف ہیں؟ میاں صاحب خوش مزاج انسان ہیں، وہ سیاسی جلسوں میں ماحول خوشگوار بنانے کا فن جانتے ہیں۔ان سے پہلے میاں شہباز شریف نے اپنی تقریرکی تو میاں نوازشریف نے کہاکہ شہبازبڑی جذباتی تقریرکرتے ہیں لیکن آج مائیک ٹوٹا نہ ہی ڈائس ! یہ سن کر جہاں حاضرین نے قہقہے لگائے وہاں خادم اعلیٰ بھی تالیاں بجانے لگے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ملک میں کرپشن ختم کردی گئی ہے اوراب ہم لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میاں صاحب نے کہاکہ میں شہباز شریف کی طرح کو ئی تاریخ نہیں دے سکتا لیکن یہ کہنا چاہتاہوں کہ اگر ہمیں ٹرم پوری کرنے دی گئی تو ہم جانے سے پہلے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔
میاں نوازشریف نے اپنی حکومت کے صرف گیارہ ماہ بعد عمران خان کی طرف سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کو پنجابی عنوان دیاکہ'' کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ ، ایسا پنجا ب کی گلی محلوں میں بچوں کے کھیل میں ہوتاہے کہ وہ دوسرے کاکھیل خراب کرنے کے لئے خود بھی نہیں کھیلتے۔ 2013ء کے انتخابات کی صحت اور صاف شفاف ہونے کے حوالے سے سوال اسی وقت کیا گیا تھا۔ یہ سوال عمران خان کے علاوہ اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے بھی اٹھایا تھا ۔ آصف زرداری نے تو الیکشن کو آر اوز (ریٹرننگ آفیسرز) کا الیکشن قرار دیا تھا۔ اس کے بعد دونوں نے الگ الگ یہ کہا تھاکہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے اس لئے انتخابات کے نتائج کو قبول کرتے ہیں۔ انہی دنوں یہ بھی سنا گیاکہ چودھری اعتزازاحسن الیکشن 2013 ء میں کی جانے والی دھاندلی کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لئے شواہداکٹھے کررہے ہیں۔ چند ماہ قبل جب چودھری اعتزاز احسن دنیا نیوزکے پروگرام '' مذاق رات ‘‘ میں شرکت کے لئے آئے تو ان کا موڈ بڑا خوشگوار تھا۔ چائے پیتے ہوئے میں نے ان سے سوال کیاکہ آپ 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی دھاندلی کے حوالے سے وائٹ پیپر شائع کر رہے تھے ، وہ رپورٹ کب منظر عام پر آئے گی ؟ اس پر چودھری اعتزازاحسن نے کہاکہ ثبوت اکٹھے کرلئے گئے ہیںجب وہ سامنے لائے جائیںگے تو بہت بڑا دھماکا ہوگا۔ اسی نشست میں چودھری اعتزاز نے اپنے ٹیلی فون سیٹ میں سے اس نظم کے چند اشعار بھی پڑھ کر سنائے جو انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم '' ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ کے جواب میں لکھی تھی۔ میں نے چودھری صاحب کو ان کی شاعری پر داد دیتے ہوئے اسے ''جواب شکوہ ‘‘ کا عنوان دیاتھا۔ اس نظم میں چودھری اعتزاز نے عدل وانصاف کے حوالے سے سابق چیف جسٹس کے دیومالائی تصوراورپھر مبینہ کج ادائی کا تذکرہ کیا تھا۔ میں نے درخواست کی کہ آپ ان اشعار کو مجھے Sendکردیں جس پر چودھری صاحب نے کہا ابھی وہ وقت نہیں آیاکہ ا نہیں عام کردیاجائے۔ چودھری صاحب کے وہ اشعار میں یاد نہ کرسکا لیکن ان کا تاثر میرے ذہن میں موجود ہے۔ چودھری اعتزازکے''جواب شکوہ ‘‘کی مماثلت فیض کے '' نسخہ ہائے وفا ‘‘میں شامل ان اشعار سے تھی ؎
اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ ایک دم سے نہیں کیا۔ تما م قانونی اور آئینی دروازوں پر دستک دی مگر ان کی ایک نہیں سنی گئی ۔ عتیقہ اوڈھوکے سامان سے شراب کی ایک بوتل برآمد ہونے پر سووموٹوایکشن لیاگیا ۔ دوسری جانب دھاندلی کر کے قوم کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالاگیا جس کے خلاف ہم رٹ پٹیشن لے کر عدالت گئے تو ہمیںکہاگیاکہ 22 ہزار پٹیشنز پہلے سے موجود ہیں اس لئے ہم آپ کی پٹیشن کو ایڈریس نہیں کر سکتے۔ میں نے دھاندلی پر احتجاج کیا تو مجھ پر توہین عدالت لگادی گئی۔دھاندلی کے ایشوکو میں نے قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہا تو وہاں بھی ہماری شنوائی نہ ہوئی۔ عمران کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام قانونی اورآئینی دروازے کھٹکھٹانے کے بعد سڑکو ں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اچانک لوگوں کو سڑکوں پر لایا جارہاہے ۔عمران خان کہتے ہیں : گیارہ مئی کو ہم چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کریں گے ۔ ہمارا پہلامطالبہ یہ ہے کہ 70میں سے صرف 4حلقوں میں گنتی دوبارہ کرائی جائے تاکہ پتہ چلایاجاسکے کہ ریٹرننگ آفیسرز نے دھاندلی کیسے کرائی ہے۔ سرگودھا کے ایک حلقے میں جہاں کل ووٹوں کی تعداد 1500تھی وہاں 8ہزار ایک سو ووٹ کیسے کاسٹ ہوئے؟
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری ساری خوشیاں اورسارے'' افتخار‘‘ دونمبر ثابت ہوتے ہیں۔اس ملک میں آزاد عدلیہ کے لئے جو تحریک چلائی گئی تھی اس کے فیوض وبرکات بیان کئے جاتے رہیں گے۔ تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد یہاں دودھ اورشہدکی نہریں بہہ نکلیں گی لیکن ایسا کچھ نہیںہوا۔ابا جی کی موجودگی میں بیٹے جی نے خوب مال بنایا اورمونٹی کارلو میں سیرسپاٹے بھی کئے ۔اندرکی خبر رکھنے والوں کا کہناہے کہ '' دھاندلی ہوئی تھی ‘‘۔ گزشتہ دنوں میری ملاقات سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سے ہوئی تو میں نے ان سے پوچھاکہ 2013ء کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی میںکون کون ملوث تھا؟ مرشد پاک نے میرا سوال غور سے سنا اورصرف اتناکہا ''سب ملے ہوئے تھے ‘‘۔
یہ سب کون ہیں ؟ وطن عزیز میں انتخابات کے '' سٹیک ہولڈرز ‘‘ کون ہیں؟جنرل محمد ضیا ء الحق اس وقت سیاست میں کودے تھے جب اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اسلامی جمہوری اتحاد میں انتخابات کے معاملے پر معاہدہ ہوگیاتھا مگر ضیاء الحق گیارہ سالہ منصوبہ لے کر وارد ہوگئے۔ جنرل ضیا کے بعد ' آئی جے آئیاں ‘ بھی بنائی گئیں تھیں۔ آصف علی زرداری اورعمران خان کا یہ تاثر درست ہوسکتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں ریٹرننگ افسروں نے ''چمت کار ‘‘ دکھائی ہوں گی لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ' آئی جے آئیاں ‘ بنانے والے نیوٹرل رہے ہوں۔ مرشد پاک درست فرماتے ہیں کہ ''سب ملے ہوئے تھے‘‘۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سٹیک ہولڈر نے عملی طور پر اپنی سابق '' مہارت ‘‘ دکھانے سے گریز کیاہو لیکن اس کے آس پاس اور ارد گرد جو کچھ ہورہاہوگا وہ اس کی نظر میں ضرور ہوگا۔ ایک ''تشہیری ایجنسی ‘‘ سے ریٹائرڈ اہلکار نے جو آج کل کپتان خان کا متوالا ہے ، بتایاکہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کو پنکچر لگانے میں بہترین کارکردگی دکھانے پر ایک سال کی ایکسٹنشن دی گئی ہے۔ شیخ رشیدکے مطابق کچھ لوگوں کو صرف دوسال کے لئے لایا گیاہے،اس کے بعد وعدے کے مطابق 3 سال کے لئے مونٹی کارلو بوائے کے ڈیڈی کو لایا جائے گا ۔ ہمارا خیال ہے کہ اب سچوایشن چائے یا کافی پلانے کی نہیںرہی۔ وطن عزیزکی فصیلوں میں دھاندلی کے بھونچال اسی لئے رکھے جاتے رہے ہیں کہ وقت آنے پرگھر کے بھیدیوں کو جمہوری لنکا ڈھانے میں آسانی ہو۔ ہمارا قومی نوحہ اقبال ساجد نے یوں لکھاتھا :
جہاں بھونچال فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں