"TSC" (space) message & send to 7575

آپریشن گلو بٹ

دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سانحہ ماڈل ٹائون لاہور میں ایک اور تنازع کھڑا کرنے سے کم نہیں ہے۔ اس سانحہ کی ذمہ داری مودی سرکار پر نہیں ڈالی جاسکتی۔یہ اندوہناک واقعہ پنجاب کے دل لاہور اورمیاں برادران کی جُو میں رونما ہوا،جہاں ''شیرپنجاب‘‘ کاٹائیٹل رکھنے والے گلوبٹ نے وہی کیاجو استرا ہاتھ میں آنے پر بندر کیاکرتاہے۔گلوبٹ کو جس طرح سے گاڑیوں کے شیشے توڑتے اورلوٹ کھسوٹ کرتے دکھایاگیاوہ ٹرمینیٹرکا پنجابی ورژن دکھائی دے رہاتھا۔ پنجاب پولیس کاآپریشن ماڈل ٹائون اس طرح ناکام ہوا ہے جیسے زیر تربیت جیب کترا ریلوے سٹیشن پر واردات کرتاہوا پکڑے جانے پر ہر خاص وعام سے چھتروں اورٹھڈوں سے مارکھاتاہے۔ اپرنٹس جیب کترا جب رنگے ہاتھوں پکڑا جاتاہے تو اسے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی بھی پھینٹی لگاتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ مدعی یا راہ گیر اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے نہ کردیں لہٰذا اس کے ساتھی اسے مارتے ہوئے موقع واردات سے دور لے جاتے ہیں‘ جہاں سے وہ رفو چکر ہوجاتاہے۔ماڈل ٹائون آپریشن میں توحکمرانو ں اورپنجاب پولیس نے جیب تراشوں جیسی احتیاطی تدابیر بھی نہیں اپنائیںالٹا گُلوبٹ جیسے ''اتائی‘‘ کووقوعہ پر کھلاچھوڑ دیا۔گُلوبٹ نے ادارہ منہاج القرآن کے باہر وہی کیاجو ''فارنر‘‘ کماد کے کھیت میں کیا کرتاہے۔
سبھی لوگ علامہؒ کے اس مصرعے کی تصویر دکھائی دے رہے ہیں کہ ''عقل ہے محوِتماشائے لب بام ابھی‘‘۔ آخریک لخت کیاہواجو پنجاب پولیس ادارہ منہاج القرآن پر چڑھ دوڑی؟ جناب طاہر القادری صاحب جس فرقے کے نمائندہ مذہبی رہنما ہیں پاکستان میں اس کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں ووٹ اگر فرقوں کی بنیاد پر ڈالے جاتے تو میاں نوازشریف کی جگہ قادری صاحب ہیوی مینڈیٹ حاصل کرتے اورعمران خان الیکشن کو پنکچر لگانے کا الزام ان پر عاید کرتے ۔ ہم سب جانتے ہیںکہ موجودہ پارلیمان میں صوبائی اوروفاقی اسمبلیوں میں قادری صاحب کی جماعت کی نمائندگی صفر ہے۔جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال دور میں طاہرالقادری قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔شیخ الاسلام صرف ایک نشست جیت کر وزیر اعظم منتخب ہوناچاہتے تھے جبکہ جنرل مشرف کو ''اور بھی غم تھے زمانے میںقادری کے سوا‘‘ لہٰذا انہوں نے خواہش کا احترام نہ کیا ۔بعدازاں شیخ الاسلام نے موجودہ جمہوری اورانتخابی نظام کو یکسر بدل دینے اورانقلاب لانے کا اعلان کردیا۔ لیکن اس سے قبل مجھے یاد پڑتا ہے کہ صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے بھی الیکشن میںحصہ لیالیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔اس کے بعد تو گویا اس انتخابی نظام سے ان کا ایمان ہی اٹھ گیا اور انتخاب کے بجائے انقلاب نے جگہ پالی ۔ 
شیخ الاسلام کینیڈا منتقل ہوگئے۔ انہوں نے جنرل مشرف کے آٹھ سالہ دور میں انقلاب کی ضرورت محسوس نہ کی لیکن وہ پیپلز پارٹی کی ٹرم کے آخری دنوں میںارض وطن کو اپنے انقلاب سے روشناس کرانے پاکستان تشریف لائے اورایک منتخب حکومت کے خلاف ڈٹ گئے۔مادر پدر آزاد میڈیا کی طرف سے سیاسی کردار کشی کی تمام ترمہمات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا رویہ دیگر مقبول سیاسی جماعتوں سے قدرے جمہوری رہاہے۔ جنوری2013ء میں قادری صاحب کی طرف سے برپا کیے گئے لانگ مارچ یا انقلاب کو پیپلز پارٹی نے جمہوری اورسیاسی انداز میں ہینڈل کیاتھا۔ پیپلز پارٹی قادری صاحب کے دھرنے کے خلاف اپنے کسی گلوبٹ کو میدان میں لانے کے بجائے مختلف سیاسی جماعتوں کے 10رکنی وفد کو کنٹینر میں لے گئی تھی ۔ کنٹینر جانے والے وفد میں پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ ، قمرزمان کائرہ ، فاروق ایچ نائیک، مخدوم امین فہیم، قاف لیگ کے چوہدری شجاعت اورمشاہد حسین‘ ایم کیوایم سے فاروق ستار اوربابر غوری،عوامی نیشنل پارٹی سے افراسیاب خٹک اورفاٹاسے سینیٹر عباس آفریدی شامل تھے۔ 14جنوری کو لاہور سے روانہ ہونے والے کنٹینرکارواں نے اسلام آباد کو 17جنوری تک ہائی جیک کیے رکھا۔ شیخ الاسلام لگ بھگ 48گھنٹے سے زیادہ وقت تک مختلف ریاستی اداروں کومشورہ دیتے رہے کہ وہ حکومت کا ''جھٹکا‘‘ کردیں ۔اس سے قبل کہ ''یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے‘‘ متحرک ہوتے پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما اپنی سیاسی حلیفوں کے ساتھ کنٹینر میں حاضر ہوگئے اور قادریہ انقلاب ''ٹل ‘‘گیا۔
ایک پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جسے ہزاروں کے مجمع میں شیخ الاسلام کنٹینر سے براہ راست ظالم، بددیانت، کرپٹ اور نجانے کیاکیاکہتے رہے اوراس نے صبر وتحمل کامظاہرہ کیا۔ 14 سے 17جنوری تک کیے گئے لانگ مارچ میں شریک کسی مرد، عورت ،بچے اور بوڑھے کو پولیس کی لاٹھی نے چھوا تک نہیںتھا۔ دوسری طرف نون لیگ نے تجاوزات (بیریئر) اٹھانے کی معمولی کارروائی کو جلیانوالہ باغ جیسا سفاک سانحہ بناڈالا۔ گلو بٹ نون لیگ اور پنجاب حکومت کے لئے بروٹس سے کم ثابت نہیں ہوا۔گلو بٹ کے لئے میرے دوست اور دنیانیوز کے اینکر طارق متین نے خبریں پڑھتے ہوئے برجستہ کہاکہ ؎ 
ہوئے تم دوست جس کے ''گلو‘‘ 
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
نون لیگ کے ''رجسٹرڈ‘‘ مخالف وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ گلو کی زندگی کو خطرہ ہے ۔یہ خطر ہ اس لیے ہے کہ گلوبٹ وہ کردار ہے جس کے ذریعے سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ داران تک پہنچا جاسکتا ہے۔ٹاک شوزفورس کا کہنا ہے کہ سانحہ کے ذمہ داران کا تعین کرنے والے کمیشن کی کریڈے بیلٹی تب قائم ہوگی جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اوروزیر قانون راناثنا اللہ دونوں استعفیٰ دیں۔ پاکستان انٹرنل سچویشن سنٹر آف ریسرچ(پیس کور) نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ سانحہ لاہور کے پیچھے دشمن ملک کی ایجنسی کا ہاتھ ہے۔ اگر اس خفیہ رپورٹ پر کان دھراجائے تو یہ اوربھی خطرناک سچویشن ہے کہ دشمن ملک کی ایجنسیاںہمارے ہاں سانحات اورحادثات کرانے میں یوں مائیکرومینجمنٹ کرنے کی اہلیت اورنیٹ ورک رکھتی ہیں۔ہمارے ہاں رونما ہونے والے حادثات اورسانحات کی ذمہ داری جس طرح غیر ملکی ایجنسیوں پر ڈالی جاتی ہے‘ قرین قیاس ہے کہ کہیں کسی ادارے میں یہ رپورٹ بھی تیار کی جارہی ہوکہ گلوبٹ غیر ملکی ایجنسی کا ایجنٹ ہے۔اگر ایسی کوئی رپورٹ مارکیٹ میں لائی گئی تو اسے کوئی تسلیم نہیںکرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گلوبٹ نے جو کچھ ماڈل ٹاون میں کیاوہ خالصتاً پنجابی ہے ۔ہماری پنجابی فلموں میں لالہ سدھیر ،مظہر شاہ، سلطان 
راہی ایسے ہی دشمن کی پھٹیاں اکھیڑتے رہے ہیں ۔پچھلے پندرہ برسوں سے اداکار شان اپنے ان پیش روئوں کے انداز میں ہی دشمن کو نقصان پہنچارہاہے جس طرح گلوبٹ نے ادارہ منہاج القرآن کے باہرپولیس کی سرپرستی میںمذکورہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ 
رانا ثنااللہ نے الزام لگایاہے کہ منہاج القرآن کے اندر چنددنوں سے فدائین تیار کیے جارہے تھے‘ جن سے حلف لیا جا رہا تھاکہ وہ حکومت کے خلاف تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے جان کی بازی بھی لگادیں گے۔وزیر موصوف کایہ بھی کہناتھاکہ منہاج القرآن میں اسلحہ جمع کیاجارہاتھا۔
ہمارے ہاں سیاسی ورکروںکی حیثیت مریدوں جیسی ہی ہوتی ہے لہٰذا ان کے فدائین ہونے پر اعتراض نہیں کیاجاسکتا۔اگر یہ سچ مان لیاجائے کہ منہاج القرآن کے اندر سیاسی ورکروں یا مریدوں سے حکومت مخالف تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے جان نچھاور کرنے کا حلف لیاجارہاتھاتو پنجاب حکومت ، انتظامیہ اورپولیس پر لازم تھاکہ وہاںکسی انسان کا خون نہ بہتا اورکوئی انسانی جان ضائع نہ ہوتی ۔لیکن بدقسمی سے ایسا نہیں ہوا۔ پروفیسر طاہر القادری نے حکومت کے آٹھ اراکین کے خلاف ایڈوانس ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان کررکھاتھا،ایسی صورت حال میں اور بھی محتاط رہنے کی ضرورت تھی مگر پنجاب حکومت نے کسی قسم کی احتیاط کرنے کی بجائے آپریشن گلو بٹ کردیا۔ سانحہ میں گیارہ انسان جاں بحق ہوئے۔ تمام کا تعلق غریب گھرانوںسے تھا۔سوسے زائد زخمی ہونے والے بھی صاحب ثروت نہیں۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر تحریک اورہر انقلاب کے لئے غریب کا خون ارزاں کیوں ہے؟دہشت گردی سے لے کر انقلاب تک ہر خونی تحریک میں صرف غریب کا خون بہایاجارہاہے۔ شاید اس لیے کہ وہ سستا ہوتاہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں