وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سانحہ لاہور پر اپنے سٹار وزیر رانا ثنا اللہ سے استعفیٰ لے لیاہے ۔انہوں نے اس بات کا اعلان ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیاجس میں انہوں نے کہاکہ راناثنا اللہ کی جمہوریت اورنون لیگ کے لئے گراں قدر خدمات ہیں مگر وہ انصاف چاہتے ہیں اوراس کے حصول کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ باخبر اور سیاسی معاملات کی جہتوں کو سمجھنے والے سینئر تجزیہ نگا ر سانحہ ماڈل ٹائون کو ''گیم چینجر‘‘ قراردے رہے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عوام کے محبوب ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بھی اسی ''گیم چینجر‘‘پلان کے تحت ختم کی گئی تھی ۔بھٹو صاحب کی مضبوط حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دلوایاگیا۔پہلے مرحلے میں صوبائی اسمبلیوں کے لئے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ سامنے لایا گیا، دوسرے مرحلے میں قومی اسمبلیوں کے انتخابات دوبارہ کرانے کا مطالبہ کیاگیا اورپھر وزیر اعظم بھٹو کے استعفیٰ کے لئے تحریک چلاکر جمہوری نظام کو لپیٹ دیاگیا۔سبھی جانتے ہیںکہ جنرل ضیاالحق 90دنوں کے لئے آئے اورپھر 11 سال تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے ۔بھٹو صاحب کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے مطالبات تین مرحلوں میں سامنے لائے گئے تھے لیکن اس بار معاملات بہت تیزی سے نمٹائے جارہے ہیں۔کیا ڈراپ سین جلد متو قع ہے؟
موجودہ حالات میں ''درجہ دوم ‘‘ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹائون کی بابت صدق دل سے انصاف بہم پہنچانے کے لئے جواقدامات کئے ہیں ان پر اعتماد کرتے ہوئے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی طرف بڑھنا چاہیے ۔ہمارے ہاں دہشت گردی کی جنگ میں تقریباً 50ہزار بے گناہ پاکستانی قتل کردئیے گئے اور اس جنگ میں ہماری معیشت تباہ ہوگئی مگر متعلقین اورذمہ داران کی طرف سے مبلغ ایک عدد استعفیٰ بھی نہیں آیاجبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس ضمن میں اپنے سپر سٹار وزیر قانون کی قربانی دے دی۔
راناثنااللہ نون لیگ کی حکومتی ٹیم کے اہم رکن تھے ،وہ ایک عرصہ تک اپنے پارٹی کے لئے اسی پوزیشن پر کھیلتے رہے جہاں کبھی قومی ہاکی ٹیم کے مایہ ناز لیفٹ فل بیک منور الزماں کھیلاکرتے تھے۔رائٹ فلم بیک منظور الحسن کی پوزیشن پر خادم اعلیٰ خود پوزیشن سنبھالے ہوئے گول پر گول کررہے تھے لیکن اب اپ سیٹ ہوگیاہے۔رانا ثنااللہ کی پارٹی پوزیشن کا موازانہ اگر کرکٹ کی زبان میں کیاجائے تو ان کی حیثیت بوم بوم آفریدی جیسی رہی۔وہ ایک ایسے آل رائونڈر رہے جنہیں نون لیگ کے مخالفین کو منہ توڑجواب دینے والابڑھک باز بھی سمجھاگیا۔رانا ثنااللہ اپنی ان خوبیوں کے ساتھ نون لیگ میں اس لیے بھی نمایاں رہے کہ بنیادی طور پر وہ نون لیگی نہیں جیالے تھے ۔انہیں چونکہ پیپلز پارٹی کی گھٹی تھی اس لیے ان کی مرچی سیاست نون لیگ کے میٹھے اورہریسے سے مزین دسترخوان میں ممتاز رہی۔
رانا ثنااللہ کے استعفیٰ کے حوالے سے کئی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں‘ مخبر نے بتایاکہ رانا ثناء اللہ اپنی Expiry Date Political (سیاسی مدت میعاد) پوری کرچکے تھے۔نون لیگ میں رانا ثنااللہ کی غیر معمولی حیثیت کے پیچھے ان کے ایک ریٹائرڈ '' چوہدری کزن ‘‘ کے عہدے کی برکات شامل رہیں ۔ان کے یہ رشتہ دار ان دنوں امریکہ میں براجمان ہیں۔موصوف نے اپنے فیصلوںسے جہاں پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم کو اسلام آباد سے ملتان واپس بھجوایا، وہیں 2013ء کے انتخابات میں نون لیگ کو ہیوی مینڈیٹ بنانے کے لئے اپنے عہدے کی آئینی اورقانونی طاقت کا استعمال بھی کیا۔ رانا صاحب کے مذکورہ ریٹائرڈ کزن کے زیر انتظام تین رکنی ''فل بینچ‘‘ نے 2013ء کے عام انتخابات کے لئے نون لیگ کی کامیابی کوآئینی اورقانونی شکل دینے کے فول پروف انتظامات کیے ۔ان میں دو عدد ریٹائر ڈ خلیل اورایک شوکت شامل تھے جو پولیس کے سابق سربراہ تھے۔سب سے پہلے اس خلیل کو فارغ کیاگیا جو ''تاریخی فیصلوں‘‘ کے راقم ہوا کرتے تھے، مذکورہ خلیل گورنر پنجاب کے لئے ہاٹ فیورٹ سمجھے جاتے تھے مگر من کی مراد نہ پاسکے۔دوروز قبل رانا ثنااللہ کے ریٹائرڈ چوہدری کزن کے مانٹی کارلو فیم فرزند کو بلوچستان حکومت میں اہم عہدے پر تعینات کرنے کی بریکنگ نیوز نشر کی گئی۔مذکورہ خبر اس نیوز چینل پر نشر کی گئی جسے ''آزادی ٔ صحافت‘‘کے پندرہ روزہ ٹورنا منٹ کے لئے میدان میں اتارا جارہاہے۔لیکن کھیل کے کیری پیکر چونکہ اس کی پشت پناہی فرمارہے ہیں،اس لیے لگتاہے کہ آزادیٔ صحافت کا نیاہیروگوشہ گمنامی میں نہیںجائے گا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ محترمی قائم علی شاہ ،جو ایک طویل عرصہ سے اپنے صوبے میں بے گناہ شہریوں کی لاشیں اٹھانے میں اپنا کوئی ثانی نہیںرکھتے ، کی طرف سے بیان آیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیںکررہے۔شاہ صاحب ایسا مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں؟ان کے ہاں تو پورا کا پوراکیلنڈر سانحات سے بھرا پڑا ہے۔کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی رسم دسواں بھی ادا نہیںکی گئی تھی کہ لاہور میں پھوہڑی بچھا دی گئی ۔سانحہ 12مئی کا ذکر تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی کیاہے جس میں صبح سے لے کر شام تک کراچی میں 52انسانوں کو سرعام قتل کیاگیاتھا۔تب کسی نے بھی کسی سے استعفیٰ نہیں مانگا تھا۔البتہ اسی رات اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجا ب چوہدری پرویز الٰہی ،جناب شیخ رشید اوران کے محبوب کمانڈو صدر جنر ل پرویز مشرف نے مکا لہراتے ہوئے کہاتھاکہ ''جو بھی عوامی طاقت کے سامنے آئے گا وہ کچلاجائے گا‘‘۔اس رات شیخ رشید نے بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔سپریم کورٹ میں فوجی جنرل پرویز مشرف کا وردی سمیت صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی بابت فیصلہ متوقع تھا۔جنرل صاحب کے ساتھی توقع کررہے تھے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری فوجی جرنیل کو وردی کے ساتھ صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔یو ٹیوب پر شیخ رشید صاحب کا ویڈیوکلپ موجود ہے، جس میں شیخ رشید ایک آمر کیلئے بھی اسی جذباتی اورعوامی انداز سے انصاف مانگ رہے ہیںجیسے ان دنوں ملک کے غریبوں کیلئے عمران خان کی تبدیلی اورقادریہ انقلاب کے لئے راہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ایک ہی ''کمپنی‘‘ کے وفادار رہنا اور''کمپنی کی مشہوری ‘‘ کرنا۔
میں نے جب ہوش سنبھالاملک پر جنرل محمد آغا یحییٰ خان کا راج تھا،دیکھتے ہی دیکھتے ہمار ا ملک دولخت ہوگیا،مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا لیکن ہم نے سبق نہ سیکھا بلکہ اپنے اس محسن کو پھانسی کے تختے پر چڑھادیا جس نے اس ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کا آغاز کیاتھا۔ منہاج القرآن کے اندر اورباہر جاں بحق ہونے والوں کے لئے جتنا بھی ماتم کیاجائے کم ہے لیکن حقیقت کا کھوج لگایا جانا بھی ضروری ہے ۔
ہمارے ہاں اوجڑی کیمپ سے کراچی ائیر پورٹ کے سانحہ تک کس نے استعفیٰ دیا ؟۔پروفیسر قادری نے پاکستان آمد کے لئے سال کے گرم اور طویل دن 22جون کا انتخاب کیاہے۔شیخ الاسلام کی آمد پر میرے شہر گجرانوالہ میں ان کے قد آدم ہورڈنگزکے نیچے ان کے جن جانثاروں کے پورٹریٹس دکھائی دے رہے ہیں، انہیں شہر میں کوئی جانتا نہیں۔گجرانوالہ سمیت پورے ملک میں یہ نئے سیاسی چہرے آناًفاناً میں کیوں متعارف کرائے جارہے ہیں؟ میرے پیارے وطن میں لائے جانے والے ''انقلابی موڑ‘‘ نے مجھے ماضی اور حال کی دہلیز پر لاکھڑا کیاہے۔ اس موڑ پر مجھے اپنے جگری دوست ببوبرال کا لکھا ڈرامہ ''شرطیہ مٹھے ‘‘ یاد آرہاہے جس کی نقالی کرتے ہوئے ''شرطیہ کٹھے ‘‘ سٹیج کیا گیا۔ اپنی تاریخ، جغرافیہ اورنحس مقد ر کے تسلسل کے تحت مجھے یقین ہے کہ پیرا شوٹ سے ارض پاک پر اترنے والے یہ انقلابی بھی ''شرطیہ کھٹے ‘‘ ثابت ہوںگے۔