"TSC" (space) message & send to 7575

ہیجڑہ فورس اورانقلاب کا ری مکس ورژن

عمران خان نے بہاولپور کے جلسے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا نام باآواز بلند لیا ہے ۔کپتان نے وہاں جو مطالبات پیش کئے ان میں ایک یہ ہے کہ بتایاجائے 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی مبینہ دھاندلی میں سابق چیف جسٹس کا کیاکردار تھا؟انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس کی بحالی کے لئے وہ بھی ڈیرہ غازی خان کی جیل میں قید رہے مگر افسوس کہ وہ بہت سستے بک گئے۔عمران نے سابق چیف جسٹس کے بارے میں کہاکہ کیاانہوںنے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو بلوچستان کے بورڈ آف انوسٹ منٹ میں تعینات کرانے کے لئے انتخابات کو پنکچر لگائے؟ 
سیاستدان ہوں یا قوم کے نجات دہندہ اینکر پرسن اورصحافی حضرات‘ بھولے بھالے مسکین عوام کی تقدیر بدلنے کا یک نکتی ایجنڈا ہی بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں آزاد عدلیہ بحال ہوگئی تو غریبوں کے دن پھر جائیںگے۔حال ہی میں غریب عوام کو انقلاب کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر سانس پھُلا دیاگیا ۔ ماضی میں عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے رہے کہ اگر فلاں ''چیف ‘‘ بحال ہوگئے تو ان کی تقدیر بدل جائے گی۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کانام دیاگیاتھا۔ایک وقت تھا جب ملک کا ہر فرد، ادارہ اور خصوصاََ طاقتور میڈیا ان کی عظمت کے گن گارہاتھا۔ایسے میں محترم نذیر ناجی صاحب ،عباس اطہر مرحوم اوربندۂ ناچیزکے علاوہ اکا دکا لکھنے والا ہی اپنے کالم میں چیف صاحب سے سوال کررہاتھا۔مجھے یاد ہے کہ میرے ایک کالم کا عنوان عباس اطہر مرحوم (شاہ جی ) نے یوں رقم کیاتھا''آزاد عدلیہ یا افتخار عدلیہ؟‘‘ شاہ جی مرحوم اپنے کالموں میں افتخار محمد چوہدری صاحب سے سوال کرتے تھے جس کی پاداش میں انہیںایسی ای میلیں موصول ہوتی تھیں جو ''فلی لوڈڈ‘‘ ہوتی تھیں ۔وہ اپنے معاون سے یہ ای میل بڑے انہماک سے سنا کرتے تھے۔ معاون یہ ای میل سناتے ہوئے کبھی کبھار چپ ہوجایاکرتا تو شاہ جی سمجھ جایاکرتے کہ ''آگے خطرناک موڑ ہے‘‘۔ شاہ جی،چیف صاحب کے متعلق جوکچھ کہتے رہے‘ وہ سب سچ ثابت ہوا۔ نیوز چینلز اورالیکٹرانک میڈیا کی تیزی طراری ، غیر سنجیدگی اورمنصف بن کر حشر اٹھادینے کا کردار ادا کرنے پر بھی انہیںشدیدتحفظات تھے۔ان کاکہناتھاکہ مادر پدر آزاد میڈیااپنے ساتھ ساتھ ریاست اور جمہوریت کو بھی شدید نقصان پہنچاسکتا ہے۔ مرحوم دوتین باتیں اوربھی کہاکرتے تھے، پروردگار سے دعا ہے کہ ویسانہ ہو، لیکن لگتانہیں کہ شاہ جی کافرمایا غلط ثابت ہوگا۔ شاہ جی اورکیاکیاکہہ گئے ہیں‘ اس کاتذکرہ بشرط ِزندگی ہوتارہے گا۔ 
عمران خان نے بہاولپور کے جلسہ سے دوتین روز قبل یہ کہنا شروع کردیاتھاکہ وہ ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ایک ایسا اعلان جس سے اس ملک کے غریب عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔عمران کے تنقید نگاروںکا کہنا ہے کہ کپتان نے اپنے چاہنے والوںکو اگلی تاریخ دے دی ہے۔یعنی 27جون کے دن14اگست کی تاریخ دے دی گئی ۔ بہاولپور کے جلسے میں دراصل عمران خان نے اسلام آباد کے جلسے کااعلان کیا۔عمران کی طرف سے ایک خاص میڈیا ہائوس کی مخالفت کے علاوہ باقی تمام وہی باتیں کہی گئیں جو وہ پہلے سے کہہ رہے ہیں۔
(1)11مئی کو کس نے فتح کی تقریر کروائی؟
(2)سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کیاکردار تھا؟
(3)نگران حکومت کا کیاکردارتھا؟
(4)الیکشن کے دن 35حلقوںکے نتائج کس نے تبدیل کروائے؟
آپ خود ہی جائزہ لیں خان صاحب نے کونسی نئی بات کی ہے۔یہ باتیں تو وہ شروع سے ہی کررہے ہیں۔عمران خان نے الزام لگایاکہ نون لیگ نے الیکشن میں دھاندلی کرنے کے لئے لاہور میں ایک ''انڈر گرائونڈالیکشن سیل‘‘ بنایاتھا۔ یہ اطلاع بھی میں نے اپنے ایک دوست مخبر کے ذریعے چند روز پہلے اپنے کالم میں دی تھی‘ جس میں بیان کیاگیاتھاکہ مذکورہ انڈر گرائونڈ الیکشن سیل ''2عدد خلیلوں‘‘ اورایک'' شوکت‘‘ پر مشتمل تھا جو پولیس کے سابق آئی جی تھے۔
عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ 14اگست کے دن وہ لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے‘ جس میں کم از کم 10لاکھ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔10لاکھ لوگ واقعی بہت ہوتے ہیںمگر سچ یہ ہے کہ ماضی میں عمران خان کے متوقع مجمع سے تین، تین گنا لوگ سڑکوں پر نکل کر مقتدر قوتوںکو یہ پیغام دیتے رہے کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیںمگر اس ملک میں غریب کے حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوتے گئے۔ساٹھ کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل فیلڈ مارشل ایوب خان کومحب وطن سمجھا گیا۔بھٹو صاحب عوام کے مقبول ترین لیڈر تھے جنہوںنے صحیح معنوں میںایسے اقدامات کیے جن سے واقعی غریب کے دن پھرنے والے تھے مگر 
انہیں بقول ہنری کسنجر ''عبرت کی مثال بنادیاگیا‘‘۔بھٹو صاحب کے بعد گیارہ سال تک جنرل محمد ضیاالحق آرڈر پر مال تیار کرنے کی مصداق اپنی پسند کی لیڈر شپ بناتے رہے ۔ ان دنوں میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ اورمحترمہ بے نظیر بھٹو عوام کی مقبول ترین لیڈر تھیں۔ ڈیزائن کے مطابق محترمہ اورنوازشریف کے مابین دو،دو، ڈھائی، ڈھائی سال کے لئے اقتدار کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی کھیلاگیا۔جس کے بعد لگ بھگ 9 سال کے لئے جنرل مشرف آگئے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اس ملک پر براہ راست لگ بھگ 35سال تک حکومت کرتے رہے اور اب پروفیسر قادری پھر جس انقلاب کا نقشہ پیش کررہے ہیںاس کابنیادی خیال انہیں انقلابات سے مستعار کیاجارہاہے ۔انقلاب کے اس پرانے نلکے سے تو اب ایک عرصہ سے ریت آنی شروع ہوچکی ہے ۔ وہ تو شکرہے کہ قادری صاحب عوام کے نمائندہ نہیں ہیں وگرنہ موصوف نے تو ''عطار کے لونڈے‘‘ والا اکسیری نسخہ ہی پانچویں مرتبہ بھی تجویز کردیاتھا۔ عمران خان اور تحریک انصاف ملک کی نمائندہ سیاسی قوت ہے‘ شکر ہے کہ وہ انقلاب کا یہ ری میکس پاپ ورژن نہیں گارہے ۔مگر پرہیز علاج سے بہتر ہوتاہے‘ انہیں پتے دھیان سے کھیلنے چاہئیں۔
خبرگردش کررہی ہے کہ عمران خان آئندہ ٹاک شوز اوراپنے دیگر انٹرویوز میں متذکرہ ریٹائرڈ جسٹس کا نام بھی ببانگِ دہل لیاکریں گے جو مبینہ انڈرگرائونڈ الیکشن سیل کے انچارج تھے۔میاں نوازشریف نے گلہ کیاہے کہ یوں تووہ تیسری باروزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں‘اصولی طورپر ان کے اقتدار کا گیارہواں سال ہونا چاہیے مگر ایسانہیں ہے ۔انہیں اقتدار سنبھالے ہوئے صرف چھٹا سال ہے ۔اس بار بھی میاں صاحب اپنے پانچ سال پورے کرپائیںگے اس کا بھی انہیں یقین نہیںہے۔ اسی لئے انہوں نے کہاہے کہ اگر انہیں پانچ سال اقتدار میں رہنے دیا گیا تو وہ عوام کی تقدیر بدل دیںگے۔دوسری طرف عمران خان کو ان کے ایک سال میں صرف میٹروبس ہی ترقیاتی منصوبہ دکھائی دیتاہے۔
اس بار بھی میاں صاحب عوام کی تقدیر بدل پاتے ہیںیانہیں؟اس کا فیصلہ جلد یا بدیر ہوجائے گامگر کراچی میونسپل کارپوریشن اورکمشنر آفس بازی لے گئے ہیں۔دونوں ذمہ داران نے ہیجڑہ پرائس کنٹرول فورس ترتیب دی ہے جس میں ہیجڑوں نے رضاکارانہ طورپر چھاپے ما ر کر ایک محدود علاقے میںاشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کنٹرول کرلیاہے۔
ہیجڑہ فورس کا طریقہ کار غیر روایتی اورجارحانہ ہوتاہے۔وہ زرق برق لباس زیب تن کرکے میک اپ کرنے کے بعد میدان عمل میں نکلتے ہیں۔کمان سے نکلے ہوئے تیروالے محاورے کواگریوں بیان کروں کہ'' ڈیرے سے نکلاہوا ہیجڑہ اورکمان سے نکلاہواتیر کبھی واپس نہیں آتے ‘‘ تو غلط نہ ہوگا۔ہیجڑے گراں فروشوں پر یوں ٹوٹ پڑے تھے جیسے مہابھارت میں کورونے پانڈو کوٹف ٹائم دیاتھا۔مہنگی مرغی یا دال بیچنے والے کو ہیجڑوں نے یوں تالیاں بجا،بجاکر طعنے دئیے ''مہنگی مرغی شیم شیم‘‘ ''دالیں مہنگی شیم شیم‘‘۔ یوٹیلٹی سٹوروالوں کی بھی ہیجڑوں کے ہاتھوں شامت آئی۔ ہیجڑے گراں فروشوں کو براہ راست بے نقاب کررہے تھے اورانتظامیہ انہیںجرمانہ کررہی تھی۔یہ تھا ہیجڑوں اورکراچی کی انتظامیہ کا جوائنٹ ایکشن جس سے گراں فروشوں کو قابو کیاجارہاتھا۔ دوسرے شہروں اورصوبوں کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہے اورضروریہ بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں