برازیل کی ٹیم،برازیل میں یوں ہاری جیسے پیپلز پارٹی پنجاب میں ہارتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کبھی برازیل ہوا کرتاتھا۔فٹبال کے میدانوں میں برازیل سے تعلق رکھنے والے لیجنڈ استاد Pele کے نام کی طرح پنجاب میں بھٹو صاحب کا نام ہی کافی تھا۔70ء اورپھر 77ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں جس طرح ہونجا(جھاڑو) پھیرا اس کے بعد مقتدر حلقوں نے فیصلہ کیاکہ اس کا سائز کٹ کیا جائے۔ 70ء میں بھٹو پنجاب اورسندھ میں طوفان بن کر چھا گئے تھے۔پنجاب کو بھٹوکا گڑھ کہاجاتاتھا اوراس کی گلیوں اوربازاروں میں ''ساڈا بھٹو آوے ای آوے ‘‘ کے نعرے گونجتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے تو 1988ء کے انتخابات میں بھی پنجاب اورخصوصاً لاہور میں 'ہونجا‘ پھیر دیا تھا۔ یہ وہی الیکشن تھا جس میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے جنرل ریٹائرڈ حمید گل اینڈ کمپنی حرکت میں آئے تھے۔ جنرل حمید گل ببانگ ِدہل آئی جے آئی بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔88ء کے انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی 9نشستوں میں سے 6پیپلز پارٹی جیتی تھی‘ جس کے بعد اس قومی جماعت کو ''صوبہ بدر‘‘کرنے کا پروگرام پکا کرلیاگیا۔بعد میں ہونے والے عام انتخابات میں پارٹی کا سائز حسب منشا کرنے کے پروگرام پر قسط وار عمل کیاجاتارہا۔اور اب حالت یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی برازیل کی فٹ بال ٹیم بنا دی گئی ہے۔
8 اور 9جولائی کی درمیانی رات فٹ بال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جب جرمنی نے برازیل کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی گول کردیے تو ٹوئٹر پر بھی سیمی فائینل شروع ہوگیا۔ اس رات مجھ پر انکشاف ہوا کہ شیخ رشید ٹی وی ٹاک شوز کے علاوہ ٹوئٹر کے بھی ڈیگو میراڈونا ہیں۔ جونہی شیخ رشید نے ٹویٹ کیا‘ ٹوئٹر پرPolitical Satire (سیاسی طنز ومزاح) کے ٹویٹس کا ٹرینڈ شروع ہوگیا۔ شیخ رشید کاٹویٹ کچھ یوں تھا ''جرمنی نے برازیل کے خلاف نصف درجن گول کردیے ہیں، جرمنی والے اگر نون لیگی ہوتے تو اب تک وکٹری سپیچ کروادیتے ‘‘۔ اس کے بعد بہت سے دوسرے افراد نے بھی دلچسپ ٹویٹ کئے ۔ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ''لگتاہے کہ برازیل نے اپنی ہاکی ٹیم کو گراونڈ میں اتارا ہے‘‘۔ایک ٹویٹ تھا: ''اگر میں نے جرمنی کی ٹیم کو برلن کی گلیوں میں نہ گھسیٹاتو میرا نام شہباز شریف نہیں ،برازیلین شہباز شریف‘‘۔ اس رات بندہ پرور نے بھی شیخ رشید کی پیروی کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا جسے اس رات سب سے زیادہ Retweetکیاگیا ۔میں نے ٹویٹ کیا تھا: ''برازیل کو برازیل میں ہارتا دیکھ کر لگا جیسے پنجاب میں پیپلز پارٹی ہارتی ہے‘ لگتا ہے کہ برازیل کی ٹیم کی قیادت بھی میاں منظور وٹو کے ہاتھ ہے‘‘۔
مذکورہ ٹویٹ کو جہاں بہت سراہاگیا‘ وہاں کچھ لوگوں نے پیپلز پارٹی کو برازیلی ٹیم کہنے پر اعتراض بھی کیا۔بعض نے یہ بھی یاد دلایا کہ 2013ء کے انتخابات میںپیپلز پارٹی کو عدلیہ ،طالبان اورآزادی ء صحافت ''فیم میڈیا ‘‘ کا سامنا کرنا پڑرہاتھا۔اس ضمن میں منظور وٹو صاحب کی صاحبزادی جہاں آرا وٹو نے بھی ٹویٹ کیاجس میں انہوں نے لکھا کہ:
"I disagree, Wattoo won his seat, Win comes only by hard working in team like captain" مراد یہ کہ میں نہیں مانتی ، وٹو نے اپنی نشست جیتی تھی، ٹیم اس وقت جیتتی ہے جب سبھی کپتان کی طرح محنت کریں۔جہاں آرا وٹو نے درست کہاکہ ٹیم اسی وقت جیتتی ہے جب سبھی کھلاڑی کپتان کی طرح محنت کریں۔ لیکن کپتان کا کام صرف اچھا کھیلنا ہی نہیںہوتا‘ اچھا کھلانا بھی ہوتاہے۔وٹو صاحب کی جیت کپتان مصباح الحق اوربھارت کے سابق کپتان لٹل ماسٹر سنیل گواسکر جیسی ہے۔دنیائے کرکٹ کے مذکورہ آل رائونڈروں کی شاندار ففٹیاں اورسنچریاں بھی بعض اوقات ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہیں کر پاتی تھیں۔ وٹو صاحب کو ُٹک ُٹک اورلٹل ماسٹر تو قرار دیاجاسکتا ہے لیکن جاوید میانداد نہیں‘ جن کے چھکے نے شارجہ میں پاکستان کی جیت کی تاریخ رقم کی تھی ۔
اس رات میں نے محسوس کیاکہ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ متحرک سیاستدان شیخ رشید اور ایم کیوایم کے واسع جلیل ہیں۔ایم کیوایم کی ٹوئٹر مینجمنٹ بھی ویسی ہی ہے جیسی ان کی میڈیا مینجمنٹ۔ سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ متحرک ایم کیوایم اورپی ٹی آئی ہیں۔پی ٹی آئی کے اسد عمر،ناز بلوچ،ڈاکٹر عارف علوی اوردیگر باقاعدگی سے ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔نون لیگ ٹوئٹر لور ز نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ اس میڈیم کو نظر انداز کیے ہوئے ہے۔نون لیگ میں سب سے زیادہ فالورز محترمہ مریم نواز شریف کے ہیں۔بلاول بھٹوملک کے سیاسی حالات اورمختلف ایشوز کے حوالے سے ٹویٹ کرتے ہیںتو ٹوئٹر پر ایک Trendشروع ہو جاتا ہے۔ 2013ء کی انتخابی مہم انہوں نے ٹوئٹر پر ہی لڑی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں بھی ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔یہ دھمکیاں انہیں طالبان اوردہشت گردوں کی طرف سے دی گئی تھیں۔کیسی عجیب بات ہے ، ایک طرف طالبان جمہوریت اور انتخابات کو مانتے نہیں دوسری طرف وہ بعض جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے عمل سے روکتے رہے اور بعض کی تو وہ باقاعدہ مدد کرتے رہے بلکہ ان کے مینڈیٹ کو ہیوی بنانے کے انتظام وانصرام میں ملوث رہے۔حرام اورحلال ،نیکی اوربدی ،سزا اورثواب کے ان عملیات کو اگر عنوان دینا مقصود ہوتو غالب سے بہتر کون ہوگا جس نے کاروبار زندگانی کی ایسی وارداتوں کے لئے کہاتھاکہ ؎
غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
وطن عزیز میں جمہوریت پسند جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہوگئی ہیں‘ جن میں حکمران نون لیگ اورپیپلز پارٹی شامل ہیں،کراچی پر نوازشریف کی نوازشوں کے باعث متحدہ بھی ان کی آمدپر کہہ رہی ہے کہ ''نی میں شکر ونڈاں میرا میاں گھر آیا‘‘۔ متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے وزیر اعظم کی طرف سے کراچی کے لیے ترقیاتی منصوبوں اور عوامی سہولیات فراہم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیاہے ۔کراچی میں وزیر اعظم نوازشریف کے ہمراہ خواجہ سعد رفیق کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ متحدہ اورنون لیگ میں ورکنگ ریلیشن شپ استوار کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔
کاش !ہماری سیاست میں سیاسی مخالف کو غدار اورملک دشمن قرار دینے کی رسم ختم ہوسکے۔درجنوں بار ایسا ہوچکا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو غدار اور سکیورٹی رسک قراردیالیکن وقت آنے پروہ ایک دوسرے کے گلے کا ہار بن گئیں۔ظاہر ہے وہ یہ سب قومی مفاد اورجمہوری نظام کے ''استحکام‘‘ کے لیے کررہی ہوتی ہیں لہٰذا کسی قسم کی طعنے بازی نہیںکی جانی چاہیے۔ شیخ رشید صاحب نے فرمایاہے کہ فوج ،وزیر اعظم نوازشریف کی تصویر پر کراس لگاچکی ہے۔جواب میں پرویز رشید نے کہاہے کہ فوج نوازشریف کے بجائے دہشت گردوں پر کراس لگاچکی ہے اوراس کا ثبوت آپریشن ضرب ِعضب ہے۔ آئین کے مطابق فوج، حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔کسی سیاستدان کو اس کی ترجمانی نہیںکرنی چاہیے۔جنرل کیانی کے دور میں بھی فوج کے اللہ واسطے والے ترجمان اپنے کھاتے سے ''پریس ریلیز‘‘ جاری کرتے رہے لیکن حکومت نے پانچ سال پورے کیے؛ تاہم اس سارے کھیل سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ٹاک شو انڈسڑی سمیت سوشل میڈیا پرشیخ رشید راج کررہے ہیں۔ شیخ صاحب ''شہنشاہِ ٹوئٹر ‘‘ بھی ہیں اوریہ سب جانتے ہیںکوئی کسی قسط وار انقلاب اورلانگ مارچ عوام کا مقدر بدلنے والا نہیں ہے۔گرائونڈ میں موجود سبھی کھلاڑی اوران کے بازو آزمائے ہوئے ہیں‘ لہٰذا کبھی کبھار ایسا ٹویٹ بھی کیاکریں جس سے ملک کی سیاست میں تندی وتیزی کے بجائے شیرینی پھیل سکے۔ دائیوں سے پیٹ نہیں چھپائے جاتے۔ شیخ صاحب سب کو جانتے ہیںکہ کون کون حب الوطنی کے کتنے کتنے پانی میں ہے؟ محب وطن اورغیر محب وطن کی کہانیاں چھوڑیں اور موبائیل سیٹ اٹھائیں۔ میاں نوازشریف کے نام ایک ٹھنڈا اور میٹھا ٹویٹ کریں۔ ظاہر ہے اس سے ملک کے غریب عوام کی تقدیر تو نہیںبدلے گی، کم از کم سٹاک ایکسچینج انڈکس تو بہتر ہوسکے گا۔