اپنے گزشتہ کالم ''کا ر سے بے کار ہونے تک‘‘ میں، میںنے اپنے گھر کے عین باہر سے ذاتی اوراکلوتی گاڑی کے چوری ہونے کی کتھا بیان کی تھی ۔میرے لٹنے کی کہانی یوں ہٹ ہوئی‘ ماضی میں جیسے حسن طارق مرحوم اور گرودت کی ٹریجک سٹوریز فلم بینوں کو رلانے کے ساتھ ساتھ باکس آفس پر جھنڈے گاڑا کرتی تھیں۔ دبئی، سائوتھ افریقہ، برطانیہ، امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیااوربھارت میں مقیم یاربیلی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اظہار یک جہتی بھی کررہے ہیں۔یوں گاڑی کی چوری پر مجھے بین الاقوامی اوربین المذاہب قسم کی ہمدردیاں میسر آرہی ہیں۔اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون سے زیادہ منصف ،مہذب اورہمدرد تو میرا یار دلیر سنگھ مہدی ہے جس نے کہاکہ ''مہاراج !دہلی توں گڈی بھیجاں‘‘ یعنی مہاراج! دہلی سے گاڑی بھیج دوں۔بان کی مون نے اپنے دورے کے دوران اسرائیل کے مظالم کی مذمت نہیں کی حالانکہ بین الاقوامی برادری کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے انہیں دوٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے تھا۔اسرائیل کے دورے پر یوں لگا جیسے بان کی مون اپنی زبان اورضمیر گھر چھوڑ آئے تھے۔دلیر مہدی مجھے بان کی مون سے بڑا انسان بلکہ مہاراج لگا۔ میں نے دلیر مہدی کو تسلی دی کہ میں زیادہ دن تک ''بے کار‘‘ نہیں رہوں گا اور جلد اپنے لئے کسی مناسب سواری کا بندوبست کرکے ''کار آمد‘‘ کہلائوں گا۔ دلیر مہدی کو جب یہ محسوس ہواکہ نقصان ہونے پر میں اداس ہوں تو اس نے ٹیلی فون کال پر ہی کنسرٹ برپا کردیا۔وہ پورے زور سے اپنا یہ مقبول گیت گارہاتھا:
ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے
زندگی دے سارے مزے کیش کرو گے
میری گاڑی کے چوری ہونے کے موقع پر دلیر مہدی کی طرف سے ''عیش کرو گے ‘‘ کا نعرہ سولہ آنے بے موقع اوربے محل تھا، بالکل اس طرح جیسے ہمارے ہاں چند دنوں سے انقلاب اورتبدیلی کے بے موسمی نعرے لگائے جارہے ہیں ۔دلیر مہدی شاید اپنے سکھ سٹائل سے میری تھراپی کررہاتھا‘ اس لیے میں نے اپنے دوست کی طرف سے یہ نغماتی ہمدردی وصول پائی ۔ دلیر مہدی کی طرف سے پیش کردہ گاڑی تو اسلام آباد اوردہلی کے مابین کشیدہ تعلقات کے باعث میرے تک نہیں پہنچ سکی لیکن طارق متین کی گاڑی نے مجھے پیدل نہیں ہونے دیا۔ان دنوں میں دفتر آنے جانے اورگھر کے کام کاج کے لیے ''دنیا نیوز‘‘ کے ہونہار نیوز اینکر، کالم نگار اور اپنے دوست طارق متین کی گاڑی استعمال کررہاہوں ۔دعا ہے کہ کسی کی گاڑی چوری نہ ہو ، سکرین پلے کے مطابق اگر ایسا ناگزیر ہو توپھر سٹوری میں طارق متین جیسا دوست ضرورہونا چاہیے‘ آپ کی زندگی کی فلم فلاپ نہیںہوگی۔
انٹر نیشنل سرکٹ میں امریکہ کا کردار ''ٹرمینیٹر ‘‘ جبکہ اسرائیل ''دی ڈیولز‘‘کی طرح ہے ۔مقامی سرکٹ میں نمائش کی گئی فلم میں وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور عمران خان کے کردار توجہ اپنی جانب مبذول کرائے ہوئے ہیں۔صوبائی سطح پر خاد م اعلیٰ واحد ایسے ٹیلنٹ ہیں‘ جو یوں تو صوبے کی نمائندگی کرتے ہیںلیکن ان کی پرفارمنس اورفین شپ انہیں مین سٹریم سٹارز میں لاکھڑا کرتی ہے۔واضح رہے کہ اس وقت ان کی مائیک توڑ نے والی پرفارمنس کی بات نہیں کی جارہی۔خادم اعلیٰ کے انداز حکمرانی کا دوسرے وزرائے اعلیٰ کے حوالے سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو شہباز شریف ''جوبلی کمار‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہوتاآیا ہے کہ سٹار کا سٹ اور بولڈ قسم کے آئٹم نمبر ز بھی فلم کو سپورٹ نہیں کرپاتے ۔حکمرانوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ ان کے تمام ترقیاتی منصوبوں پر لوڈشیڈنگ کی ناکامی بھاری پڑرہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم‘ جنہیں پاکستان کے بے تحاشا مسائل کے ساتھ ساتھ جہاں لاکھوں متاثرہ افراد (آئی ڈی پیز) کا میگا مسئلہ درپیش ہے‘ وہاں عمران خان جیسے سیاسی مخالف کا سامنا بھی کرنا پڑرہاہے۔
عمران خان کاکہنا ہے کہ ملک میںجاری آپریشن کے باعث 9لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہیں اوروزیر اعظم سب کچھ چھوڑ چھاڑ عمرہ کرنے چلے گئے ہیں۔پوری نون لیگ میاں نوازشریف کے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے اورعمران خان کے بیان کی مخالفت کرکے ثواب ِدارین حاصل کررہی ہے ۔اس دوڑ میں خواجہ سعد رفیق، رانا مشہود اورلوڈشیڈنگ فیم عابد شیر علی سب سے آگے ہیں۔ وزرا ء بہادروں کی طرف سے میاں نوازشریف کے 9روزہ عمرہ کو زبردست اندا ز میں سپورٹ کیاجارہاہے۔ عمرہ عموماً چھ دن کا ہوتاہے۔ میں نے تین روزہ عمرہ کیا تھا جو ٹرانزٹ ویزا پر ہوتاہے۔ عمرہ افضل عبادت ہے ،یہ صاحب استطاعت مسلمانوں کے لئے بہت بڑی سعادت ہے ۔میاں نوازشریف اپنے ذاتی خرچے پر سعودی عرب میں عبادت کرنے میں مصروف ہیں‘ عمران خان کو عمرے جیسی عبادت کایوں تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی کی رہنما عائشہ گلے لئی کا کہنا ہے کہ عمران خان عمرہ اورعبادت کا تذکرہ نہیں کررہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت تک حج اورعمرہ قبول نہیںہوتاجب تک آپ اپنے فرائض اد ا نہ کرلیں۔نوازشریف مسائل اور مشکلات کے پہاڑ پیچھے چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے ہیں‘ ان کے اس اقدام کا قوم کو کیا فائدہ؟
میرے شہر گجرانوالہ میں بھی متعدد کاروباری حضرات ہر سال عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ عمرہ پر جانے والوں کی غالب اکثریت گیارہ مہینے جرمنی کی فٹبال ٹیم کے کھیل کی طرح جم کر کاروبار کرتی ہے اورپھر سال کے آخر میں عبادات کرکے اللہ کے ہاں سے بھی ''لمبا مال‘‘ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں کیامقام ہے یہ وہی بہتر جانتا ہے لیکن دنیاوی طور پر ان کے درجات اوردولت دن دگنی اوررات چوگنی ترقیاں کرتی رہتی ہے۔یہ نعمت یافتہ طبقات اور حکمران غریبوں کو یہی باور کرواتے ہیں کہ ان کی ایسی حالت کے ''آڈر‘‘ آسمانوں سے آئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دولت اور نعمتوں کی یہ غیر منصفانہ تقسیم ان کی اپنی ہے۔یہ میگا فراڈ ہے جسے آسمانی فیصلہ قراردیاجاتاہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت پرجو ایف آئی آر کاٹی گئی تھی اس میں سب سے سنگین الزام لوڈشیڈنگ کا عائد کیا گیا تھا۔ لگتاہے کہ نون لیگ کی حکومت کی بساط لپیٹنے کے لئے بھی اسی آزمودہ اورپرانی ایف آئی آر میں چند نئی دفعات کا اضافہ کردیاجائے گا۔ کرم جلی حکومت نے رحمتوں اوربرکتوںکے مہینے کو لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے عذاب بنادیاہے۔مجھے جیسے پانچ مرلہ ہائوسنگ سکیم کے مکین کے ہاں 26785روپے کا بل بھیجا گیا ہے۔ یوں لگتاہے بجلی کا بل سلطانہ ڈاکو یا کم از کم کسی ملنگی ڈاکو کی طرف سے بھیجا گیاہے۔شیخ رشید درست کہتے ہیںکہ اس ملک میں بجلی کا بحران کبھی حل ہوگیاتو بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ دنیا کی ایسی کونسی حکومت ہوگی جوبجلی کا یونٹ 25سے 30روپے میں پیدا کرے اورپھر اسے 12روپے میں فروخت کرے۔ نندی پو رپاور پروجیکٹ کا افتتاح 31مئی کو کیاگیااور ٹھیک پانچ دن بعد وہ بند ہوگیا۔
پہلوانوں کے شہر سے تعلق رکھنے والے احباب بتاتے ہیں کہ یہاں ہزاروں لوگوںکو جمع کرکے میاں نوازشریف ہیلی کاپٹروں کی بارات میںگجرانوالہ میں نندی پور پاور پروجیکٹ کا افتتاح کرنے آئے اورصرف پانچ دن بعد یہ بند ہوگیا۔نندی پور میں پیدا کی جانے والی بجلی ہمارے لئے آسمانی بجلی بن گئی ہے۔ حکمرانوں میں اورکوئی صلاحیت ہویانہ ہو وہ سنجیدہ ضرور ہونے چاہئیںلیکن ہم ایسے خوش قسمت واقع نہیںہوئے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ کیبنٹ میٹنگ جاری تھی کہ اچانک لاہور سے ٹیلی فون آگیاکہ شب دیگ پک چکی ہے۔سلطانی گواہ بتاتاہے‘ فرمایا گیاکہ شب دیگ کی خوشبو ٹیلی فون سے آرہی ہے۔ اسی وقت میٹنگ چھوڑ چھاڑ لاہور کی اڑان بھری گئی تاکہ شب دیگ سے لطف اندوز ہوا جائے۔ معدے اوردماغ کا تال میل ہوتاہے لیکن بعض کیسز میں اس کا تبادلہ ہوجائے تو صورت حال سنگین ہوجاتی ہے۔اوپر والاہمارا محافظ ہو۔آمین